Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 21
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : سب سے بڑا ظالم مِمَّنِ : اس سے جو افْتَرٰي : جو بہتان باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ كَذِبًا : جھوٹ اَوْ كَذَّبَ : یا جھٹلائے بِاٰيٰتِهٖ : اس کی آیتیں اِنَّهٗ : بلاشبہ وہ لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو جھوٹا بہتان باندھے اللہ پر، یا جھٹلائے اس کی آیتوں کو، بیشک کبھی فلاح نہیں پاسکتے ایسے ظالم1
32 اللہ پر افترا باندھنا سب سے بڑا ظلم ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے جو جھوٹا بہتان باندھے اللہ پر۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ جو اپنے آپ کو خدا کے بیٹے اور پیارے بتاتے تھے اور حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ کو یہ لوگ خدا کے بیٹے مانتے تھے۔ اور جیسا کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَائَ الجنَّ } ۔ (الانعام : 101) نیز فرمایا گیا ۔ { وَیَجْعَلُُوْنَ لِلّٰہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہٗ } ۔ (النحل : 57) ۔ نیز جیسا کہ بےحیائی کا ارتکاب کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس بےحیائی کے ارتکاب کا حکم ہمیں اللہ نے دیا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَا اٰبَائَ نَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا } ۔ (الاعراف : 28) اور جیسا کہ آج کا کلمہ گو مشرک حضرت علی ۔ ؓ ۔ اور حضرت شیخ جیلانی ۔ (رح) ۔ وغیرہ وغیرہ جیسی پاکیزہ ہستیوں کو حاجت روا، مشکل کشا، فریاد رس اور دستگیر وغیرہ قراردیکر ان کو خدا کی خدائی میں شریک مانتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو محیی و ممیت مانتا ہے۔ یا جس طرح قادیانی دجّال نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعوی کیا یا جیسے آج کل کے جعلی پیر سادہ لوح لوگوں سے ازخود اپنی بناوٹ سے کہتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے یوں حکم دیا ہے یا خواب میں یوں فرمایا ہے وغیرہ۔ سو یہ سب ہی صورتیں اللہ پر افترا اور جھوٹ باندھنے کی ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ استفہام یہاں پر انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں سے بڑھ کر ظالم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ سو اللہ پر افترا اور جھوٹ باندھنا سب سے بڑا ظلم اور ہولناک سنگین جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ 33{ آیات اللہ } کا عموم اور ان کا مفہوم ؟: ۔ سو ارشاد فرمایا گیا یا جو جھٹلائے اس کی آیتوں کو یعنی اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے۔ سو " آیات اللہ " یعنی اللہ کی آیتوں کی تکذیب بھی سب سے بڑا ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ " آیات اللہ " سے مراد عام ہے۔ اس سے کہ وہ قرآنی آیتیں ہوں یا ان قطعی معجزات کی شکل میں جو اللہ پاک نے اپنے پیغمبر کے ہاتھ پر ان کی صداقت و حقانیت کے اظہار کیلئے ظاہر فرمائے ہیں۔ یا وہ آیات کونیہ جو اس کی وحدانیت ویکتائی پر دلالت کرتی ہیں۔ یا وہ آیات جنکے ذریعے وہ وحدہ لاشریک اپنے رسولوں کی تائید کا سامان کرتا ہے کہ لفظ آیت اپنے عموم وشمول کے ساتھ ان سب کو شامل اور عام ہے۔ سو اللہ کی آیات کو ماننے اور ان کے مطابق دین حق پر ایمان لانے کی بجائے ان کی تکذیب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی خدائی اس کی صفات اور اس کے حقوق و اختیارات میں دوسرے خود ساختہ معبودوں اور من گھڑت و بناوٹی خداؤں کو شریک وسہیم قرار دینا اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو اسی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا بہت بڑا ظلم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہر شائبہ ظلم سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top