Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ
: بیشک جو لوگ
جَآءُوْ بالْاِفْكِ
: بڑا بہتان لائے
عُصْبَةٌ
: ایک جماعت
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
لَا تَحْسَبُوْهُ
: تم اسے گمان نہ کرو
شَرًّا
: برا
لَّكُمْ
: اپنے لیے
بَلْ هُوَ
: بلکہ وہ
خَيْرٌ لَّكُمْ
: بہتر ہے تمہارے لیے
لِكُلِّ امْرِۍ
: ہر ایک ٓدمی کے لیے
مِّنْهُمْ
: ان میں سے
مَّا اكْتَسَبَ
: جو اس نے کمایا (کیا)
مِنَ الْاِثْمِ
: گناہ سے
وَالَّذِيْ
: اور وہ جس
تَوَلّٰى
: اٹھایا
كِبْرَهٗ
: بڑا اس کا
مِنْهُمْ
: ان میں سے
لَهٗ
: اس کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
عَظِيْمٌ
: بڑا
بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک گروہ ہے، تم اس واقعہ کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو ایک عذاب عظیم ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآئُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْط لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّـکُمْ ط بَل ھُوَ خَیْرٌلَّـکُمْ ط لِکُلِّ امْرِیًٔ مِّنْھُمْ مَّا اکْـتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِج وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْھُمْ لَـہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (النور : 11) (بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک گروہ ہے، تم اس واقعہ کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو ایک عذاب عظیم ہے۔ ) اس آیت کریمہ سے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) پر لگائے جانے والے بہتان سے براءت کا اعلان کیا جارہا ہے اور اس کے ضمن میں اس بہتان کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات سے متعلق ضروری ہدایات دی جارہی ہیں۔ اِفک کا مفہوم سب سے پہلی قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس بہتان کو افک کے نام سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اِفک جھوٹی، من گھڑت، خودتراشیدہ اور خلاف حقیقت بات کو کہتے ہیں۔ اس بہتان کو افک کے نام سے تعبیر فرما کر بہتان کی قلعی کھول دی گئی ہے کہ یہ بہتان جن لوگوں نے لگایا ان کی سیرت و کردار اور اسلام کے بارے میں ان کے ارادے بجائے خود اس بات کی شہادت ہیں کہ اس بہتان کی کوئی حقیقت نہیں اور جس ذات عزیز پر لگایا گیا اس کا مقام و مرتبہ، اس کا سیرت و کردار، اس کی اعلیٰ نسبتیں اور ذات رسالت کے لیے اس کا انتخاب، ان میں سے ایک ایک بات اس بہتان کے افک ہونے کی قطعی شہادت دیتی ہے چونکہ یہ بہتان نہ اپنے اندر کوئی اصل رکھتا تھا اور نہ کوئی وزن۔ اس لیے پروردگار نے اس کی طرف اشارہ ضرور کیا لیکن اس کی تفصیلات کو ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا، اور مزید یہ بات کہ جس طرح باغیرت بیٹے کے سامنے اس کی عفیفہ ماں پر لگائے جانے والے بہتان کا تذکرہ بجائے خود ایک عیب ہوتا ہے اور بیٹا کبھی اسے برداشت نہیں کرتا کہ کوئی شخص اس کی ماں کا تذکرہ اس طرح کے بہتان کے حوالے سے کرے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کی حیثیت اس امت کے لیے حقیقی ماں سے بھی بڑھ کر ہے۔ جن لوگوں نے ان کے بارے میں یہ ناپاک جسارت کی ہے یہ جسارت بجائے خود اسلام کے بارے میں ان کے بغض کو ثابت کرنے والی ہے، اور وہ اپنے اسی بغض کے باعث مسلمانوں سے کاٹ دیئے جائیں گے اور قیامت کے دن عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے۔ لیکن امت کے کسی ایک فرد کو بھی یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس بہتان کو اپنی زبان پر لائے۔ اس لیے پروردگار نے اس کی طرف اشارہ کرنا کافی سمجھا۔ لیکن تفسیر کی ضرورت کے تحت مجبوری ہے کہ تفسیر کے قارئین کو بتایا جائے کہ واقعہ کی اصل حقیقت کیا تھی۔ یوں تو ہم اس کی تفصیل سورة کے تعارف میں ذکر کرچکے ہیں لیکن ہم باردیگر ربط کلام کے لیے نہایت اختصار سے ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ واقعہ افک کا مختصر ذکر 6 ہجری میں غزوہ بنی مصطلق پیش آیا۔ آنحضرت ﷺ اس غزوہ سے فتح مند ہو کر واپس تشریف لا رہے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) ایک الگ اونٹ پر آپ ﷺ کی ہم سفر تھیں۔ راستے میں فوج نے رات کے وقت غالباً مدینہ سے ایک منزل دور پڑائو ڈالا۔ رات کے پچھلے پہر ام المومنین ضرورت سے باہر نکلیں۔ اتنے میں فوج کے کوچ کا حکم دے دیا گیا۔ ام المومنین رفع حاجت سے فارغ ہو کر واپس آرہی تھیں، معلوم ہوا کہ وہیں آپ ( رض) کا ہار گرگیا ہے۔ آپ ( رض) کو ہار ڈھونڈتے کچھ دیر لگی۔ اسی اثناء میں قافلہ روانہ ہوگیا۔ ام المومنین کے ساربان اور ان کے ساتھی آپ ( رض) کے ہودج کو اٹھاتے ہوئے یہ محسوس نہ کرسکے کہ آپ ( رض) ہودج میں موجود نہیں ہیں۔ ام المومنین جب پڑائو کی جگہ پر واپس آئیں اور دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوگیا ہے تو شب میں اس کے سوا انھیں اور کوئی تدبیر نہ سوجھی کہ وہیں ٹھہر جائیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ کوئی راہ پیدا کردے۔ حضرت صفوان صحابی اس خدمت پر مامور تھے کہ وہ قافلہ کے پیچھے پیچھے چلیں تاکہ بھولی بسری چیزوں کا جائزہ لے سکیں۔ جب صبح کو پڑائو کی جگہ پر پہنچے اور دیکھا کہ ام المومنین پیچھے رہ گئی ہیں تو انھوں نے اِنَّا لِلّٰہِپڑھا۔ ان کی آواز سے حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) اٹھ بیٹھیں۔ انھوں نے اپنا اونٹ پاس لا کر بٹھا دیا۔ ام المومنین اس پر سوار ہوگئیں۔ انہوں نے مہار پکڑکر اونٹ کو قافلے سے جاملایا۔ فوج کے کوچ اور مقام کے دوران میں اس قسم کے واقعہ کا پیش آجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ لیکن منافقین نے اس ذرا سی بات کو ایک افسانہ بنادیا۔ چونکہ یہ بات سراسر بےاصل تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے افک قرار دیا۔ سفر سے واپسی پر ام المومنین بیمار پڑگئیں۔ کافی دنوں کے بعد اجازت لے کر اپنے والدین کے پاس تشریف لے گئیں، لیکن انھیں کچھ پتہ نہیں کہ باہر ان کے بارے میں کیا غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ اپنے والدین کے گھر جب انھیں علم ہوا تو ان کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ نہ دن کو آرام نہ رات کو چین، ہر وقت رونے سے کام۔ آخر ایک روز آنحضرت ﷺ گھر میں تشریف لائے اور وہیں آپ ﷺ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور ﷺ بےحد خوش تھے۔ آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری براءت نازل فرما دی اور اس کے بعد حضور ﷺ نے دس آیتیں پڑھ کر سنائیں جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ ( رض) کی براءت کرنے سے پہلے پروردگار نے پورا ایک رکوع زنا اور قذف اور لعان کے احکام کے بارے میں وقف کیا ہے۔ توجہ شاید اس طرف دلانی ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی معمولی بات نہیں، بالخصوص وہ امت جس کا پیغمبر دنیا میں مکارمِ اخلاق کا پیکر بن کر آیا اور جس کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ وہ امت کو حُسنِ اخلاق کے زیور سے آراستہ کرے جس کے خیالات، تصورات، افکار، خواہشات، رجحانات اور اعمال اس قدر پاکیزہ ہوں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اندر حیاء کی تلقین رکھتا ہو۔ بےحیائی کی پرچھائیں بھی اس امت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ اس کے نوجوان ایسی پاکیزہ جوانی کے حامل ہوں جو حفظ فروج اور غض بصر کی احتیاطوں سے گراں بار ہوں۔ ایسی امت اور اس کے معاشرے میں زنا کا ذکر ایک زلزلہ برپا ہونے سے کم نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے اپنے معاشرے کو شرم و حیاء کا جوہر دینے کے لیے جس تعلیم سے آراستہ کیا اور ان کے دل و دماغ کو پاکیزہ بنانے کے لیے تزکیہ کی جس تربیت سے گزارا یقینا اس میں کہیں کوئی خامی باقی رہ گئی ہے۔ چناچہ ایسے سوتوں کو بند کرنے کے لیے جہاں سے بےحیائی کے جراثیم داخل ہوسکتے ہوں ضروری ہے کہ ایک سخت قانون نافذ کیا جائے جس سے وہ لوگ جو اصلاحی تدابیر سے متاثر ہونے کی بجائے ابھی تک اپنے اندر برائی کے میلانات رکھتے ہیں ان کا علاج کیا جائے اور معاشرے کو ان کے اثرات سے بچایا جائے اور جو لوگ محض تفریحِ طبع کے طور پر لوگوں کی عزتوں سے کھیلتے اور پاکدامن مرد و عورت پر ایسے گھنائونے الزامات لگا کر بےحیائی کے فروغ کا راستہ کھولتے ہیں انھیں سخت سزا دے کر معاشرے کو ان کے اثراتِ بد سے بچایا بھی جائے اور ان کے اصل چہرے بھی نمایاں کیے جائیں۔ اور اگر خدانخواستہ بےحیائی کے اثرات گھروں میں داخل ہوجائیں تو انھیں بھی ایک سخت قانون کا پابند بنا کر گھروں کو صحیح معنی میں نئی نسل کا وہ حصار بنایا جائے جس میں حتی الامکان کوئی شیطانی اثر اپنا راستہ نہ بنا سکے۔ بہتان لگانے والے کون تھے ؟ آیتِ کریمہ میں بہتان کی حقیقت کھولنے کے بعد یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر ذی فہم اور سنجیدہ شخص واقعہ کے مَالَـہٗ وَمَا عَلَیْہِ کو دیکھ کر اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا کہ اس بہتان کی کوئی حقیقت نہیں، لیکن عام سادہ دل مسلمان اس پر اپیگنڈے سے کسی نہ کسی حد تک ضرور متاثر ہورہے تھے جو شب و روز پوری قوت سے جاری تھا۔ اور چند گنتی کے افراد تو باقاعدہ اس بےہودہ بات کو پھیلانے میں شریک ہوچکے تھے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے تمام ذمہ دار لوگ اس انتظار میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی صورتحال میں کوئی واضح احکام اتریں تاکہ اس پریشانی سے نجات ہوسکے۔ لیکن جیسے جیسے وحی الٰہی کے نزول میں تاخیر ہورہی تھی، ویسے ویسے مسلمانوں کی خاموشی گہری ہوتی جارہی تھی اور پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ قرآن کریم نے اس تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی پریشانی اپنی جگہ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اس لایعنی اور بےہودہ بات کو بتنگڑ بنا کر پھیلا رہے ہیں وہ کون لوگ ہیں، وہ خود تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ اس میں اشارہ منافقین کی طرف ہے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو ابھی تک مسلمانوں میں گھلے ملے رہتے ہیں اور سادہ دل مسلمانوں کو یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح مسلمان ہیں اور ہمیں بھی اسلام اسی طرح عزیز ہے جیسے تمھیں۔ اور پھر اسی پردے میں ان کے ذہن میں وہ باتیں اتاری جاتی ہیں جو سراسر اسلام کے خلاف ہوتی ہیں۔ یہ بہتان چونکہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے تراشا اور پھیلایا تھا اس لیے مِنْکُمْ سے ان کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ تمہارے قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور بعض مسلمانوں کی سادگی کا عالم یہ ہے کہ وہ اب بھی ان کی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں اور بعض طبیعتوں میں ان کے لیے جو نرم گوشہ پایا جاتا ہے اس کا اظہار تو اسی واقعہ کے ضمن میں اس وقت ہوا جب قبیلہ اوس کے سردار حضرت اسید بن حضیر ( رض) نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ حضور ﷺ یہ شخص اگر خزرج سے تعلق رکھتا ہے تو آپ ﷺ ہمیں حکم دیجیے ہم اس کی تعمیل کریں گے، تو حضرت سعد بن عبادہ ( رض) اپنے تمام تر اخلاص اور دینی خدمات کے باوجود عبداللہ بن ابی کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منافقین کس طرح ابھی تک مسلمانوں کے دلوں میں زندہ تھے۔ شر میں خیر کے پہلو دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تم یہ گمان مت کرو کہ منافقین کی یہ کاوشیں تمہارے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ اور ایسا مکروہ بہتان تمہارے لیے شر کا باعث بنے گا۔ ہرگز نہیں بلکہ اس میں تمہارے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اس حوالے سے جب ہم غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ خیر کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ مسلمان اپنی سادگی سے جن منافقین کو اپنا سمجھ رہے تھے اس واقعہ نے ان کو یقین دلا دیا کہ یہ تو سانپوں کا وہ گروہ ہے جو ہماری آستینوں میں گھسا ہوا ہے اور جب بھی اس کو موقع ملتا ہے یہ ہمیں ڈسنے کوشش کرتا ہے۔ ان کی اس بہتان طرازی نے پوری طرح ان کا گھونگٹ الٹ ڈالا اور مسلمانوں کو ان کا اصل چہرہ دیکھنے کا موقع مل گیا۔ دوسرا خیر کا پہلو اس میں یہ تھا کہ اس واقعہ کی اشاعت نے سادہ دل مسلمانوں کی اس کمزوری کو نمایاں کردیا کہ اگر کوئی شخص پر اپیگنڈے کے زور سے ان سے کوئی ایسی بات منوانا چاہے یا ان کی زبانوں پر لانا چاہے جو کسی طرح بھی ان کے لیے مناسب نہیں، تو اسے کہیں نہ کہیں اس کے لیے مناسب جگہ مل جاتی ہے۔ چناچہ اس واقعہ کے نتیجہ میں مسلمانوں نے خود اپنی اس کمزوری کو محسوس کیا اور پروردگار نے اس سورة میں ایسے احکام نازل فرمائے جس سے مسلمانوں میں اس طرح کی کمزوریوں کا علاج ہوگیا۔ اور تزکیہ کا وہ پہلو جو نگاہوں سے اوجھل تھا وہ نکھر کر سامنے آگیا۔ اور خیر کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس واقعہ نے معاشرے کی اصلاح و تنظیم سے متعلق بہت سے احکام و ہدایات کے نزول کے لیے ایک نہایت سازگار فضاء پیدا کردی۔ ان احکام کو تو بہر صورت مسلمانوں پر تو لاگو ہونا ہی تھا لیکن اگر یہ فضاء پیدا نہ ہوتی تو شاید ان احکام کی حقیقی قدر و قیمت بہت سے مسلمانوں پر واضح نہ ہوسکتی۔ اسی بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تمام اسلام دشمن قوتیں میدانِ حرب و ضرب میں شکست کھا جانے کے بعد یہ فیصلہ کرچکی تھیں کہ مسلمان چونکہ اخلاقی میدان میں اتنا واضح تفوق رکھتے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنا تو ممکن نہیں البتہ یہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے ایسے مسائل پیدا کردیئے جائیں کہ وہ آپس میں الجھ جائیں اور وہ کمزوریاں جو اختلافات اور اتہامات کے نتیجہ میں پیدا ہوا کرتی ہیں اس میں پھنس کر رہ جائیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس بہتان نے اگرچہ مسلمانوں کو سخت ابتلاء میں ڈالا لیکن وہ بجائے کسی کمزوری کا شکار ہونے کے اعلیٰ کردار کا نمونہ ثابت ہوئے۔ نبی کریم ﷺ ایک ماہ تک سخت اذیت میں مبتلا رہے لیکن آپ ﷺ کے ضبط و تحمل نے کہیں بھی آپ ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ آپ ﷺ کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنھوں نے آپ ﷺ کی عزت پر حملہ کیا تھا، مگر آپ ﷺ نہایت کریم النفسی سے وحی الٰہی کا انتظار کرتے رہے اور کہیں بھی آپ ﷺ نے انتقامی کارروائی کا تأثر نہیں دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کی لخت جگر کو اس الزام کا ہدف بنایا گیا، لیکن آپ ( رض) شدتِ غضب میں بےقابو ہونے کی بجائے نہایت صبر سے معاملہ کو دیکھتے رہے۔ آپ ( رض) کا اپنا بھانجا باوجود اس کے کہ آپ ( رض) اس کی کفالت کرتے تھے اور وہ آپ ( رض) کے احسانات کا مرہون تھا وہ برابر آپ ( رض) کے دل و جگر پر تیر چلاتا رہا۔ لیکن نہ آپ ( رض) نے اس سے قرابت داری کا تعلق توڑا اور نہ اس کے خاندان کی کفالت سے انکار کیا۔ سوکن کا رشتہ ہر معاشرے میں بدنام اور نازک رشتہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس ابتلاء کے موقع پر کسی نے بھی کوئی منفی رویہ اختیار نہ کیا۔ حضرت عائشہ ( رض) خود فرماتی ہیں ازواج رسول اللہ ﷺ میں سب سے زیادہ حضرت زینب ( رض) ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر جب رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کے ضمن میں ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو ؟ تو انھوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ خدا کی قسم میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ ( رض) کی اپنی شرافتِ نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان ابن ثابت نے انھیں بدنام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ان کے ساتھ ہمیشہ عزت و تواضع سے ہی پیش آتی رہیں۔ یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا، جہاں تک عام مسلمانوں کا معاملہ ہے ان کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوایوب انصاری ( رض) سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے، ایوب کی ماں ! اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں ؟ تو وہ بولیں خدا کی قسم میں یہ حرکت ہرگز نہ کرتی۔ حضرت ابوایوب نے کہا عائشہ تم سے بدرجہا بہتر ہیں، اور میں کہتا ہوں اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کرسکتا تھا۔ صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔ اس واقعہ میں خیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قومیں ہمیشہ عقیدت میں غلو کے باعث گمراہ ہوتی رہی ہیں۔ عیسائی آج تک اس غلو سے باہر نہ نکل سکے۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم رسول کو خدا کا بیٹا بنا ڈالا لیکن اللہ تعالیٰ کے اس آخری دین کو چونکہ اس طرح کے ہر خطرے سے محفوظ رکھنا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مختلف اوقات میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں (حالانکہ آپ ﷺ سیدالاولین والآخرین ہیں) ایسے حالات پیدا فرمائے جس نے مسلمانوں کے عقائد کی صحیح تربیت کی اور ان کے خیالات کو صحیح نہج پر قائم رکھا۔ قوموں نے اپنے نبیوں کے بارے میں جو غلط تصورات باندھے ان میں سے ایک غلط تصور ہمیشہ ان کی غیب دانی کا رہا ہے۔ لیکن قرآن کریم میں جا بجا آنحضرت ﷺ کی زبان سے اعلان کرایا گیا کہ میں غیب نہیں جانتا، عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، میں وہی جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھ پر وحی کرتا ہے۔ میں دنیا کا سب سے بڑا عالم ہوں، انسانی اصلاح اور ہدایت کے حوالے سے کوئی میرا ہمسر نہیں۔ باایں ہمہ میں وہی کچھ جانتا ہوں جو میرا اللہ مجھے عطا فرماتا ہے۔ اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک مہینے تک سخت پریشان رہے۔ کبھی خادمہ سے پوچھا، کبھی ازواجِ مطہرات سے، کبھی حضرت علی ( رض) سے اور کبھی حضرت اسامہ ( رض) سے۔ بالآخر خود حضرت عائشہ ( رض) سے اس معاملے کے بارے میں استفسار کیا۔ لیکن آپ ﷺ کو حقیقت کا علم اس وقت تک نہ ہوا جب تک آپ ﷺ پر وحی کا نزول نہیں ہوا۔ آپ ﷺ کے چہرے پر اس وقت مسکراہٹ آئی جب اللہ تعالیٰ نے ام المومنین کی براءت کے لیے سورة النور کی دس آیتیں نازل فرمائیں۔ اور ان آیتوں کے ذریعے آپ ﷺ کو وہ علم حاصل ہوگیا جو اس سے پہلے نہ تھا۔ یہ ایک بالکل سادہ سی بات ہے جو اس واقعہ میں معمولی غور و فکر سے بھی سامنے آجاتی ہے، لیکن نہ جانے کچھ لوگوں کو اس بات کا خیال کیوں ہے کہ وہ بجائے اس کے کہ اس بات کو تسلیم کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو جس بات کا چاہتا ہے علم دیتا ہے۔ وہ اس بات پر زور لگاتے رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول وحی الٰہی کے نزول سے پہلے ہی سب کچھ جانتے ہیں۔ عام حالات پر تبصرے کے بعد ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بھی اس بہتان کو پھیلانے میں حصہ لیا ہے وہ اس کے بارگناہ سے بچ نہیں سکتا۔ اور جتنا حصہ لیا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں معتوب ہوگا۔ اور جس شخص نے اس معاملے میں سب سے زیادہ حصہ لیا بلکہ اس بہتان کو تراشا وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں عذاب عظیم کا مستحق ہوگا۔ اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف ہے۔ بعض لوگوں نے اس اشارے کا مشارالیہ بعض دوسرے لوگوں کو ٹھہرایا ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جنھوں نے اس الزام کی نشرواشاعت میں نمایاں حصہ لیا۔ ان میں دو منافق ہیں عبداللہ بن ابی اور زید بن رفاعہ۔ اور تین مسلمان ہیں مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش۔ تین مسلمانوں پر حد قذف جاری کی گئی۔ منافقین کے بارے میں روایات میں اختلاف ہے کہ ان پر حد جاری کی گئی یا انھیں قیامت کے عذاب کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ لَوْلَآاِذْ سَمِعْـتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًالا وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌ۔ (النور : 12) (ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ افواہ سنی تو مومن مرد اور مومن عورتیں اپنے آپ سے نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو ایک صریح بہتان ہے۔ ) نامناسب بات پر مسلمانوں کا ردعمل کیا ہونا چاہیے واقعہ افک کے بارے میں جس طرح کچھ زبانوں کو کھلنے کا موقع ملا اور کچھ طبیعتیں ان کے پر اپیگنڈے سے متاثر ہوئیں اور بیشتر مسلمان جس طرح زبانیں بند کیے غم میں ڈوبے رہے اور ایک ایسا اجتماعی ردعمل سامنے نہیں آیا جس سے پہلے ہی مرحلے میں زبانیں بند ہو کے رہ جاتیں۔ اس پر توجہ دلاتے ہوئے پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں جب تم نے اپنے کانوں سے یہ افواہ سنی تو تم اس بات کا خیال کیوں نہ کرسکے کہ تمام مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں۔ جب کسی شخص کے بارے میں کوئی بات کہی جاتی ہے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلمانوں کے جسم کے کسی حصے کو چھیدنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کسی مسلمان بھائی کی عزت پر حملہ درحقیقت ہر مسلمان کی عزت پر حملہ ہے۔ اس امت کو تعلیم و تزکیہ کے جن مراحل سے گزارا گیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جن مکارمِ اخلاق کی ان میں تخم ریزی کی گئی ہے ان کی موجودگی میں اس طرح کی افواہوں کا جنم لینا اور پھر ان کا زبانوں پر چڑھ جانا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے احساسات میں ابھی تک محبت کا وہ رنگ پیدا نہیں ہوا جس سے اجتماعی یکرنگی وجود میں آتی ہے اور وہ اپنائت پیدا نہیں ہوئی جس سے مختلف قالب یکجان ہوجاتے ہیں اور امت کے تمام افراد جسدِواحد کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ اور وہ جب کسی دوسرے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس طرح سوچتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہوتی تو فوراً طبیعتوں میں یہ ردعمل پیدا ہونا چاہیے تھا کہ اگر میں سفر میں تنہا کسی عورت کو دیکھتا تو یقینا اسے اپنی بہن سمجھتا اور کبھی کوئی ناشائستہ تصور بھی میرے ذہن میں راہ نہ بنا سکتا۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ صفوان میرے ہی جسم کا ایک حصہ ہیں اور ہم ایک ہی نوبہار کے پروردہ ہیں اور ہمیں ایک ہی فکر اور عقیدے نے وجود بخشا ہے، تو میں ان کے بارے میں یہ کیسے گمان کرسکتا ہوں کہ وہ ام المومنین کو دیکھ کر جبکہ وہ ان کے لیے حقیقی ماں سے بڑھ کر محترم ہیں اپنے دل میں کوئی نامناسب جذبہ محسوس کرتے۔ اگر ایسے ہی تصورات تمام دلوں میں پیدا ہوتے تو منافقین کی زبانیں کبھی کھلنے کا حوصلہ نہ کرسکتیں۔ شاید اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مومن اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے بارے میں اس وقت تک حُسنِ ظن رکھا جائے جب تک دلیل سے یہ بات ثابت نہ ہوجائے کہ وہ حُسنِ ظن کا مستحق نہیں رہا۔ اسی کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ جب کسی مسلمان کے بارے میں کوئی نازیبا بات کانوں تک پہنچے تو سننے والا مسلمان اسے فوراً جھٹک دے اور دل میں اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں اس وقت تک بدگمانی نہ آنے دے جب تک کہ حالات و شواہد اڑتی ہوئی بات کو سچا ثابت نہ کردیں، بلکہ اسلام نے اس سے بھی بڑھ کر ایک مومن کو یہ حق دیا ہے کہ اگر کسی دوسرے مومن کے سامنے اس کی عزت پر حملہ کیا جارہا ہو تو دوسرے مسلمان بھائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اگر اس کا ازالہ کرسکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر مدافعت کرسکتا ہو تو مدافعت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے۔ قرنِ اول میں مسلمانوں کا طرزعمل ہم یہی دیکھتے ہیں۔ وہ کسی مسلمان کے بارے میں بغیر ثبوت کے کوئی ناشائستہ بات سننے کے روادار نہ ہوتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں میں سیرت و کردار کا قحط پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ مسلمان ہر سطح سے گرتے چلے گئے تو اب حال یہ ہے کہ کسی کے بارے میں اگر کوئی نامناسب بات کہی جاتی ہے تو دل اسے سوغات سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ اور زبانیں اسے زیب داستاں بنا لیتی ہیں۔ کان انھیں آویزہ گوش تصور کرتے ہیں اور جو اخبار یا مجلہ ایسی بےسروپا افواہیں پھیلانے میں سبقت کرجاتا ہے اس کی اشاعت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ تباہی مسلمان معاشرے میں اسی وجہ سے آئی ہے کہ مسلمانوں میں باہم جسدِواحد کا تصور ختم ہوگیا اور باہمی حُسنِ ظن کی بجائے بدگمانیوں کو وطیرہ بنا لیا ہر شخص اپنی ذات کے گنبد میں مست رہنے لگا، مفادات اور خواہشوں نے عقلوں پر پردے ڈال دیئے۔ چناچہ قرآن کریم اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مسلمانوں کو تنبیہ کررہا ہے کہ تم میں تو کوئی ایسی کمزوری نہیں ہونی چاہیے۔ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی یہ بات تمہارے کانوں میں پہنچی تم صاف اعلان کردیتے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا بہتان اور ایک صریح تہمت ہے، ہم کبھی اسے قبول نہیں کرسکتے۔
Top