Tafseer-e-Usmani - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ لائے ہیں یہ طوفان3 تمہیں میں ایک جماعت ہیں4 تم اس کو نہ سمجھو برا اپنے حق میں بلکہ یہ بہتر ہے تمہارے حق میں5 ہر آدمی کے لیے ان میں سے وہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا اور جس نے اٹھایا ہے اس کا بڑا بوجھ اس کے واسطے بڑا عذاب ہے6 
3 یہاں سے اس طوفان کا ذکر ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ پر اٹھایا گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ 6 ھ میں غزوہ بنی المصطلق سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ بھی ہمراہ تھیں، ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، وہ ہودہ میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں۔ حمّال ہودے کو اونٹ پر باندھ دیتے۔ ایک منزل پر قافلہ ٹھہرا ہوا تھا، کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہ کو قضاء حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لیے قافلہ سے علیحدہ ہو کر جنگل کی طرف تشریف لے گئیں، وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ کر گرگیا ۔ اس کی تلاش میں دیر لگ گئی۔ یہاں پیچھے کوچ ہوگیا۔ حمال حسب عادت اونٹ پر ہودہ باندھنے آئے، اور اس کے پردے پڑے رہنے سے گمان کیا کہ حضرت عائشہ اس میں تشریف رکھتی ہیں۔ اٹھاتے وقت بھی شبہ نہ ہوا۔ کیونکہ ان کی عمر تھوڑی تھی اور بدن بہت ہلکا پھلکا تھا۔ غرض حمالوں نے ہودہ باندھ کر اونٹ کو چلتا کردیا۔ حضرت عائشہ واپس آئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ نہایت استقلال سے انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہاں سے اب جانا خلاف مصلحت ہے۔ جب آگے جا کر میں نہ ملوں گی تو یہیں تلاش کرنے آئیں گے۔ آخر وہیں قیام کیا، رات کا وقت تھا، نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ گئیں حضرت صفوان بن معطل ؓ گرے پڑے کی خبر گیری کی غرض سے قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ سے رہا کرتے تھے، وہ اس موقع پر صبح کے وقت پہنچے۔ دیکھا کوئی آدمی پڑا سوتا ہے۔ قریب آکر پہچانا کہ حضرت عائشہ ہیں (کیونکہ پردہ کا حکم آنے سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا) دیکھ کر گھبرا گئے اور " اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا الَیْہِ رَاجِعُون " پڑھا۔ جس سے ان کی آنکھ کل گئی فوراً چہرہ چادر سے ڈھانک لیا۔ حضرت صفوان نے اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھلا دیا۔ یہ اس پر پردہ کے ساتھ سوار ہوگئیں۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر دوپہر کے وقت قافلہ سے جا ملایا۔ عبد اللہ بن ابی بڑا خبیث، بدباطن، اور دشمن رسول اللہ ﷺ کا تھا، اسے ایک بات ہاتھ لگ گئی اور بدبخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا۔ اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی (مثلاً مردوں میں سے حضرت حسان، حضرت مسطح، اور عورتوں میں سے حضرت حمنہ بنت جحش) منافقین کے مغویان پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر اس قسم کے افسوس ناک تذکرے کرنے لگے۔ عموماً مسلمانوں کو اور خود جناب رسول کریم ﷺ کو اس قسم کے واہیات تذکروں اور شہرتوں سے سخت صدمہ تھا۔ ایک مہینہ تک یہ ہی چرچا رہا۔ حضور ﷺ سنتے اور بغیر تحقیق کچھ نہ کہتے، مگر دل میں خفا رہتے۔ ایک ماہ بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو اس شہرت کی اطلاع ہوئی شدت غم سے بیتاب ہوگئیں اور بیمار پڑگئیں۔ شب و روز روتی تھیں۔ ایک منٹ کے لیے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اسی دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے اور گفتگوئیں ہوئیں جو صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہیں اور پڑھنے کے قابل ہیں۔ آخر حضرت صدیقہ کی برأت میں خود حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورة " نور " کی یہ آیتیں " اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وَبِالْاِ فْکِ " الخ سے دور تک نازل فرمائیں جس پر عائشہ صدیقہ فخر کیا کرتی تھیں اور بلاشبہ جتنا فخر کریں تھوڑا تھا۔ 4 یعنی طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتے اور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں۔ ان میں سے چند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ ان کی عیارانہ سازش کا شکار ہوگئے۔ تاہم خدا کا احسان ہے کہ جمہور مسلمان ان کے جال میں نہیں پھنسے۔ 5 یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کے لیے ہے جنہیں اس واقعہ سے صدمہ پہنچا تھا بالخصوص عائشہ صدیقہ ؓ اور ان کے گھرانا کہ ظاہر ہے وہ سخت غمزدہ اور پریشان تھے۔ یعنی گو بظاہر یہ چرچا بہت مکروہ، رنجیدہ اور ناخوشگوار تھا۔ لیکن فی الحقیقت تمہارے لیے اس کی تہ میں بڑی بہتری چھپی ہوئی تھی۔ آخر اتنی مدت تک ایسے جگر خراش حملوں اور ایذاؤں پر صبر کرنا کیا خالی جاسکتا ہے۔ کیا یہ شرف تھوڑا ہے کہ خود حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں تمہاری نزاہت و برأت اتاری۔ اور دشمنوں کو رسوا کیا اور قیامت تک کے لیے تمہارا ذکر خیر قرآن پڑھنے والوں کی زبان پر جاری کردیا۔ اور مسلمانوں کو پیغمبر ﷺ کی ازواج و اہل بیت کا حق پہچاننے کے لیے ایسا سبق دیا جو کبھی فراموش نہ ہو سکے۔ فَلِلّٰہ الحمد علٰی ذلک۔ 6  یعنی جس شخص نے اس فتنہ میں جس قدر حصہ لیا اسی قدر گناہ سمیٹا اور سزا کا مستحق ہوا۔ مثلاً بعض خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ بعض اظہار افسوس کے طرز میں، بعض چھیڑ کر مجلس میں چرچا اٹھا دیتے آپ ﷺ خود چپکے سنا کرتے۔ بعض سن کر تردد میں پڑجاتے، بہت سے خاموش رہتے اور بہت سے سن کر جھٹلا دیتے۔ ان پچھلوں کو پسند فرمایا اور سب کو درجہ بدرجہ کم و بیش الزام دیا۔ اور بڑا بوجھ اٹھانے والا منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی تھا جیسا کہ روایات کثیرہ میں تصریح ہے۔ یہ ہی خبیث لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے خود دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس کے لیے آخرت میں بڑا عذاب تو ہے ہی، دنیا میں بھی ملعون خوب ذلیل و رسوا ہوا اور قیامت تک اسی ذلت و خواری سے یاد کیا جائے گا۔
Top