Baseerat-e-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم ہی میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے۔ تم اس کو اپنے لئے برانہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لئے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا۔ اور جس نے ان میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 11 تا 20 : افک (الزام۔ تہمت) ‘ عصبۃ ( گروہ۔ جماعت) ‘ اکتسب (اس نے کمایا) کبرہ ( اسکا بڑا حصہ) افضتم ( تم نے زبان کھولی) ‘ تلقون (تم نے زبان کھولی) ‘ تلقون ( تم لیتے ہو) ھینا ( ہلکا۔ آسان ۔ سہل) ‘ ان تشیع (یہ کہ پھیلے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 11 تا 20 : اسلامی معاشرہ میں ہر صاحب ایمان شخص کو ایک دوسرے کی عزت و آبرو اور باہمی اعتماد کا خیال رکھنا لازمی اور ضروری ہے تاکہ مومنوں کے معاشرے اور سوسائٹی کا دامن ہر طرح کے داغ دھبوں سے پاک رہے۔ اپنے بھائی کو کسی طرح کی جسمانی روحانی اذیت پہنچانا ‘ الزام و بہتان لگانا ‘ ذلیل و رسوا اور بدنام کرنا اور حسن ظن سے کام نہ لینا ‘ بےبنیاد افواہیں پھیلانا ایسا ناقابل معافی جرم ہے جس سے نہ صرف اسلامی معاشرہ بد نام ہوتا ہے بلکہ پاک دامنوں کی عزت و آبرو اور باہمی اعتماد مجروح ہو کر رہ جاتا ہے۔ شریعت کی نظر میں ہر صاحب ایمان شخص اپنی اپنی جگہ ایک ذمہ دار فرد ہے۔ اس کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو اعتماد کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہیے۔ خاص طور پر اگر ایک شخص دوسرے شخص پر الزام لگاتا ہے تو اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مناسب گواہوں اور دلائل سے ثابت کر کے دکھائے کیونکہ بےبنیاد افو ہوں کے ذریعہ دوسرے کی عزت و آبرو سے کھیلنا شریعت کی نظر میں ایک بہت گھنائونی حرکت ہے۔ اگر کسی نے الزام لگایا اور وہ اس کا ثبوت نہ پیش کرسکا اور یہ ثابت ہوجائے کہ اس الزام کا مقصد محض دوسرے کو بدنام اور رسوا کرنا تھا تو شریعت کے حکم کے مطابق نہ صرف اس شخص کو اسی (80) کوڑے مارے جائیں گے بلکہ یہ شخص ہمیشہ کے لئے ناقابل اعتبار قرار دیدیاجائے گا یعنی کسی عدالت یا ادارے میں اس کی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ اگر کسی طرح کا بہتان ایسی پاک باز اور ذمہ دار شخصیات کے خلاف لگایا گیا ہو جو اللہ کی نظر میں نہایت قابل احترام اور لائق عزت ہوں تو یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جب نبی کریم ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد مخلص مومنوں کی ایک چھوٹی سی جماعت بن گئی اور وہ اپنے اخلاق و کردار سے پورے عرب پر چھا گئی تو کفارو مشرکین نے اس جماعت کو تباہ و برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کو قدم قدم پر عظمت کی بلندیاں عطا فرمادیں۔ اسی زمانہ میں ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوگیا جس نے اپنے دنیاوی مفاد کے لئے ظاہری طور پر ایمان کا ڈھونگ تور چالیا تھا لیکن وہ اندر سے اسلام دشمنی پر قائم تھا وہ ہر وقت اس فکر میں لگا رہتا تھا کہ اگر کوئی موقع ہاتھ آجائے تو وہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو بدنام کرکے اپنے بغض کی آگ کو بجھا سکے۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم منافقین کا نام دیتا ہے۔ ان منافقین کا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا جو دن رات اسلام دشمنی میں آگے آگے رہتا تھا۔ چناچہ ایک موقع پر اس منافق نے صدیقہ طاہرہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر بےبنیاد الزام لگا کر شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے بروقت آیات نازل کر کے حضرت عائشہ ؓ کی بےگناہی کو ثابت فرمادیا جس سے منافقین کی تمام چا لیں ناکام ہو کر رہ گئیں۔ قرآن واحادیث کی روشنی میں مفسرین اور محدثین نے اس واقعہ کی تفصیل یہ بیان فرمائی ہے کہ اکثر غزوہ یا سفر میں آپ کی ازواج میں سے کوئی نہ کوئی آپ کے ساتھ ہوا کرتی تھیں 6؁ ہجری میں غزوہ بنی مصطلق (غزوہ مریسیع) کے موقع پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ کے ساتھ تھیں۔ چونکہ پردے کے احکامات نازل ہوچکے تھے اس لئے دستور کے مطابق کسی اونٹ پر ” ہودج “ باندھ دیا جاتا جس میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سفر کیا کرتی تھیں۔ جب کسی جگہ قیام ہوتا تو اس ہودج کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا جاتا۔ چونکہ اس وقت حضرت عائشہ بہت دبلی پتلی تھیں جب اس ہودج کو باندھا جاتا تو پتہ ہی نہ چلتا تھا کہ آپ اس کے اندر موجود ہیں یا نہیں۔ اسی دوران رات کے آخری حصے میں اعلان کیا گیا کہ اب مجاہدین کا یہ قافلہ روانہ ہونے والا ہے جس کو صبح کی ضروریات سے فارغ ہونا ہے وہ سب فارغ ہوجائیں اس زمانہ میں باقاعدہ بیت الخلا نہیں ہوتے تھے بلکہ صحر ایا جنگل میں نکل کر رفع حاجت کی جاتی تھی۔ جب سارے صحابہ رسول ؓ دور صحرا میں نکل گئے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بھی مردوں سے دور ہٹ کر صحرا کے کسی کونے میں رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئیں۔ لوگ ضروریات سے فارغ ہو کر اپنے قافلے میں پہنچ گئے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ واپس آرہی تھیں کہ ان کا وہ قیمتی ہار جو اپنی بہن حضرت اسماء سے لے کر آئی تھیں کسی جگہ گر پڑا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس کو تلاش کرنے پلٹیں تو اس میں دیر ہوگئی اور قافلہ روانہ ہوگیا۔ وہ لوگ جو حضرت عائشہ کے ہودج کو اونٹ پر لے کر چلتے تھے وہ سمجھے کہ حضرت عائشہ اس ہودج میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہودج کو اونٹ پر باندھ دیا۔ جب حضرت عائشہ نے دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوچکا ہے تو وہ چاردر اوڑھ کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں اور سوچنے لگیں کہ جب صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو معلوم ہوگا۔ تو وہ ان کو تلاش کرلیں گے۔ نبی کریم ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کسی ذمہ دار شخص کو قافلے کی روانگی کے بعد یہ دمہ داری سپرد فرمادیا کرتے تھے کہ اگر کسی کا کوئی سامان رہ گیا ہو یا کوئی قافلے سے پیچھے رہ گیا ہو تو اس کو لے کرآجائیں۔ چناچہ اس موقع پر یہ ذمہ داری بدری صحابی حضرت صفوان ابن معطل ؓ لگائی گئی۔ حضرت صفوان ؓ جو نہایت نیک ‘ متقی ‘ پرہیزگار اور رسول اللہ ﷺ کے جاں نثار بدری صحابہ میں سے تھے وہ میدان میں گھوم کر گری پڑ چیزوں کو تلاش کررہے تھے کہ اچانک ان کی نظر کسی شخص پر پڑی جو چادر اوڑھے لیٹا تھا۔ قریب آکر جب انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو دیکھا تو ان کے منہ سے بےساختہ ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ نکل گیا۔ حضرت عائشہ کے کان میں ان کی آواز پڑی تو آپ چادر میں سمٹ کر ایک طرف بیٹھ گئیں۔ حضرت صفوان نے نہایت ادب و احترام سے اپنا اونٹ کی نکیل پکڑ کر روانہ ہوگئے تاکہ جلد از جلد قافل تک پہنچ جائیں۔ یہ ایسا کوئی انوکھا واقعہ نہ تھا بلکہ اکثر ایسا ہو جاتا تھا کہ کوئی پیچھے رہ گیا ہو تو وہ اسی طرح اپنے قافلے سے مل جایا کرتا تھا مگر جب رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی نے دیکھا تو اس نے طرح طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کردیں جو کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں رہا کرتا تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور نبی کریم ﷺ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ منافقین نے نبی کریم ﷺ اور ام المومنین کو بدنام کرنے اور افواہیں پھیلانے میں اپنی ساری طاقتیں لگارکھی ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس الزام کا علم ہوا اور آپ نے دیکھا کہ عبد اللہ ابن ابی نے اتنا زبردست پروپیگنڈا کر رکھا ہے جس سے بعض سیدھے سادھے مسلمان بھی متاثر ہوچکے ہیں تو آپ کو اس سے شدید ذہنی صدمہ پہنچا۔ پروپیگنڈا اس قدر شدید تھا کہ حضرت حسان ابن ثابت ‘ حضرت مسطح ابن اثاثہ اور حضرت حمنہ بتن زینب تک ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس گئے۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک مہینے تک جاری رہا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ کی بےگناہی ثابت کرنے کے لئے سورة نور کی یہ دس (10) آیتیں نازل فرمائیں۔ اسلامی اصولوں کے تحت الزام و بہتان لگانے والوں سے ثبوت طلب کئے گئے جب وہ ثبوت اور گواہیاں پیش نہ کرسکے تو تینوں پر ” حدقذف “ جاری کی گئی یعنی ہر ایک کے اسی (80) اسی (80) کوڑے مارے گئے۔ اور منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی پر دھری حد جاری کی گئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہر ؓ خود اس واقعہ کو بیان فرماتی ہیں کہ اس سفر کے بعد ہم مدینہ منورہ واپس پہنچ گئے۔ سفر کی تکان کی وجہ سے میں کچھ بیمار ہوگئی اور یہ بیماری کا سلسلہ ایک میہنے تک جاری رہا اس عرصے میں نہ کسی سے میں نے کچھ سنا اور نہ مجھے کسی نے کچھ بتایا۔ لوگوں میں کیا چرچے ہورہے تھے میں اس سے قطعاً بیخبر تھی۔ مگر میں اس بات کو اچھی طرح محسوس کررہی تھی کہ جب میں بیمار ہوتی تو آپ ﷺ میری بہت دل داری فرما ای کرتے تھے لیکن اس دوران سوائے خیریت معلوم کرنے کے آپ زیادہ بات نہ کیا کرتے تھے ۔ مجھے اس کا افسوس تھا مگر مجھے اس کی وجہ سے معلوم نہ تھی۔ اس زمانہ میں گھروں میں رفع حاجت کا انتظام نہ ہوتا تھا اور عادت کے مطابق ہم میدان میں رفع حاجت کے لئے جا یا کرتے تھے ۔ ایک دین ایسا ہوا کہ میری خالہ زاد بہن ام مسطح کے ساتھ میں رفع حاجت کے لئے گئی جب واپس آنے لگے تو ام مسطح کا پاؤں چادر میں الجھ گیا جس سے ان کو ٹھوکر لگی۔ ان کے منہ سے بےساختہ نکل گیا کہ مسطح غارت ہوجائے۔ میں نے کہا کہ ماں ہوکر اپنے بیٹے کو بددعا دے رہی ہو۔ بیٹا بھی وہ کہ جس نے بدر جیسے غزوہ میں حصہ لیا تھا۔ ام مسطح نے کہا کہ عائشہ تم کتنی بھولی ہو۔ تمہیں معلوم ہے کہ مسطح کیا کہتا پھر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہے جو تمہیں بدنام کرتا پھر رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہے جو تمہیں بدنام کرتا پھر رہا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے اصرار کرکے پوچھا کہ ام مسطح مجھے تفصیل سے بتائو کیا بات ہے ؟ ام مسطح نے الزام لگانے والوں کی تمام باتیں تفصیل سے بتا دیں۔ یہ سن رک میرے اوپر سکتہ طاری ہوگیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے رنج و غم کا پہاڑ میرے سر کے اوپر رکھ دیا گیا ہے۔ میں پہلے سے بیمار اور کمزور تھی مگر یہ بہتان سن کر تو میرے ہاتھ پاؤں کی جان سی نکل گئی۔ جب میں گھر پہنچی تو اس وقت رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے۔ مجھے سلام کیا اور عادت کے مطابق میری طبعیت پوچھی میں نے موقع دیکھ کر عرض کیا کہ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت دیدیجئے۔ آپ نے اجازت دیدی اور میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ لوگوں میں یہ کیسی باتیں ہورہی ہیں والدہ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے لوگوں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ جب کسی کی صورت اور سیرت اچھی ہوتی ہے اور وہ اپنے شوہر کی منظور نظر بھی ہو تو لوگ حسد کرنے لگتے ہیں اور نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ان حالات کی خبر والد صاحب کو بھی ہے۔ والدہ نے کہا ہاں ان کو بھی علم ہے۔ میں نے والدہ سے کہا کہ لوگوں میں اتنی بڑی بڑی باتیں ہورہی ہیں اور آپ نے مجھے بتایا تک نہیں۔ یہ سن کر میری چیخیں نکل گئیں۔ میری چیخ کی آواز سن کر والد صاحب بھی آگئے اور میری والدہ سے پوچھا کہ کیا عائشہ کو اس کی خبر ہوگئی ہے ؟ والدہ نے کہا ہاں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی رو پڑے۔ اس کے بعد مجھے اتنا شدید بخار ہوگیا کہ گھر کے سارے گرم کپڑے میرے اوپر ڈال دیئے گئے مگر میری سردی اور کپکپی نہ رکتی تھی۔ میں صبح وشام اسی طرح روتی رہتی اور رات رات بھر روتے روتے سو جاتی۔ اس عرصہ میں آپ نے گھر کے مختلف حضرات اور صحابہ کرام ؓ سے بھی مشورے کئے مگر سب نے حضرت عائشہ کی پاک دامنی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اچانک تشریف لے آئے سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئے۔ چونکہ ابھی تک وحی نازل نہ ہوئی تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ مجھے تمہارے متعلق کچھ معلوم ہوا ہے۔ اگر تم پاک دامن ہو تو اللہ تعالیٰ یقیناً اس کو ظاہر فرمادیں گے لیکن اگر تم سے واقعی کوئی لغزش یا بھو ل ہوگئی ہے تو اللہ سے توبہ و استغفار کرو وہ اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے اور جو لوگ اللہ کی طرف جھکتے ہیں تو وہ ان کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ یہ سن کر میرے آنسو تھم گئے اور میں نے پورے اعتماد کے ساتھ عرض کیا کہ اے ابا جان اپ اس بات کا جواب دیجئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا اللہ کی قسم میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا ہے۔ والدہ نے بھی مجھے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کیا کہوں۔ میں نے کہنا شروع کیا۔ آپ نے ایک بات سنی اور اس کو اپنے دل میں بٹھا لیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ میں اس سے بری ہوں یعنی بےگناہ ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بےگناہ ہوں تو آپ سچ کو نہ مانیں گے اور اگر میں اس کا اقرار کرتی ہوں حالانکہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میں اس الزام سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کو مان لیں گے۔ میں اس موقع پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح یہی کہتی ہوں ” فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون “ اتنا کہہ کر میں بستر پر لیٹ گئی۔ مجھے یقین تھا کہ میری حالت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے وہ ضرور میری بےگناہی کو ثابت کردے گا اور یہ بات رسول اللہ ﷺ کے اوپر ظاہر ہوجائے گی۔ میرا یہ گمان تک نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری بےگناہی ثابت کرنے کے لئے وحی نازل فرمائیں گے بلکہ میں یہ سمجھ رہی تھی کہ خواب میں آپ کے اوپر میری بےگناہی ثابت ہوجائے گی۔ آپ اسی کیفیت میں تھے کہ اچانک آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی اور آپ کے چہرہ انور سے پسینہ موتیوں کی طرح بہنا شروع ہوگیا۔ جب آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو میں بالکل مطمئن اور پرسکون تھی لیکن میرے والدین کا یہ حال تھا کہ جیسے ان کی جان نکل جائے گی۔ رسوائی کے خوف سے میرے والدین کبھی میری طرف دیکھتے اور کبھی رسول اللہ ﷺ کی طرف۔ وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ نجانے وحی کے ذریعہ سے کیا بات نازل ہوجائے۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھتے تو پریشان ہوجاتے اور جب میرے پرسکون چہرے پر نظر پڑتی تو مطمئن ہوجاتے۔ جب وحی نازل ہوچکی تو آپ ﷺ کا چہرہ انور خوشی سے دمکنے لگا۔ آپ ﷺ نے اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا مسکراتے ہوئے فرمایا اے عائشہ ؓ مبارک ہو اللہ نے تمہاری بےگناہی ثابت کرنے کے لئے وحی نازل فرما دی ہے۔ اس پر میری والدہ نے فرمایا کہ اٹھو حضور ﷺ کا شکریہ اداکرو۔ میں نے کہا میں تو اس اللہ کا شکر یہ اداکروں گی جس نے آیات نازل کر کے میری بےگناہی کو ثابت کردیا ہے۔ یہ واقعہ ہوگیا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی بےگناہی ثابت ہوگئی اور ان منافقین کا منہ کالا ہوگیا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی محبوب بیوی گھنائو نا الزام لگایا تھا بلکہ اللہ نے ام لمومنین کو قیامت تک وہ عظمت عطا فرمادی جو کسی کو نصیب نہیں ہے۔ کب تک قرآن کریم پڑھا جاتا رہے گا ( اور قیامت تک پڑھاجائے گا) اس وقت تک حضرت عائشہ کی پاک دامنی کی عظمت کا اعتراف کیا جاتا رہے گا۔ درحقیقت جو لوگ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے محبت کرنے والے ہیں وہی کامیاب و بامراد ہیں لیکن لوگ حضرت عائشہ ؓ کی عظمت کا انکار کرتے ہیں وہ اس دنیا میں اور آخرت میں ذلیل ورسوا ہو کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ کی بےگناہی کے ثبوت کے طور پر جو دس (10) آیتیں نازل فرمائی ہیں اس سے ان کی عظمت کو چار چاند لگ گئے ہیں جس سے اہل ایمان کے دل روشن ومنور رہیں گے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس واقعہ کی وجہ سے امت کو حد زنا ‘ حد قذف اور لعان اور دیگر احکامات عطا فرما دیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی عظمت کو مان کر ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ وہ امت کی اسی ماں ہیں جن کی عظمت پر ہم سب کی ماؤں کی عظمتیں قربان ہیں۔
Top