Baseerat-e-Quran - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
( اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا) جس کے ( برے اور بد ترین) اعمال اس کی اپنی نظروں میں خوبصورت بنا دیئے گئے ہوں اور وہ خود بھی ان کو اچھا سمجھتا ہو ؟ بیشک اللہ جس کو چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ (اے نبی ﷺ آپ حسرت و افسوس میں اپنی جان نہ گھلایئے۔ اللہ ان کی حرکتوں سے واقف ہے۔
لغات القرآن ( آیت نمبر 8 تا 10) زین (خوبصورت بنا دیا گیا) سوئ (برائی) را (اس نے دیکھا) یصنعون (وہ بناتے ہیں) تثیر (اٹھاتی ہے) سقنا ( ہم نے سیراب کردیا) بلد (شہر ، بستی ( ب ۔ ل د) النشور (قیامت میں) دوبارہ اٹھایا جانا) یصعد ( وہ چڑھتا ہے) الکلم (باتیں ، اعمال) یرفع (وہ بلند کرتا ہے) یمکرون ( وہ فریب دیتے ہیں) یبور ( برباد ہوتا ہے ، اکارت جائے گی) تشریح : آیت نمبر 8 تا 10 :۔ اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ نے اپنے بندوں سے جو بھی وعدے کئے ہیں وہ سچے ہیں اور پورے ہو کر رہیں گے لیکن شیطان اپنے جھوٹے وعدوں میں لوگوں کو پھنسا کر اپنے ساتھ جہنم میں لے جانا چاہتا ہے ۔ اس کی تدبیریں اس قدر پر فریب ہوتی ہیں کہ انسان ان کو مشکل کشا سمجھنے لگتا ہے لہٰذا اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ شیطان کا سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ وہ انسان کو برے اعمال پر اکساکر یہ سمجھاتا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہی سب سے بہتر اور نیک کام ہے۔ وہ آدمی ان کاموں کو کرتے کرتے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ واقعی وہی صحیح راستے پر ہے اور اس کا ہر عمل بر حق ہے یہ وہ دھوکہ ہے کہ جو بھی اس میں پھنس جاتا ہے وہ گمراہی کو ہدایت ، اندھیرے کو روشنی اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے اور بھٹک کر اللہ کی رحمتوں سے بہت دور نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرلیتے ہیں وہ دنیا اور آخرت کی ہر کامیابی حاصل کرلیتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب ہدایت و گمراہی ، حق و باطل ایک جیسے نہیں ہو سکتے تو ان دونوں کا انجام بھی یکساں نہیں ہو سکتا لہٰذا آپ اس حسرت اور افسوس میں اپنی جان نہ گھلائیں کہ لوگ راہ مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی کی دلدل میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ کو ان جیسے لوگوں کے سارے کرتوت اچھی طرح معلوم ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہے ؟ فرمایا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا انہیں کائنات کے اس نظام پر غور کرنا چاہیے کہ جب زمین خشک ، بنجر اور بےرونق ہو کر رہ جاتی ہے اور ہر طرف دھول اڑنے لگتی ہے تو اللہ سمندروں میں ایسی کیفیت پیدا کردیتا ہے کہ اس سے مون سون اٹھتا ہے اور وہ بادلوں کی شکل اختیار کر کے ایک اختیار زمین پر برستا ہے تو اس مردہ زمین میں دوبارہ ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے اور خشک زمین سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح جب تمام کائنات کے جان دار مر چکے ہوں گے تو اللہ کی یہ قدرت ہے کہ وہ تمام لوگوں کو زندہ کر کے میدان حشر میں جمع کرے گا اور ان سے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لے گا ۔ اس بات پر یقین کامل رکھنے والوں کو آخرت کی عزت نصیب ہوگی کیونکہ ساری عزت و عظمت اللہ ہی کے پاس ہے۔ فرمایا کہ انسان اچھے یا برے جیسے بھی اعمال کرتا ہے وہ اللہ کی طرف بلند کئے جاتے ہیں اور فیصلے بھی وہیں سے آتے ہیں ۔ گناہ گاروں کو شدید عذاب دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور نیکو کاروں کو ان کا بہترین بدلہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ برائیاں اختیار کرنے والے فوری برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔
Top