Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 21
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : سب سے بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : جو بہتان باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں اِنَّهٗ : بلاشبہ وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر بہتان (جھوٹ) باندھا یا اس کی آیات کو جھوٹا بتایا بلا شبہ ایسے ظالموں کو چھٹکارا نہ ملے گا
رکوع نمبر 3 ۔ آیات 21 تا 30: اسرار و معارف : اور یہ تو بدبختی کے اس درجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف کردی اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے یا دولت حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ لکھ دیا جو اللہ نے نہیں فرمایا تھا اور جو اللہ کا حکم تھا اسے چھپا دیا یا مٹا دیا جو شخص اپنی خواہشات کا اس قدر اسیر ہو کہ اللہ کی ذات پر جھوٹ بولنے سے نہ چوکے وہ بھلا کسی اور کو معاف کردے گا یا نبی اور رسول کے ساتھ سچ بولے گا ایسے آدمی سے اس کی امید رکھنا ہی فضول ہے کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھا جائے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا وہ اللہ کے نام سے کہا جائے یعنی فتوی فروشی کہ حق پہ فیصلہ نہ دیا جائے بلکہ دولت وغیرہ کے لالچ میں اگر کوئی جان بوجھ کر خلاف واقع فتوی دے سکتا ہے تو ایسا انسان ہر گناہ کرسکتا ہے اور یاد رکھو ایسے ظالم انجام کار کبھی اچھے انجام کو نہیں پہنچتے کہ ظلم کا نتیجہ دل کی سیاہی اور ایمان سے محرومی ہوتا ہے بلکہ یوم حشر کو یہ تماشہ دیکھئے گا جب یہ سب لوگ ایک جگہ جمع ہوں گے تو ہم ان مشرکین سے سوال کریں گے کہ تمہارے وہ معبودان باطلہ کہاں ہیں جو تم نے اپنے خیال کے مطابق بنا رکھے تھے اکثر مفسرین کے مطابق یہاں چونکہ اہل کتاب کی بات چل رہی تھی اور ارشاد ہوا کہ انہوں نے دولت یا اقتدار یا ہوا وہوس کی خاطر اللہ کی کتاب تک بدل دی یعنی ان کا معبود اللہ نہ رہا بلکہ وہ چیز معبود قرار پائی جس کی خاطر انہوں نے اسلام کے نام پر کفر تک گھڑ لیا۔ شرک خفی : یہ شرک خفی ہے جس میں لوگ بظاہر تو اللہ کا سجدہ کرتے ہیں مگر اس سجدے سے بھی دنیا حاصل کرنا یا کوئی خواہش پوری کرنا ہچاتے ہیں۔ اس میں ان نام نہاد مسلمانوں کو ضرور سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اسلام کے نام پر رسومات اور رواجات کو اپنا رکھا ہے حتی کہ برصغیر میں کتنی رسوم ایسی ہیں جو خالص ہندوؤں کی مذہبی رسوم ہیں اور اب اسلام کے نام پر نادان مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہیں وہاں کوئی چھل فریب تو چل نہ سکے گا۔ نہ ہیرا پھیر ہوگی مگر قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ہرگز مشرک نہ تھے دنیا میں اوصاف ربوبیت بانٹ رکھے تھے کہیں سے اولاد حاصل کرتے اور کہیں چڑھاوا مال حاصل کرنے کے لیے چڑھاتے کسی کو مشکل میں پکارتے اور کسی کی طرف آسانیاں منسوب کرتے غرض سارا نظام ربوبیت بانٹ کر مختلف ہستیوں کو اپنے خیال کے مطابق ان کاموں پہ لگا رکھا تھا اور ساتھ اسلام کا دعوی بھی تھا جیسے نصاری مبتلائے شرک بھی ہیں اور اہل کتاب بھی کہلاتے ہیں جب میدان حشر میں بات صاف ہوئی کہ کسی نبی یا ولی یا نیک صالح آدمی نے تو نہ ایسا دعوی کیا تھا نہ ایسا کام کرنے کا حکم دیا تھا یہ سب ان کا اپنا وہم تھا جس کی قلعی کھل گئی اب کچھ جواب بن نہیں پڑتا تو بڑی سوچ بچار کے بعد عرض کرتے ہیں اللہ کی قسم اے ہمارے رب ہم مشرک تو نہ تھے۔ فرمایا دیکھئے اپنے کردار کو خود جھٹلا رہے ہیں اس لیے کہ آج سب غلط فہمیاں دور ہوگئیں دور تو دنیا میں بھی ہوسکتی تھیں اگر آپ پر اعتبار کرتے آپ ﷺ کی بات کا یقین کرتے تو دنیا میں ہی بات صاف ہوجاتی۔ مگر وہاں ان بدبختوں کو خواہشات نفس نے اندھا بہرا کردیا تھا آپ اپنے زمانے کے مبتلائے شرک اور مبتلائے وہم لوگوں کو دیکھئے تو سہی کہ آپ کی بات سنتے ہیں۔ اور بڑے کان لگا کر سنتے ہیں انسان ویسے بھی فطرتاً حسن پسند واقعی ہوا ہے بات حسین ترین ہو کہ اللہ کی ہو لب خوبصورت ترین ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے ہیں آواز بےمثل ہو معانی بےمثال ہوں تو سننے والے کو تو سوائے اس کے کہ دل ہار دے اور کوئی راستہ ہی نہیں مگر ان پر الٹا اثر ہوتا ہے اس لیے کہ دل کی حیات ہے ایمان باللہ اور دل کی قوت ہے اطاعت الہی۔ ان کے پاس دونوں نہیں ہیں نہ یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ اپنے وہم کے مطابق اپنے خود تراشیدہ خداؤں پہ خوش بیٹھے ہیں۔ اس جرم کی سزا کے طور پر ہم نے ان کے دلوں پر پردے تان دئیے ہیں۔ ظلمات بعضہا فوق بعض۔ تاریکی کے پردے سختی کے پردے اور کان بھی بند کردئیے گئے ہیں ہدایت کی بات نہ ان کی عقل تک پہنچتی ہے کہ ممکن ہے عقلاً توبہ کا فیصلہ کرتے تو دل بھی درست ہوجاتے نہ دل میں قبول کرنے کی طاقت باقی ہے اب یہ کچھ بھی دیکھتے رہیں ہزاروں معجزات بھی انہیں راہ راست پر لانے سے رہے چونکہ ان میں استعداد ہی نہیں رہی بلکہ یہ تو آپ ﷺ سے جھگڑا کرنے آتے ہیں اور اپنے کفر کی وجہ سے انہیں نہ کلام الہی کا حسن متاثر کرتا ہے نہ لب ہائے رسول ﷺ کی چاشنی بلکہ کہتے ہیں یہ پرانے قصے ہیں یہ کونسی کمال کی بات کہ آپ اگلی قوموں کے حالات بیان کرتے پھریں۔ یہ بھی جھوٹ بولتے ہیں قرآن کریم نے کبھی تاریخ کو بطور موضوع ذکر نہیں فرمایا بطور نصیحت یا دلیل اگر کسی واقعہ کا کوئی حصہ مفید تھا تو اتنا ہی حصہ بیان فرمادیا اور بس باقی سب دلائل ہیں عقلی بھی نقلی بھی توحید پر رسالت پر آخرت پر یا احکام ہیں مگر انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا دوسروں کو بھی روکتے پھرتے ہیں کہتے ہیں کیا کروگے سن کر اور خود بھی آپ کی تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں مگر یہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے کہ جو بھی آپ کی تعلیمات سے دور ہوتا ہے اپنی جان کو اپنے آپ کو تباہی کے منہ میں دے دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ انہیں اس کا شعور ہی نہیں یہ سمجھ نہیں پا رہے۔ دل کی تباہی کے اثرات اگر دوبارہ زندگی ملے تو بھی متاثر کریں گے : آپ دیکھئے گا جب انہیں دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا یعنی جب ان کے دوزخ میں جانے کا فیصلہ ہوچکے گا اور انہیں کنارے پر کھڑا کریں گے کہ اب پھینکے جانے والے ہیں تو یہ کہیں گے اے کا اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیج دے تو کبھی اپنے رب کی باتوں کا انکار نہ کریں اور ماننے کا حق ادا کردیں بڑے پکے ایماندار ثابت ہوں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے کہ اب تو ان کا باطن سامنے آگیا اور وہ قلبی کیفیات جو دنیا میں دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ تمہیں میدان حشر میں ہر کسی نے ان کو دیکھ لیا ان کے دل اس طرح سے تباہ ہوچکے ہیں کہ اگر انہیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے پھر گناہ اور نافرمانی میں مبتلا ہوجائیں گے یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سب جھوٹ ہے میدان حشر جزا و سزا کی جگہ ہے عمل کی جگہ نہیں کہ یہاں آ کر ان کے دل کی اصلاح ہوگئی ہو اور اس خبث باطن کے ساتھ دوبارہ دنیا میں جائیں تو دوبارہ بھی گناہ ہی کریں گے۔ کیونکہ دل کی اصلاح کا موقع صرف دنیا میں نصیب ہوتا ہے اس کی بنیاد ایمان اور اس کی حیات ذکر قلبی ہے جو اس کی غذا بھی ہے دوا بھی ہے ان دونوں نعمتوں کا دارومدار اس توجہ پر ہے جو انعکاسی طور پر شیخ کے قلب سے نصیب ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ اوپر چلتا ہوا نبی اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے اگر یہ نعمت نصیب ہو تو کم از کم عقیدہ تو درست ہو اور اگر دنیا سے خالی چلا گیا تو حشر سے لوٹ کر بھی آئے تو کہہ دیں گے کہ یہی دنیا کی زندگی ہے اس میں عیش کرلو میاں کیسی آخرت اور کہاں کا حساب اللہ کریم تو اپنے ذاتی علم سے جانتے ہیں مگر اب تو ان کی اندرونی حالت سب کے سامنے کھل گئی ہے لہذا اس سے بھی صاف پتہ چل رہا ہے کہ اس دل کے مالک دنیا میں جا کر کس کردار کا مظاہرہ کریں گے انہیں دیکھئے گا یہ صرف اس وقت تصدیق کرینگے جب میدان حشر میں حساب کتاب کے لیے پیش ہوں گے تو سوال ہوگا کہ کیا یہ سب کچھ سچ اور درست نہیں ہے آخرت فرشتے جنت و دوزخ جزا و سزا اللہ کی توحید نبی کی رسالت اللہ کی کتاب تم کس بات کو غلط ثابت کرسکتے ہو تو اس وقت کہیں گے اے ہمارے پروردگار یہ سب سچ ہے تو ارشاد ہوگا پھر اس سچ کے مطابق تو تمہارا ٹھکانا جہنم ہے کہ اس نے تمہیں بتا دیا تھا جو کفر پہ مرے گا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اب جہنم میں جاؤ اس لیے کہ تم کفر میں ہی مبتلا رہے۔
Top