Tafseer-e-Jalalain - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
آیت نمبر 11 تا 20 ترجمہ : بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے یہ بڑا بہتان باندھا ہے یعنی ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگا کر بدترین جھوٹ بولا ہے تم ہی میں کی ایک جماعت ہے یعنی مومنین کی ایک جماعت ہے (اہل افک کی تعیین میں) حضرت عائشہ ؓ صدیقہ نے فرمایا وہ حسان بن ثابت اور عبداللہ بن ابی اور مسطح اور حمنہ بنت جحش ہیں، بہتان تراشنے والوں کی جماعت کے علاوہ اے مومنو ! تم اس بہتان کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اللہ تعالیٰ تم کو اس کے عوض اجر عطا فرمائے گا اور حضرت عائشہ ؓ صدیقہ اور ان کے ہمراہ آنے والے یعنی صفوان (ابن معطل) کی تہمت سے برآۃ ظاہر کر دے گا، حضرت عائشہ ؓ نے (واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا کہ میں ایک غزوہ میں نزول حجاب کے بعد آنحضرت ﷺ کے ہمراہ تھی، چناچہ جب آپ ﷺ غزوہ سے فارغ ہوگئے اور آپ ﷺ واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے اور رات کو کوچ کرنے کا اعلان کردیا تو میں قضائے حاجت کے لئے چلی گئی اور حاجت سے فراغت کے بعد کجاوہ کی طرف متوجہ ہوئی تو اچانک مجھے معلوم ہوا کہ میرا ہار ٹوٹ کر (کہیں) گرگیا ہے عِقْدٌ عین مہملہ کے کسرہ کے ساتھ ہار کو کہتے ہیں تو میں ہار تلاش کرنے کیلئے واپس چلی گئی، حال یہ ہے کہ لوگوں نے میرا ہودج یہ سمجھتے ہوئے کہ میں ہودج میں موجود ہوں میرے اونٹ پر رکھدیا، ہودج اس کجاوہ کو کہتے ہیں جس میں سوار ہوا جاتا ہے اور عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں اس لئے کہ کھانا کم کھاتی تھیں، عُلْقہ عین مہملہ کے ضمہ اور لام کے سکون کے ساتھ قلیل کھانے کو کہتے ہیں (ادھر یہ ہوا) کہ میرا ہار مل کیا، اور اہل قافلہ کے روانہ جانے کے بعد میں (اپنی جگہ) واپس آئی، چناچہ میں اسی جگہ (آکر) بیٹھ گئی جہاں تھی اور مجھے اس بات کا گمان غالب تھا کہ جب لوگ مجھ کو نہ پائیں گے تو میری طرف واپس آئیں گے، چناچہ مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا جس کی وجہ سے میں سوگئی، اور صفوان ابن معطل لشکر کے پیچھے آخر شب میں قیام کرتے تھے چناچہ (صفوان) رات کے آخری حصہ میں روانہ ہوئے تو صبح کے وقت میری منزل پر پہنچے، قولہ : عَرَّسَ اور الدَّلَجَ را اور دال کے تشدید کے ساتھ ہے (عَرَّسَ کے معنی آخر شب میں استراحت کیلئے قیام کرنا اِدّلَجَ بمعنی روانہ ہونا) تو اس نے ایک سوتے ہوئے شخص کا جثہ دیکھا چناچہ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اس لئے کہ اس نے مجھے حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے دیکھا تھا، چناچہ مجھے پہچاننے کے وقت ان کے استرجاع یعنی اِنَّا للہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے کی وجہ سے میں بیدا ہوئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ چھپالیا، واللہ نہ تو اس نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے اس سے سوائے استرجاع کے کوئی بات سنی، اس نے اپنی اونٹنی بٹھا دی اور اس کا ہاتھ دبا لیا (تاکہ جلدی کھڑی نہ ہوجائے) جب میں اس پر سوار ہوگئی تو وہ میری اونٹنی کی نکیل پکڑ کرلیکر چلے حتی کہ ہم لشکر میں پہنچ گئے، بعد اس کے کہ وہ لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت شدید گرمی میں داخل ہوتے ہوئے فرد کش ہوچکے تھے موغرین اَوْغَرَ سے مشتق یعنی سخت گرمی کے وقت گرم جگہ میں فرد کش ہونے والے تھے، چناچہ میرے بارے میں جس کو ہلاک ہونا تھا ہلاک ہوا اور وہ شخص جس نے اس معاملہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا، حضرت عائشہ ؓ کا کلام پورا ہوا، روایت کیا ہے اس کو شیخان نے، قال اللہ تعالیٰ ان میں سے ہر شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا کچھ اس نے اس معاملہ میں کیا اور اس شخص کیلئے جس نے ان میں سے (اس معاملہ میں) سب سے زیادہ حصہ لیا یعنی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بایں طور کہ اس معاملہ میں کھود کر ید کی اور اس کو شہرت دی، وہ عبد الہہ بن ابی ہے اس کے لئے بڑا عذاب ہے اور وہ آخرت میں آگ ہے جب لوگوں نے بہتان تراشی کو سنا تھا تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے آپس میں ایک دوسرے کیلئے اچھا گمان کیوں نہ کیا ؟ اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح جھوٹ ہے ؟ اس میں خطاب سے (غیبت کی طرف) التفات ہے (ظن المؤمنون الخ) ظننتم وقلتم ایھا العصبۃ کے معنی میں ہے اور ان لوگوں نے اس بہتان پر چار گواہ عینی کیوں پیش نہیں کئے ؟ جب یہ لوگ گواہ پیش نہ کرسکے تو یہ لوگ اللہ کے نزدیک یعنی اس کے حکم میں اس معاملہ میں جھوٹے ہیں اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا دنیا و آخرت میں فضل و کرم نہ ہوتا تو جس شغل میں تم پڑے تھے یعنی کھود کرید کر رہے تھے اس کی وجہ سے تم کو آخرت میں سخت عذاب لاحق ہوتا جب کہ تم اس بہتان کو اپنی زبانوں سے نقل در نقل کر رہے تھے یعنی ایک دوسرے سے روایت کر رہے تھے، فعل (یعنی تلقونہ) سے دو تاؤں میں سے ایک تا کو حذف کردیا گیا ہے اور اِذ مَسَّکُمْ یا اَفَضْتُمْ کی وجہ سے منصوب ہے اور تم اپنے منہ سے ایسی بات نکال رہے تھے کہ جس کے بارے میں تم کو مطلق علم نہیں تھا اور تم اس کو ایک معمولی بات کہ اس میں کوئی گناہ ہی نہ ہو سمجھ رہے تھے حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک گناہ کے اعتبار سے بڑی بھاری بات تھی اور جب تم نے اس کو سنا تھا تو یوں نہ کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ایسی بات منہ سے بھی نکالیں معاذ اللہ یہ تو بڑا بہتان ہے سُبْحَانکَ تعجب کیلئے ہے، اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے یعنی منع کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسی حرکت مت کرنا اگر تم مومن ہو تو اس سے نصیحت قبول کرو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لئے امر و نہی کے ساف صاف احکام بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا حکم کرتا ہے اور جس سے منع کرتا ہے اس کے بارے میں بڑا جاننے والا اور بڑا حکمت والا ہے جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی کا چرچا ہو اس بےحیائی کو ان کی طرف منسوب کرکے (اور ان چرچا کرنے والوں کی) ایک چھوٹی سی جماعت ہے، ان لوگوں کیلئے دنیا میں حد قذف کا اور آخرت میں نار کا حق اللہ ہونے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے اللہ تعالیٰ ان سے بےحیائی کے التفاء کو بخوبی جانتا ہے اور (اے تہمت لگانے والی) جماعت تم اس بےحیائی کے وجود کو ان میں نہیں جانتے اور اگر اے لوگو ! تم پر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو وہ حقیقت حال کو ظاہر کردیتا اور مستحق سزا پر مواخذہ کرنے میں جلدی کرتا بیشک اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں اور اس کے علاوہ میں توبہ قبول کرنے کی وجہ سے بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے اور اس حکم میں جو اس نے اس معاملہ میں اور اس کے علاوہ میں کیا حکمت والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد ان الذین جاؤا بالإفک یہاں سے افک سے متعلق اٹھارہ آیتوں کا ذکر شروع ہو رہا ہے اِفْک لغت میں پلٹ دینے اور بدل دینے کو کہتے ہیں بدترین جھوٹ جو حق کو باطل سے اور باطل کو حق سے بدل دے، پاکباز متقی کو فاسق اور فاسق کو متقی و پرہیزگار بنا دے اسی جھوٹ کو افک کہتے ہیں عُصبۃ مختصر جماعت کو کہتے ہیں تعداد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ قولہ : لاتحسبوہ اس کے مخاطب آپ ﷺ اور ابوبکر، عائشہ و صفوان ہیں مقصد ان حضرات کو تسلی دینا۔ قولہ : مَنْ جاء مِنہٗ مَنْ سے صفوان ابن معطل السمیِّ مراد ہیں اور مِنْہُ کی ض ﷺ یر کا مرجع افک ہے اور جار مجرور برأۃ سے متعلق ہے۔ قولہ : فی غزوۃٍ مراد غزوہ بنی مصطلق ہے جس کو مریسیع بھی کہا جاتا ہے صحیح اور راجح قول کے مطابق 5 ھ میں پیش آیا تھا۔ قولہ : بعد ما انزل الحجاب حجاب سے مراد آیت حجاب یعنی وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ متَاعًا فاسئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابِ ہے۔ قولہ : قد عَرَّسَ تعریس، النزول فی آخر اللیل للاستراحۃ۔ قولہ : اِدَّلَجَ واِدَّلاجً آخر شب میں سفر کرنا۔ قولہ : ھُما بتشدید الراءِ والدالِ عَرَّسَ وَاِدَّلَجَ کے بارے میں لف و نشر کے طور پر اشارہ کردیا کہ عَرَّس میں را اور اِدَّلَجَ میں دال دونوں مشدد ہیں۔ قولہ : ای نزل مِن آخر اللیل للاستراحۃ یہ عرّس کی تفسیر ہے اور قولہ : فَسَارَ منہ اِدّلَجَ کی تفسیر ہے مِنْہٗ ای آخر اللیل ادَّلَجَ مِنہ ای ساَر مِن آخر اللیل حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے الفاظ کی تشریح کیلئے مفسر علام نے درمیان میں تشریحی الفاظ کا اضافہ فرمایا ہے ورنہ تو اصل عبارت اس طرح ہے کان صفوان قد عَرَّس مِن وراء الجیش فادَّلَجَ منہٗ فاصبَحَ فی منزلی۔ قولہ : موغرینَ یہ وَغرٌ سے مشتق ہے وغرٌ شدید گرمی کو کہتے ہیں۔ قولہ : بالملأۃ وہ چادر جو جسم کو چھپالے مُوغِرِین ای داخلین فی شدۃ الحر۔ قولہ : فی نحر الظھیرۃ ٹھیک دوپہر کے وقت قولہ : سلُول یہ عبداللہ ابن اَبَیّ کی ماں کا نام ہے۔ قولہ : لکلِّ امرئ مفسر علام نے علیہ سے تفسیر کرکے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی علیٰ ہے۔ قولہ : لَوْ لاَ ھَلاَّ اِذْ سَمِعْتمُوہ یہ لولا توبیخیہ ہے اس لئے کہ ماضی پر داخل ہے، لولا تین قسم کا ہوتا ہے (1) جب ماضی پر داخل ہو تو توبیخیہ ہوتا ہے اور جب مضارع پر داخل ہوتا ہے تو تحضیضیہ ہوتا ہے اور جب جملہ اسمیہ پر داخل ہوتا ہے تو امتناعیہ ہوتا ہے، یہاں لولا چھ جگہ استعمال ہوا ہے اول، ثانی اور رابع توبیخیہ ہے اس لئے جواب کی ضرورت نہیں اور تیسرا اور پانچواں اور چھٹا شرطیہ (امتناعیہ ہے) تیسرے اور چھٹے مقام پر جواب مذکور ہے اور پانچویں مقام پر جواب محذوف ہے (صاوی) ۔ قولہ : بانفسھم ای ابناء جنسھم فی الایمان یعنی اپنے ایمانی بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا ؟ فیہ التفات عن الخطاب الی الغیبۃ اِذ سمِعْتمُوہ کے مطابق ظنّ المومنون اور قالوا کے بجائے ظننتم اور قلتم ہونا چاہیے، مذکورہ دونوں صیغوں میں دو قسم کا التفات ہوا ہے اول تو حاضر سے غائب کی جانب اور دوسرے ضمیر سے اسم ظاہر کی جانب، اس التفات کا مقصد توبیخ میں مبالغہ کرنا ہے، اس طریقہ پر ایمان کا تقاضہ یہ تھا کہ تم اپنے بھائیوں کے بارے میں حسن ظن رکھتے ثہ جائیکہ تم لوگوں نے طعنہ زنی اور عیب چینی شروع کردی تم کو تو اپنے بھائیوں کا اسی طرح دفاع کرنا چاہیے تھا جس طرح تم خود اپنا دفاع کرتے ہو، تقدیر عبارت یہ ہے لولا اِذ سمعتُموہُ ظننتم ایّھا المومنوں والمومنات باخوانھم خیراً وھلاّ قلتُم ھٰذا افکٌ مبینٌ۔ قولہ : لولا ھلاَّ جاؤا علیہ (الآیہ) یہ کلام سابق کا تتمہ بھی ہوسکتا ہے یعنی مومنین اور مومنات نے افتراء کرنے والوں اے افتراء پر چار گواہوں کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ یعنی بہتان کو سننے کے بعد جس طرح آپس میں حسن ظن ضروری تھا اسی طرح افتراء پردازوں سے چار گواہوں کا مطالبہ ضروری تھا ای وقالوا ھلاَّ جاؤا الخائضون باریعۃ شھداء علی ما قالوا دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لولا جاؤا (الآیہ) جملہ استینافیہ ہو، اس صورت میں قالوا محذوف ماننے کی ضرورت نہ ہوگی۔ قولہ : ای فی حکمہٖ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا جواب ہے، شبہ یہ ہے کہ افتراء پردازوں کو عند اللہ اس لئے کاذب کہا گیا ہے کہ وہ چار عینی شاہد پیش نہیں کرسکے حالانکہ اگر وہ چار عینی شاہد پیش بھی کردیتے تب بھی کاذب ہی تھے، جواب یہ ہے کہ گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں کہ بحکم شرع کاذب تھے اور اگر وہ چار گواہ پیش کردیتے تو اس وقت حکم شرعی میں بظاہر صادق ہوتے، اللہ تعالیٰ کو چونکہ ان کی ظاہراً اور باطناً تکذیب منظور تھی اس لئے چار گواہوں کا مطالبہ کیا تاکہ ان کا کذب خوب ظاہر ہوجائے۔ قولہ : لولا فضل اللہ علیکم میں لولا امتناعیہ ہے اس کا جواب لمَسَّکُمْ ہے۔ قولہ : فیما اَفَضْتُمْ فی بمعنی سبب ہے ای بسبب ما اَفَضْتُمْ اور ما موصولہ ہے مراد حدیث افک ہے ای لَمَسَّکُمْ بسبب الذی خُضْتُمْ فیہ وھو الإفک اور ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے ای لَمسَّکُمْ بسبب خوضکم فیہ ای الافک۔ قولہ : وَلَوْلاَ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ اِذْ ، قُلْتُمْ کا ظرف مقدم ہے، یعنی تمہارے لئے یہ مناسب تھا کہ بہتان کو سنتے ہی کہ دیتے کہ ایسی باتیں کرنا ہمارے لئے ہرگز مناسب نہیں۔ قولہ : یَنْھَاکُمْ اَنْ تَعُوْدُوْا الخ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یَعِظُکُم فعل متعدی بعن کے معنی کو متضمن ہے پھر عن کو حذف کردیا گیا ای یَنْھَاکُمْ عن العود أن مصدریہ ہے جس کی وجہ تَعُوْدُوْا بمعنی عَوْدٌ ہے۔ قولہ : تتعِظونَ بذٰلک یہ جملہ مومنین کی صفت ہے یعنی اگر تم نصیحت قبول کرنے والے مومن ہو تو ایسی حرکت دوبارہ نہ کرو گے، جواب شرط محذوف ہے ای ان کنتم مومنین فلا تعودوْا لمثلہٖ ۔ قولہ : باللسان اس کے اضافہ کا مقصد یہ ہے کہ افترا پردازوں کو یہ بات پسند تھی کہ فحش بات کا زبانی چرچا ہو نہ کہ حقیقت میں فحش کی اشاعت ہو۔ قولہ : بِنِسبتِھا الیھم، الیھم سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت صفوان ہیں اور وھم عصبۃ مراد وہ لوگ جو فحش بات کی اشاعت پسند کرتے تھے۔ قولہ : لھم عذابٌ الیمٌ انّ کی خبر ہے۔ قولہ : وَانَّ اللہَ رَؤفٗ رَّحِیْمٌ کا عطف فضل اللہ پر ہے اور لَعَاجَلَکُمْ لولا کا جواب ہے، معطوف و معطوف علیہ سے ملکر مبتداء ہے اس کی خبر محذوف ہے اور وہ موجودان ہے۔ تفسیر و تشریح ان الذین۔۔۔ (الآیہ) یہاں سے اس طوفان کا ذکر ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر اٹھایا گیا تھا، واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اطلاع ملی کہ بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار نے مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے بہت سی فوج جمع کی ہے، یہ غزوہ راجح قول کے مطابق 2 شعبان بروز دو شنبہ 5 ھ میں پیش آیا تھا (سیرۃ مصطفیٰ ) غزوہ بنی مصطلق کو غزوہ مریسیع بھی کہتے ہیں، آپ ﷺ نے اس خبر کی تصدیق کیلئے بریدہ بن حُصَیْب کو بھیجا، حضرت بریدہ نے آکر خبر کی تصدیق کی آپ نے صحابہ کو خروج کا حکم فرمایا مدینہ میں زید بن حارثہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا ازواج مطہرات میں سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ آپ کے ہمراہ تھیں، ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ بھی ساتھ تھیں، اس غزوہ میں بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا جن میں دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بکریاں شامل تھیں، دو گھرانے قید ہوئے قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ضرار کی صاحبزادی جویریہ بھی تھیں جو کہ تقسیم مال غنیمت کے وقت حضرت ثابت بن قیس ؓ کے حصہ میں آئیں، حضرت ثابت ؓ نے ان کو مکاتب بنادیا تھا، بدل کتابت کے سلسلہ میں جویریہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ ﷺ نے فرمایا میں تم کو اس سے بہتر چیز بتلاتا ہوں اگر تم پسند کرو، وہ یہ کہ میں تمہاری طرف سے بدل کتابت ادا کرکے تم کو آزاد کر دوں اور اپنی زوجیت میں لے لوں، جویریہ نے عرض کیا میں اس پر راضی ہوں چناچہ آپ ﷺ نے اپنی زوجیت میں لے لیا۔ (رواہ ابو داؤد) واپسی پر آپ ایک منزل ہر فرد کش ہوئے، لشکر میں کوچ کرنے کا اعلان کرا دیا گیا تاکہ لوگ اپنی ضروریات سے فارغ ہوجائیں، چناچہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بھی قضائے حاجت کیلئے لشکر سے دور چلی گئیں، جب واپس ہونے لگیں تو ہار ٹوٹ گیا جو یمانی نگینوں کا تھا، ان کے جمع کرنے میں دیر ہوگئی قافلہ تیار تھا، حجاب کا حکم چونکہ نازل ہوچکا تھا جس کی وجہ سے حضرت عائشہ ہودج میں سفر کر رہی تھیں اور ہودج پر پردے پڑے ہوئے تھے، ہودج برداروں نے یہ سمجھ کر کہ ام المومنین ہودج میں ہیں ہودج کو انٹ پر رکھ دیا اور اونٹ کو ہانک دیا، اس وقت عورتیں عموماً دبلی پتلی ہوتی تھیں خاص طور پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ چونکہ صغیر السن تھیں اس وجہ سے بھی دبلی پتلی تھیں ادھر ہودج اٹھانے والے کئی افراد تھے جس کی وجہ سے ہودج کے خالی ہونے کا احساس نہ ہوسکا، حضرت عائشہ ؓ جب ہار لیکر لشکر گاہ واپس آئیں تو لشکر روانہ ہوچکا تھا وہاں کوئی نہیں تھا، یہ خیال کرکے کہ جب آئندہ مقام پر آپ ﷺ مجھے نہ پائیں گے تو اسی جگہ میری تلاش کیلئے کسی کو روانہ فرمائیں گے، اسی جگہ چادر لپیٹ کرلیٹ گئیں، اور نیند آگئی، حضرت صفوان بن معطل ؓ گرے پڑے کی خبر گیری کے لئے لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ صبح کے وقت اس مقام پر پہنچے جہاں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سو رہی تھیں دیکھا کہ کوئی پڑا سو رہا ہے جب قریب آکر دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں اور زور سے اِنَّا للہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا حضرت عائشہ ؓ کی اس آواز سے آنکھ کھل گئی اور چادر سے منہ ڈھانپ لیا، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں وَاللہِ ما کلمنی کلمۃ ولا سمعت منہ کلمۃ غیر استرجاعہٖ خدا کی قسم صفوان نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ ان کی زبان سے سوائے اِنَّاللہِ کے میں نے کوئی کلمہ سنا، حضرت صفوان ؓ نے اپنا اونٹ قریب لاکر بٹھا دیا حضرت عائشہ ؓ اونٹ پر سوار ہوگئیں اور حضرت صفوان ؓ اونٹ کی نکیل پکڑ کر پاپیادہ روانہ ہوگئے اور ٹھیک دوپہر کے وقت قافلہ سے جا ملے، عبداللہ بن ابی بڑا خبیث بد باطن اور رسول اللہ ﷺ کا دشمن تھا، اسے ایک بات ہاتھ لگ لگئی اور بدبخت نے واہی تباہی بکنا شروع کردیا اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی مثلاً مردوں میں حضرت حسان حضرت مسطح اور عورتوں میں حضرت حمنہ بنت جحش منافقوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس قسم کے افسوس ناک تذکرے کرنے لگے، تمام مسلمانوں کو اور خود آنحضرت ﷺ کو ان چرچوں سے بیحد صدمہ تھا، تقریباً ایک مہینہ تک یہی چرچہ رہا، مگر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اس سے بالکل بیخبر تھیں، اسی دوران حضرت عائشہ ؓ بیمار ہوگئیں، آپ ﷺ تشریف لاتے اور مزاج پرسی کرکے تشریف لے جاتے، رسول اللہ ﷺ کے اس تلطف میں کمی آجانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں مبذول رہی دل کو خلجان اور تردد تھا کہ کیا بات ہے کہ آپ گھر میں تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس تشریف لیجاتے ہیں مجھ سے دریافت نہیں فرماتے، آپ ﷺ کی اس بےالتفاتی کی وجہ سے میری تکلیف میں اور اضافہ ہوتا ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز رات کو میں اور ام مسطح قضائے حاجت کیلئے جنگل کی طرف چلے، عرب کا قدیم دستور یہی تھا کہ بدبو کی وجہ سے گھروں میں بیت الخلاء نہیں بناتے تھے، راستہ میں ام مسطح کا پیر چادر میں الجھ گیا جس کی وجہ سے وہ گرگئیں اس وقت ام مسطح کے منہ سے نکلا تَعِسَ مسطح مسطح ہلاک ہو، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا آپ ایسے شخص کو کیوں برا کہتی ہیں جو بددری ہے، ام مسطح نے کہا اے بھولی بھالی لڑکی تم کو قصہ کی خبر نہیں حضرت عائشہ ؓ نے معلوم کیا کہ قصہ کیا ہے ؟ مسطح نے پورا سنایا یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آگئی رات دن روتی رہتی تھیں، ایک لمحہ کیلئے بھی آنسو نہ تھمتے تھے، ہشام بن عروہ کی روایت کے مطابق بغیر قضائے حاجت کے واپس آگئیں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت چاہی تاکہ ماں باپ کے ذریعہ اس واقعہ کی تحقیق کروں، آپ نے اجازت دیدی، میں اپنے والدین کے یہاں آگئی اور اپنی والدہ سے کہا اے اماں تم کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہتے ہیں، ماں نے کہا اے بیٹی تو رنج نہ کر دنیا کا قاعدہ ہی یہ ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبت ہوتی ہے تو حس کرنے والی عورتیں اس کے ضرر کے درپے ہوجاتی ہیں، جب نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ اور اسامہ سے مشورہ کیا حضرت اسامہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ آپ کے اہل ہیں جو آپ کی شایان شان اور منصب نبوت و رسالت کے مناسب ہیں ان کی عصمت و عفت کا پوچھنا ہی کیا ہے آپ کے حرم محترم کی طہارت و نزاہت تو اظہر من الشمس ہے اس میں رائے مشورہ کی کیا ضرورت ہے اور اگر آپ ہمارا ہی خیال معلوم کرنا چاہتے ہیں تو عرض یہ ہے وَمَا نعلم اِلاَّ خیراً ہمارے علم کے اعتبار سے آپ کے اہل میں خیر کے سوا کچھ نہیں۔ حضرت علی ؓ نھے آنحضرت ﷺ کے رنج و غم کے خیال سے یہ عرض کیا یَا رسُولَ اللہِ لَمْ یضیق اللہ علیک وَالنِّساء سواھا کثیرٌ واِنْ تسأل الجَاریَۃَ تصدقک یا رسول اللہ ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں فرمائی عورتیں اس کے سوا بہت ہیں آپ اگر گھر کی باندی سے دریافت فرمائیں تو وہ سچ سچ بتادے گی، غرض کہ آپ ﷺ نے حضرت بریرہ ؓ کو بلوایا اور صورت حال معلوم کی، حضرت بریرہ ؓ نے عرض کیا ” قوم اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دیکر بھیجا میں نے عائشہ کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں دیکھی “ الاّ یہ کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہے، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہے بکری کا بچہ آکر اسے کھا جاتا ہے یعنی وہ تو اس قدر بیخبر اور بھولی بھالی ہے کہ اسے تو آٹے دال کی بھی خبر نہیں وہ دنیا کی ان چالاکیوں کو کیسے جان سکتی ہے۔ آپ ﷺ بریرہ ؓ کی بات سن کر مسجد میں تشریف لے گئے اور منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا اول خدا کی حمد بیان فرمائی بعد ازاں عبداللہ بن ابی کا ذکر کرے یہ ارشاد فرمایا : ” اے گروہ مسلمین کون ہے جو میری اس شخص کے مقابلہ میں مدد کرے جس نے مجھ کو میرے اہل بیت کے بارے میں ایذاء پہنچائی ہے، خدا کی قسم میں نے اپنے اہل سے سوائے نیکی اور پاک دامنی کے کچھ نہیں دیکھا اور علیٰ ھٰذا جس شخص کا ان لوگوں نے نام لیا ہے اس سے بھی سوائے خیر کے کچھ نہیں دیکھا “ (سیرت مصطفیٰ ملخصاً ) آخر کار حضرت صدیقہ کی برأت میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سورة نور کی یہ آیتیں اِنَ الَّذِیْنَ جَاؤا بِالإفکِ الخ نازل فرمائیں جس پر حضرت عائشہ صدیقہ فخر کیا کرتے تھی مزید تفصیل کیلئے بخاری شریف کی طرف رجوع کریں۔ قولہ : لِکُلِّ امْرِءٍ مِنْھُمْ ای علیہ لکل میں لام بمعنی علی ہے جیسا کہ مفسر علام نے اشارہ کیا ہے یعنی تہمت لگانے والی جماعت کے ہر فرد کیلئے اس کے جرم کی مقدار سزا ملے گی اوپر کی آیت میں خائضین فی الإفک کا بیان تھا، اس آیت میں ان کو نو طریقہ سے تعبیر اور توبیخ فرمائی ہے، ان میں پہلا لَولَا اِذْ سمِعْتُمُوْہُ ہے اور نواں یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ الخ ہے، لَوْ لاَ توبیخیہ ہے اور اِذْ ظَنَّ کا ظرف ہے۔ قولہ : ای ظَنَنْتُمْ اَیُّھَا العصبۃ وقلتم اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آیت میں خطاب سے غیبت کی جانب التفات ہے اور ظَنَّ بمعنی ظَنَنْتُمْ اور قالوا بمعنی قُلْتُمْ ہے۔ قولہ : لَوْ لاَ ھَلاَّ جاؤا اس میں دو احتمال ہیں اول یہ کہ یہ جملہ مستانفہ ہے تب تو ماقبل سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا اور اگر یہ کلام ما قبل کا تتمہ ہے تو لولا کے تحت میں داخل ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ اس افتراء اور بہتان کو سنتے ہی بہتر گمان کرنا چاہیے تھا اور اس افتراء پر چار عینی شاہدوں کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ قولہ : لَوْ لاَ فَضْلُ اللہِ علَیْکُمْ یعنی یہ طوفان تو ایسا اٹھا تھا کہ نہ معلوم کون کون اس طوفان کی زد میں آتے لیکن اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے تم میں سے تائبین کی توبہ کو قبول فرمایا اور بعض کو حد شرعی جاری کرکے پاک کیا اور جو زیادہ خبیث تھے ان کو ایک گونہ مہلت دی ان کیلئے آخرت میں شدید عذاب ہے۔
Top