Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور ان لوگوں نے مکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔
یہودیوں کا حضرت عیسیٰ کے قتل کا منصوبہ بنانا اور اس میں ناکام ہونا جیسے جیسے سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت آگے بڑھتی گئی اور آپ اپنے عہدہ رسالت کے مطابق کام کرتے رہے اور کچھ نہ کچھ افراد ان کے ساتھی ہوتے گئے بنی اسرائیل کی دشمنی تیز ہوتی گئی اور بالآخر انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی ٹھان لی اور طے کرلیا کہ انہیں ختم کر کے رہیں گے۔ اب بنی اسرائیل نے ایسی تدبیریں شروع کردی جس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) شہید کردیئے جائیں اور ان سے اب بنی اسرائیل کا چھٹکارہ ہوجائے۔ بنی اسرائیل نے جب سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ تو ان کو ایک مکان میں بند کردیا اور ان پر ایک نگران مقرر کردیا۔ جب قتل کرنے کے لیے وہاں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اس نگران کی صورت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسی صورت بنا دی اور ان کو اوپر اٹھا لیا (ذکرہ البغوی فی معالم التنزیل صفحہ 496: ج 1) ان لوگوں نے اندر جا کر دیکھا تو وہاں ایک ہی شخص کو پایا اور اسے قتل کردیا کیونکہ یہ شخص صورۃً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل تھا لیکن اس سوچ بچار میں رہے کہ اگر یہ شخص وہی تھا جس کے قتل کرنے کے لیے ہم آئے تھے تو ہمارا آدمی کہاں گیا ؟ قتل تو اس کو کردیا لیکن پھر بھی شک و شبہ میں رہے، اس کو سورة نساء میں یوں بیان فرمایا : (وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ ) (اور انہوں نے نہ ان کو قتل کیا نہ ان کو صلیب پر چڑھایا لیکن ان کو شبہ میں ڈال دیا گیا اور بلاشبہ جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں وہ ان کی طرف سے ضرور شک میں ہیں) اس کی مزید توضیح انشاء اللہ تعالیٰ سورة نساء کی آیت بالا کی تفسیر کے ذیل میں بیان ہوگی۔ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ کیا تھا وہ ان کے قتل میں ناکام ہوگئے اور ان کو اشتباہ ہوگیا کہ ان کا اپنا آدمی قتل ہوا یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مقتول ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر غالب آئی اور یہود کی مکاری دھری رہ گئی اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعَکَ اِلَیَّ وَ مُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) پورا ہوگیا۔ مکر کا معنی : لفظ مکر خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں، یہ اچھے کام کے لیے بھی ہوتی ہے اور برے کام کے لیے بھی، سورة فاطر میں فرمایا (وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ) اس سے معلوم ہوا کہ مکر اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی، اور عربی زبان میں دونوں معنی کی گنجائش ہے اگر چالبازی اور دھوکہ سے کوئی تدبیر کی جائے گی تو وہ اردو زبان کے محاورہ میں مکاری ہوگی اور ضروری نہیں کہ تدبیر بری ہی ہو، قرآن مجید میں جو مکر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اس سے اردو کے محاورہ والا مکر مراد نہیں ہے بلکہ عربی کے معنی مراد ہیں، یعنی خفیہ اور لطیف تدبیر جس کا دوسرے کو پتہ نہ چل سکے۔ فی روح المعانی ص 79: ج 3 و نقل من الامام ان المکر ایصال المکروہ الی الغیر علی وجہ یخفی فیہ و انہ یجوز صدورہ عنہ تعالیٰ حقیقۃ، و قال غیر واحد انہ عبارۃ عن التدبیر المحکم و ھو لیس بممتنع علیہ تعالیٰ ! و قال فی تفسیر قولہ تعالیٰ واللّٰہ خیر الماکرین ای اقواھم مکراً و اشدھم أو ان مکرہ احسن و اوقع فی محلہ لبعدہ عن الظلم۔
Top