Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 21
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : سب سے بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : جو بہتان باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں اِنَّهٗ : بلاشبہ وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے خدا پر جھوٹ افتراء کیا یا اس کی آیتوں کو جھُٹلایا۔ کچھ شک نہیں ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے۔
آیت نمبر 21 تا 30 ترجمہ : اور اس سے بڑھ کرنا انصاف کون ہوگا ؟ جو اللہ پر اس کی طرف شریک کی نسبت کرکے جھوٹا بہتان لگائے ؟ کوئی نہیں، یا اس کی آیتوں (یعنی) قرآن کو جھٹلائے یقینی بات ہے کہ اس قسم کے ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے اس دن کو یاد کرو کہ جس دن ہم سب کو جمع کریں گے پھر ان مشرکوں سے سرزنش کے طور پر پوچھیں گے کہ تمہارے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کے بارے میں تم یقین رکھتے تھے کہ وہ اللہ کے شریک ہیں پھر ان کے پاس اس کے سوا کوئی عذر (جواب) باقی نہ رہے گا کہ یہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم مشرک نہیں تھے، (تکن) تاء اور یاء، کے ساتھ ہے، (اور) (فِتْنَتُھم) نصب اور رفع کے ساتھ ہے (اور فتنۃٌ) کے معنی معذوۃٌ کے ہیں، (رَبَّنا) جر کے ساتھ اللہ کی صفت ہونے کی وجہ سے اور نصب کے ساتھ نداء کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ فرمائیگا، اے محمد ﷺ دیکھو تو انہوں نے اپنے شرک کا انکار کرکے اپنی جانوں پر کس طرح جھوٹ بولا، اور جن شرکاء کو لیکر یہ لوگ اللہ پر بہتان تراشا کرتے تھے وہ سب ان سے غائب ہوجائیں گے، اور ان مشرکوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو آپ کی (بات کی) طرف جب آپ تلاوت کرتے ہیں کان لگاتے ہیں اور ہم نے ان کے کانوں پر پردے ڈال رکھے ہیں تاکہ وہ اس قرآن کو نہ سمجھیں، اور ان کے کانوں میں گرانی ہے یعنی ثقل ہے، جس کی وجہ سے وہ قبولیت کے کان سے نہیں سنتے، خواہ وہ کوئی نشانی دیکھ لیں اس پر ایمان لانیوالے نہیں حتی کہ یہ لوگ جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ سے جھگڑتے ہیں، یہ لوگ جو کافر ہیں کہ یہ قرآن پہلے لوگوں کی جھوٹی داستانوں کے سوا کچھ نہیں ہیں، (اَسَاطیر) بروزن اَضَاحیک اور عَاجیب، (اساطیر) اُسْطورَۃ کی جمع ہے (ہمزہ) کے ضمہ کے ساتھ اور یہ لوگوں کو آپ سے یعنی آپ ﷺ کی اتباع سے روکتے ہیں اور خود بھی ان سے دور دور رہتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ پر ایمان نہیں لاتے، اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت ابو طالب کے بارے میں نازل ہوئی کہ (لوگوں کو) آپ کی ایذاء رسانی سے روکتے تھے اور خود ایمان نہیں لاتے تھے، اور آپ سے دور دور رہنے سے وہ خود کو ہی ہلاکت میں ڈالتے ہیں اس لئے کہ اس کا نقصان ان ہی کو پہنچے گا، مگر ان کو اس کا شعور نہیں اے محمد کاش آپ ان کی اس حالت کو دیکھتے کہ جب ان کو دوزخ پر پیش کیا جائیگا تو اس وقت کہیں گے کہ کاش ہم کو دنیا میں لوٹا دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتوں کو بہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں دونوں فعلوں کے رفع کے ساتھ جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے، اور جواب تمنی ہونے کی وجہ سے دونوں نصب کے ساتھ ہیں اور اول کا رفع اور ثانی کا نصب بھی جائز ہے اور لَوْ کا جواب لَرَأیتَ اَمرًا عظیمًا (محذوف) ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ جس چیز (شرک) کو اس سے پہلے چھپایا کرتے تھے وہ چیز (آج) ان کے سامنے آگئی ہے، یعنی اپنے قول، ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین “ کے ذریعہ چھپایا کرتے تھے، وہ ان کے اعضاء کی شہادت کے ذریعہ ظاہر ہوجائے گی، تو اس قوت اس کی تمنا کریں گے، اور اگر بالفرض ان کو دنیا میں لوٹا دیا جائے تو یہ وہی شرک کرنے لگیں جس سے ان کو منع کیا گیا ہے اور یقیناً یہ لوگ اپنے وعدہ ایمان میں بالکل جھوٹے ہیں اور منکرین بعث یہ کہتے ہیں کہ صرف یہی دنیاوی زندگی ہی ہماری زندگی ہے اور ہم زندہ ہو کر اٹھنے والے نہیں ہیں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب ان کو ان کے رب کے روبرو پیش کیا جائیگا تو آپ ﷺ ایک امر عظیم دیکھیں گے (اللہ تعالیٰ ) ان سے فرشتوں کی زبانی سرزنش کے طور پر کہے گا، کیا یہ بعث و حساب حق نہیں ہے ؟ تو یہ لوگ کہیں گے بیشک قسم ہے اے ہمارے پروردگار یقیناً حق ہے اللہ تعالیٰ فرمائیگا تو تم اس عذاب کا مزا چکھو جس کا تم دنیا میں انکار کیا کرتے تھے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : انّھم شُرَکاءُ اللہ، اس میں اشارہ ہے کہ تَزْعَمُوْنَ کے دونوں مفعول ما قبل کی دلالت کی وجہ سے محذوف ہیں۔ قولہ : بالنَصْبِ والرَفْعِ ، فتنتَھم پر نصب کان کی خبر مقدم ہونے کی وجہ سے ہے اور اِلاَّ أن قالُوا اسم مؤخر ہونے کی وجہ سے ورنہ محلاً مرفوع ہے، اور فع اس کے برعکس ہونے کی وجہ سے ہے۔ قولہ : ای مَعْذِرَتھُم، یہ فتنۃ کی تفسیر ہے۔ قولہ : ای قَوْلَھم اس میں اشارہ ہے کہ (أن قالوا) میں أن مصدریہ ہے، تاکہ استثناء درست ہوجائے۔ قولہ : بالجرِّ نَعْتٌ والنَصْبِ نداءٌ، یعنی یا رَبَّنَا میں دو قراءتیں ہیں اگر ربنا لفظِ اللہ کی صفت ہو تو اس پر جر ہوگا اور اگر یا حرف نداء محذوف کا منادیٰ ہو تو نصب ہوگا، ای رَبَّنَا۔ قولہ : اَلْاُسطورۃ، ای ما سَطَرہُ الاوَّلون مِنَ الا کا ذیب۔ قولہ : یَنْأون، مضارع جمع مذکر غائب (ف) نَأیًا دور رہنا۔ قولہ : یا، للتنبیہ ای مثل، ألا واما۔ قولہ : استینافاً ، یعنی لا نکذب الخ سوال مقدر کا جواب ہے، ای مَا ذاتفعلون لو رددتم ؟ ای لا نکذب ونکونُ من المومنین، اور واؤ کے بعد اَن کی تقدیر کے ساتھ جواب تمنی واقع ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اور ایک قراءت رفع نکذب اور نصب نکون کے ساتھ ہے، اول کا رفع تمنی اور اس کا جواب کے درمیان خبر واقع ہونے کی وجہ سے ہے اور ثانی یعنی نکون ، کا نصب جواب تمنیّ واقع ہونے کی وجہ سے، لَو تریٰ کا جواب محذوف ہے جیسا کہ مفسر علام نے لَرَأیتَ امْرًا عظِیمًا کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔ قولہ : بلْ للاضراب، ای لابطال ما یُفھَمُ من التمنّی، یعنی تمنائے ایمان سے اضراب ہے اسلئے کہ ان کی یہ تمنا عزم تصدیق کی وجہ سے نہیں ہوگی، بلکہ اعضاء کی شہادت کے سبب زجر اور رسوائی کی وجہ سے ہوگی۔ قولہ : وقالوا، اس کا عطف لَعَادُوا پر ہے، ای لو رُوّوا لَعَادوا لما نُھُوا عنہ وقالوا۔ تفسیر و تشریح فَمَنْ اَظْلَمُ ، یعنی جس طرح نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہے اسی طرح وہ بھی سب سے بڑا ظالم ہے جو اللہ کے سچے رسولوں اور اس کی آیتوں کی تکذیب کرے پوری کائنات میں چاروں طرف پھیلی ہوئی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور وہ یہ کہ موجودات عالم میں خدا صرف ایک ہی ہے، باقی سب اس کے بندے ہیں، ظاہر ہے کہ جو شخص اس کائناتی مشاہدے اور تجربے کے بغیر محض قیاس و گمان یا آبائی تقلید کی بنا پر دوسروں کو الوہیت کی صفات سے متصف اور خداوندی حقوق کا مستحق ٹھہراتا ہے اس سے بڑھ کر ظالم اور کوئی نہیں ہوسکتا ایسا شخص حقیقت و صداقت پر ظلم کرتا ہے، اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اور کائنات کی ہر اس چیز پر ظلم کرتا ہے جس کے ساتھ وہ اس غلط نظریہ کی بنا پر کوئی معاملہ کرتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے ظالموں کی فلاح و کامرانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ثمَّ لم تکن فِتنتُھُمْ ، فتنۃ کے متعدد معنی آتے ہیں، حجت، معذرت، جواب، مطلب یہ ہے کہ کفار خدا کی پیشی کے وقت حیل و حجت اور معذرت کے ذریعہ چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک نہ تھے، اور یہ جھوٹ اس وقت بولیں گے کہ جب ان کے اعضاء خود ان کے خلاف گواہی دیں گے تو اس وقت وہ لا جواب اور تنگ ہو کر کذب بیانی وردروغ گوئی کا سہارا لیں گے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید جنت میں جا رہے ہیں تو مشرکین آپس میں مشورہ کرکے اپنے شرک سے انکار کردیں گے، تب اللہ انکے مونہوں پر مہر لگا دے گا، اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے
Top