Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-An'aam : 21
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَمَنْ
: اور کون
اَظْلَمُ
: سب سے بڑا ظالم
مِمَّنِ
: اس سے جو
افْتَرٰي
: جو بہتان باندھے
عَلَي
: پر
اللّٰهِ
: اللہ
كَذِبًا
: جھوٹ
اَوْ كَذَّبَ
: یا جھٹلائے
بِاٰيٰتِهٖ
: اس کی آیتیں
اِنَّهٗ
: بلاشبہ وہ
لَا يُفْلِحُ
: فلاح نہیں پاتے
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاسکتے ۔
(آیت) ” نمبر 21 تا 24۔ بات کی مناسب سے اب مشرکین کے سامنے وہ حقیقت رکھی جاتی ہے جس پر وہ دنیا میں قائم تھے ۔ اس کی روشنی میں ان کے موقف اور عمل کو خدا تعالیٰ کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ذرا وہ اپنے رویے پر غور کریں کہ وہ اللہ پر افترا پردازی کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ اس دین پر ہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے تھے ۔ اور ان کے مزعومات میں سے یہ بھی تھا کہ وہ خود جن چیزوں کو حلال اور حرام قرار دیتے تھے ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جیسا کہ اس سورة کے آخر میں لفظ بزعمہم سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اس چیز کی حلت یا حرمت کا کوئی حکم نہیں دیا تھا ۔ جس طرح آج ہمارے زمانے میں بیشمار لوگ دعوائے اسلام کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ‘ حالانکہ ان کا یہ دعوی سراسر جھوٹا ہے ۔ اور اللہ پر افتراء ہے ۔ وہ خود اپنی جانب سے قوانین اور فرامین جاری کرتے ہیں ‘ خود اپنی جانب سے زندگی کے اوضاع واطوار اور رسومات پیدا کرتے ہیں اور اپنی جانب سے نئی نئی چیزیں جاری کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان معاملات میں اللہ کے اقتدار اعلی کو غصب کرلیتے ہیں اور خود مقتدر اعلی بن بیٹھتے ہیں ۔ پھر بھی ان کا دعوی یہ ہے کہ وہ دین اسلام پر ہیں جو سراسر جھوٹ ہے ۔ ان میں سے تعلیم یافتہ لوگ جنہوں نے اپنا دین فروخت کردیا ہے اور اپنے لئے جہنم کے بدترین درجے کو الاٹ کرا لیا ہے وہ ایسے لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ پھر بھی مسلمان ہیں ۔ ان آیات میں ان کی جانب سے پیش کی جانے والی آیات کو جھٹلانے پر بھی ان کے خلاف نکیر کی جاتی ہے ۔ انہوں نے آیات الہیہ کو مسترد کیا ‘ ان کا مقابلہ اور انکار کیا ‘ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ آیات از جانب اللہ نہیں ہیں اور جس جاہلیت پر وہ عمل پیرا ہیں وہ از جانب اللہ ہیں ۔ یہ موقف بعینہ ویسا ہی ہے جس طرح آج کے دور میں اہل جاہلیت جدید اس کے مدعی ہیں ۔ ان دونوں کا موقف بالکل یکساں ہے ۔ (آیت) ” وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِآیتہ “۔ (6 : 21) ” اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ جھوٹا بہتان لگائے ‘ یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے ؟ “ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے شرک کو ظلم اس لئے کہا گیا ہے کہ لفظ ” ظلم “ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے اس کے گھناؤنے پن اور قباحت کا اظہار اچھی طرح ہوجائے ۔ قرآن کریم میں بیشتر شرک کی تعبیر ظلم سے کی جاتی ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے ایک نہایت ہی برافعل سمجھ کر اس سے متنفر ہوجائیں اور حقیقت حال بھی یہی ہے کہ شرک سچائی کے ساتھ ظلم ہے ۔ نفس انسانی کے ساتھ ظلم ہے اور عوام الناس پر ظلم ہے ۔ اس لئے کہ کبریائی صرف اللہ کا حق ہے اور وہ اس بات کا مستحق ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ اس سے اللہ کی حق تلفی ہوگی ۔ نفس انسانی پر یہ اس لئے ظلم ہے کہ اس کی وجہ سے یہ دائمی ہلاکت میں پڑجائے گا ۔ اور لوگوں پر ظلم یہ ہے کہ وہ معرفت حق سے محروم ہوں گے اور ان کی زندگی ایسے اصولوں کے تحت چلتی رہے گی جو ظالمانہ ہوں گے ‘ غرض شرک ہر پہلو سے ظلم عظیم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے آخر میں رب العالمین خود فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” انہ لا یفلح الظلمون “۔ (6 : 21) یقینا ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ ایک قاعدہ کلیہ بیان کردیتے ہیں اور حکم آجاتا ہے کہ مشرک یا ظلم اور ظالموں کا انجام کیا ہوگا ۔ انسانوں کی کوتاہ نظر آنکھیں جو کچھ دیکھ سکتی ہیں وہ قابل اعتبار حقیقت نہیں ہوتی ۔ انسان کی نظر نہایت ہی قریبی فاصلے تک ہوتی ہے ۔ انسان صرف دنیوی فلاح اور نجات کو دیکھ سکتا ہے ۔ یہ ہے وہ تدبیر جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو انجام بد تک پہنچاتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ صادق القول اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ اس موقعہ پر قرآن ان کی ناکامی اور عدم فلاح اور ان کے غلط موقف کی ایک تصویر کشی نہایت ہی زندہ ‘ متحرک اور دلکش الفاظ میں فرماتے ہیں : (آیت) ” وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23) انظُرْ کَیْْفَ کَذَبُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ (24) (6 : 22 تا 24) ” جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکین سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ہو گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرک کی کئی قسمیں ہیں ۔ اللہ کے ساتھ ٹھہرائے ہوئے شرکاء کی بھی کئی اقسام ہیں اور صورت حال وہ نہیں ہے جو عام طور پر کلمہ شرک اور شرکاء اور مشرکین کے اطلاق سے آج کل عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ بتوں اور پتھروں کی پوجا کرتے ہیں یا پتھروں ‘ درختوں اور آگ وغیرہ کے مظاہر کی پرستش کرتے ہیں ۔ بس یہی ہے شرک کا مفہوم ۔ درحقیقت شرک تو یہ ہے کہ کوئی اللہ کے سوا کسی اور کے بارے میں یہ اعتراف کرے کہ ذات باری کے خصائص میں سے کچھ خصائص اس میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ چاہے وہ نظریاتی امور ہوں جن میں کا اس کائنات کے تصرفات میں سے کوئی امر اللہ کے سوا کسی اور سے منسوب کیا جائے ‘ یا مراسم عبودیت ہوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے بجا لائے جائیں مثلا عبادت اور نذر ونیاز وغیرہ یا زندگی کے نظام کو درست کرنے کے لئے اصول اور ضابطے اللہ کے سوا کسی اور سے لیے جائیں ۔ یہ سب کے سب شرک کے الوان و اقسام ہیں ۔ اس شرک کا ارتکاب یوں ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایک قسم کا شرک کرتے ہیں اور بعض دوسری قسم کے شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر مختلف قسم کے مشرکین کے شرکاء اور معبود بھی مختلف ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان تمام اقسام پر کلمہ شرک کا اطلاق کیا ہے اور شاید قیامت کے منظر کے اندر ان مشرکین اور شرکاء کے زندہ مناظر پیش کرکے اہل ایمان کو حقیقت سمجھانے کی سعی کی ہے ۔ قرآن کریم نے لفظ شرک کو کسی ایک مفہوم تک محدود نہیں رکھا ہے اور نہ ان میں سے کسی ایک مفہوم سے متصف کسی شخص کو مشرک کہا ہے اور نہ دنیا اور آخرت میں ان تمام اقسام کے مشرکین کے انجام اور سزا اور ان کے ساتھ تعلق میں کوئی فرق کیا ہے ۔ عربوں کے اندر شرک کی یہ تمام اقسام پائی جاتی تھیں ۔ عربوں میں یہ اعتقاد موجود تھا کہ اللہ کی مخلوقات میں سے بعض اللہ کے ساتھ شریک ہیں ۔ یہ شرکت اس طرح ہے کہ اللہ کے ہاں جو بات وہ کہتے ہیں وہ لازما منظور ہوتی ہے ۔ لوگوں کی قسمتوں کے فیصلوں اور واقعات کی رونمائی میں ان کا بھی داخل ہوتا ہے ۔ مثلا فرشتے شریک ہوتے ہیں یا یوں کہ یہ مخلوقات انسان کو اذیت دینے پر قادر ہے ۔ مثلا جنات نقصان دیتے ہیں ۔ یا دونوں طریقوں سے یہ انسان کو اذیت دے سکتے ہیں ۔ مثلا آباؤ و اجداد کی روحیں بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ ان جنات ‘ کاہنوں اور اجداد کی ارواح کی طرف اشارات کے طور پر یہ لوگ ان کی طرف منسوب بت بناتے تھے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا تھا کہ ان بتوں کے اندر ان خدا رسیدہ مخلوقات کی روح آجاتی ہے ۔ کاہن پھر ان روحوں اور بتوں کے ساتھ ہم کلام بھی ہوتے تھے ۔ یوں ان کے لئے یہ کاہن اس اسلوب اور اٹکل سے بعض چیزوں کو حرام کرتے تھے اور بعض کو حلال کرتے تھے ۔ اس طرح درحقیقت یہ کاہن ہی تھے جو یہ کام کرتے تھے اور وہی شریک کا درجہ رکھتے تھے ۔ مزید برآں شرک کا ارتکاب وہ اس طرح بھی کرتے تھے کہ ان بتوں کے سامنے مراسم بندگی ادا کرتے تھے ۔ ان کے استھانوں پر قربانیاں کرتے اور ان کی نذریں مانتے تھے ۔ یہ قربانیاں اور نذریں اور عبادات بھی دراصل وہ ان کاہنوں کی کرتے تھے ۔ بعض عرب ایرانیوں کے زیر اثر یہ بھی عقیدے رکھتے تھے کہ کواکب کو بھی واقعات عالم میں اثر ودخل حاصل ہے ‘ اور اس طرح گویا یہ ستارے بھی خدا کے شریک ہیں ۔ چناچہ عربوں کے اندر ستارہ پر ستی داخل ہوگئی ۔ اس سورة میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قصہ لایا گیا ہے وہ بھی اسی نقطہ نظر سے لایا گیا ہے اور اس سورة کے موضوع سے یہی بات اس قصے کو مربوط کردیتی ہے ۔ (جیسا کہ آگے ہم بتائیں گے انشاء اللہ) شرک کی تیسری صورت بھی ان عربوں کے اندر رائج تھی ۔ یہ لوگ کاہنوں کی مدد سے اپنے لئے دستور اور قانون خود بناتے تھے اور زندگی کے طور طریقے اور رسم و رواج اپنے لئے خود وضع کرتے تھے ۔ اگرچہ اس کے اندر قانون سازی کی اجازت اللہ نے نہ دی تھی لیکن خود قانون بنا کر وہ دعوی یہ کرتے تھے کہ یہ اللہ کا قانون اور شریعت ہے جس طرح آج کے بعض سیاسی مفکر ایسا دعوی کرتے ہیں ۔ پس اس منظر میں ‘ یعنی قیامت کے دن ‘ اللہ تعالیٰ تمام قسم کے شرکاء کے بارے میں لوگوں کو بلا کر یہ سوال کریں گے کہ لاؤ ان کو اب جن کو تم میرا شریک ٹھہراتے تھے ؟ آج تو ان کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ آج تو وہ اپنے متبعین کی کوئی امداد نہیں کرسکتے ۔ نہ ان کو اس ہولناک صورت حال سے بچا سکتے ہیں۔ (آیت) ” وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَیْْنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ (22) ” جس روز ہم ان کو اکٹھا کریں گے اور مشرکوں سے پوچھیں گے کہ اب وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں جن کو تم خدا سمجھتے تھے ۔ “ یہ منظر بالکل آنکھوں کے سامنے ۔ گو میدان حشر برپا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مشرکوں سے یہ باز پرس ہو رہی ہے اور ان کے لئے یہ باز پرس نہایت ہی المناک ہے ۔ ” وہ تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریک کہاں ہیں ؟ “ یہ ہولناک باز پرس انہیں حواس باختہ کردیتی ہے ۔ اب ان کی فطرت پر جو پردے پڑگئے تھے وہ پردے ہٹ جاتے ہیں ۔ ان کی فطرت اور ان کی یادداشت سے وہ عارضی حالات محو ہوجاتے ہیں اس لئے کہ ان حالات کی بنیاد فطرت پر تھی ہی نہیں یہ غیر فطری اور محض سراب کی طرح عارضی حالات تھے ۔ ان کا شعور اب یہ بتاتا ہے کہ وہ کس طرح شریک ٹھہر سکتے ہیں ۔ وہ کہیں گے کہ نہ تو شرکاء موجود تھے اور نہ ہی ہم نے کسی کو شریک بنایا ۔ اب یہ منظر ان کے لئے ایک نئے فتنے کا سبب بنے گا ۔ اس حقیقی دربار میں اب خبیث اور بےاصل افکار ان کے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں جس طرح بھٹی میں تپ کر چیزوں سے غلط عناصر جھاگ کی شکل میں خارج ہوجاتے ہیں ۔ (آیت) ” ثُمَّ لَمْ تَکُن فِتْنَتُہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (23) ” تو وہ اس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ اے ہمارے آقا ! تیری قسم ہم ہر گز مشرک نہ تھے ۔ “ وہ حقیقت سامنے آگئی جس کی وجہ سے فتنہ چھٹ گیا یا اس کی روشنی میں فتنہ واضح ہوگیا ۔ ان لوگوں نے اپنے ماضی سے مکمل طور پر کٹ کر اللہ وحدہ کی ربوبیت کا اقرار کرلیا لیکن انہوں نے یہ کام اس وقت کیا جب ان کے لئے اقرار مفید نہ تھا ۔ اس اقرار باطل سے علیحدگی ان کے لئے مفید نہ رہے گی ۔ بلکہ یہ ان کے لئے ایک مصیبت ہوگی اور ان کا یہ اقرار ان کے لئے اب موجب نجات نہ ہوگا ۔ وقت جا چکا ہوگا ۔ آج تو جزائے اعمال کا دن ہے ۔ آج تو آخری فیصلوں کا دن ہے ۔ یہ ریمانڈ کا دن نہ ہوگا ۔ ان کی اس حالت پر اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہ تبصرہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جب شرک کا ارتکاب کیا اور ان لوگوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا تو انہوں نے اپنے نفوس کے ساتھ جھوٹ اور فریب کا ارتکاب کیا اس لئے کہ اللہ کے ساتھ کسی شریک کا تو دراصل کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ نہ ان شرکاء کی کوئی حقیقت تھی ۔ آج ان سے وہ افتراء غائب ہے ۔ انہوں نے حق کا اعتراف اس وقت کیا جب ان کا جھوٹا طلسم غائب ہوگیا۔ (آیت) ” انظُرْ کَیْْفَ کَذَبُواْ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَضَلَّ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَفْتَرُونَ (24) ۔ ” دیکھو اس وقت یہ کس طرح اپنے اوپر آپ جھوٹ گھڑیں گے اور وہاں ان کے سارے بناوٹی معبود گم ناپید ہوگئے ۔ “ انہوں نے اپنے اوپر جھوٹ بولا ہے ۔ جب انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو انہوں نے اسی وقت اپنے اوپر جھوٹ بولا اور اپنے آپ کو فریب میں ڈال دیا ۔ اللہ پر افترا باندھا اور اب ان کے تمام معبود ناپید اور گمشدہ ہیں اور اب تو حشر اور حساب کا دن ہے ۔ میرے خیال میں اس آیت کی یہی اطمینان بخش تفسیر ہے ‘ کیونکہ منظر قیامت کا ہے اور وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور ذات باری کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ وہ مشرک نہ تھے اس لئے کہ قیامت کے دن ان کا جھوٹ ان کے خلاف ہوگا اس مفہوم میں ۔ کیونکہ قیامت کے دن وہ اللہ پر جھوٹ نہ باندھ سکیں گے اور نہ ارادۃ جھوٹی قسم اٹھا سکیں گے ۔ جن لوگوں نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ عمدا جھوٹ بولیں گے تو وہ اس لئے درست نہیں ہے کہ لایکتمون اللہ حدیثا کے بموجب وہ قیامت میں اللہ سے تو کوئی بات چھپا نہ سکیں گے ۔ بلکہ قیامت کے اس ہولناک منظر میں ان کی فطرت پاک وصاف ہوجائے گی اور اس سے شرک کی آلائشیں دور ہوجائیں گی ۔ لیکن اللہ ان پر تعجب فرماتا ہے کہ دیکھو انہوں نے دنیا میں اپنی زندگی کس جھوٹ میں بسر کی اور آج آخرت میں ان کے پردہ خیال میں اس جھوٹ کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ (واللہ اعلم بالمراد) بہرحال یہ بھی احتمالات میں سے ایک احتمال ہے ۔ اگلی آیات میں مشرکین کا ایک دوسرا گروہ اسکرین پر آتا ہے اور اب ان کے کیس کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ یہ مناظر قیامت میں سے ایک دوسرا منظر ہے ۔ یہ لوگ قرآن کریم کو سنتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی قوت مدرکہ کو معطل کردیا ہے ‘ ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے ۔ یہ لوگ تحریک اسلامی کے معاند ہیں اور اپنے آپ کو بہت ہی بڑی شے سمجھتے ہیں ۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے مجادلہ کر رہے ہیں۔ چناچہ اس صورت میں وہ آنکھیں بند کرنے اور نفرت کرنے کی وجہ سے اس قرآن کریم پر یہ تبصرہ کرتے ہیں ” یہ تو ایک داستان پارینہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ “ اور پھر وہ دوسروں کو بھی اس حقیقت کو سننے اور قبول کرنے سے منع کرتے ہیں اور خود بھی اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ ان کے حالات کی یہ تصویر صفحہ کی ایک طرف ہے اور اس صفحے کے دوسری جانب ان کی نہایت ہی مکروہ اور دردناک حالت کو منقش کیا گیا ہے ۔ وہ آگ کے کنارے کھڑے ہیں ‘ گرفتار ہیں اور انہیں اس خوفناک انجام کے دھانے پر کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ وہ نہایت ہی ذلت میں چیخ و پکار کرتے ہیں اور نہایت ہی حسرت آمیز انداز میں یہ تمنا کرتے ہیں کہ اگر انہیں دنیا کی طرف لوٹایا جائے تو وہ اپنے موقف میں تبدیلی کرلیں گے جس کی وجہ سے ان کو یہ روز بد دیکھنا پڑا ۔ چناچہ نہایت ہی حقارت آمیز انداز میں ان کی اس تمنا اور خواہش کو رد کیا جاتا ہے ۔
Top