Tafheem-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں8 وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں۔ 9 اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے۔ 10 جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا، اور جس شخص نے اِس  کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا 11 اس کے لیے عذابِ عظیم ہے
سورة النُّوْر 8 اشارہ ہے اس الزام کی طرف جو حضرت عائشہ پر لگایا گیا تھا۔ اس کو افک کے لفظ سے تعبیر کرنا خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی مکمل تردید ہے۔ اِفک کے معنی ہیں بات کو الٹ دینا، حقیقت کے خلاف کچھ سے کچھ بنادینا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے یہ لفظ قطعی جھوٹ اور افترا کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اور اگر کسی الزام کے لیے بولا جائے تو اس کے معنی سراسر بہتان کے ہیں۔ یہاں سے اس واقعے پر کلام شروع ہوتا ہے جو اس سورے کے نزول کا اصل سبب تھا۔ دیباچے میں ہم اس کا ابتدائی قصہ خود حضرت عائشہ کی روایت سے نقل کر آئے ہیں۔ نبی ﷺ سخت اذیت میں مبتلا رہے، میں روتی رہی، میرے والدین انتہائی پریشانی اور رنج و غم میں مبتلا رہے، آخر کار ایک روز حضور ﷺ تشریف لائے اور میرے پاس بیٹھے۔ اس پوری مدت میں کبھی میرے پاس نہ بیٹھے تھے۔ حضرت ابوبکر اور ام رومان (حضرت عائشہ کی والدہ) نے محسوس کیا کہ آج کوئی فیصلہ کن بات ہونے والی ہے۔ اس لیے وہ دونوں بھی پاس آ کر بیٹھ گئے۔ حضور نے فرمایا عائشہ، مجھے تمہارے متعلق یہ خبریں پہنچی ہیں۔ اگر تم بےگناہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تمہاری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اور اگر واقعی تم کسی گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ سے توبہ کرو اور معافی مانگو، بندہ جب اپنے گناہ کا معترف ہو کر توبہ کرتا تو اللہ معاف کردیتا ہے۔ یہ بات سن کر میرے آنسو خشک ہوگئے۔ میں نے اپنے والد سے عرض کیا آپ رسول اللہ کی بات کا جواب دیں۔ انہوں نے فرمایا بیٹی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ ہی کچھ کہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں حیران ہوں، کیا کہوں۔ اس پر میں بولی آپ لوگوں کے کانوں میں ایک بات پڑگئی ہے اور دلوں میں بیٹھ چکی ہے، اب اگر میں کہوں کہ میں بےگناہ ہو۔۔۔۔۔ اور اللہ گواہ ہے کہ میں بےگناہ ہوں۔۔۔۔۔۔ تو آپ لوگ نہ مانیں گے، اور اگر خواہ مخواہ ایک ایسی بات کا اعتراف کروں جو میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ جانتا ہے کہ میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ لوگ مان لیں گے۔ میں نے اس وقت حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد کرنے کی کوشش کی مگر نہ یاد آیا۔ آخر میں نے کہا اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ ہے کہ وہی بات کہوں جو حضرت یوسف ؑ کے والد نے کہی تھی فَصَبْرٌ جَمِیْل (اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جبکہ حضرت یعقوب ؑ کے سامنے ان کے بیٹے بن یمین پر چوری کا الزام بیان کیا گیا تھا۔ سورة یوسف، رکوع 10 میں اس کا ذکر گزر چکا ہے) یہ کہہ کر میں لیٹ گئی اور دوسری طرف کروٹ لے لی۔ میں اس وقت اپنے دل میں کہہ رہی تھی کہ اللہ میری بےگناہی سے واقف ہے اور وہ ضرور حقیقت کھول دے گا۔ اگرچہ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ میں اپنی ہستی کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ خود میری طرف سے بولے۔ مگر میرا یہ گمان تھا کہ رسول اللہ ﷺ کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری برأت ظاہر فرما دے گا۔ اتنے میں یکایک حضور ﷺ پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جو وحی نازل ہوتے وقت ہوا کرتی تھی، حتیٰ کہ سخت جاڑے کے زمانے میں بھی موتی کی طرح آپ کے چہرے سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگتے تھے۔ ہم سب خاموش ہوگئے۔ میں تو بالکل بےخوف تھی۔ مگر میرے والدین کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ دیکھیے اللہ کیا حقیقت کھولتا ہے۔ جب وہ کیفیت دور ہوئی تو حضور ﷺ بےحد خوش تھے۔ آپ نے ہنستے ہوئے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ مبارک ہو عائشہ، اللہ نے تمہاری برأت نازل فرما دی۔ اور اس کے بعد حضور ﷺ نے دس آیتیں سنائیں (یعنی آیت نمبر 11 سے نمبر 21 تک)۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا میں نہ ان کا شکریہ ادا کروں گی نہ آپ دونوں کا، بلکہ اللہ کا شکر کرتی ہوں جس نے میری برأت نازل فرمائی۔ آپ لوگوں نے تو اس بہتان کا انکار تک نہ کیا "۔ (واضح رہے کہ یہ کسی ایک روایت کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں جتنی روایتیں حضرت عائشہ سے اس سلسلے میں مروی ہیں ان سب کو جمع کر کے ہم نے ان کا خلاصہ نکال لیا ہے)۔ اس موقع پر یہ نکتۂ لطیف بھی سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ کی برأت بیان کرنے سے پہلے پورے ایک رکوع میں زنا اور قذف اور لعان کے احکام بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے دراصل اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ زنا کے الزام کا معاملہ کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے جسے نقل محفل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یہ ایک نہایت سنگین بات ہے۔ الزام لگانے والے کا الزام اگر سچا ہے تو وہ گواہی لائے۔ زانی اور زانیہ کو انتہائی ہولناک سزا دی جائے گی۔ اگر جھوٹا ہے تو الزام لگانے والا اس لائق ہے کہ اس کی پیٹھ پر 80 کوڑے برسا دیے جائیں تاکہ آئندہ وہ یا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے۔ اور یہ الزام اگر شوہر لگائے تو عدالت میں لعان کر کے اسے معاملہ صاف کرنا ہوگا۔ اس بات کو زبان سے نکال کر کوئی شخص بھی خیریت سے بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ یہ مسلم معاشرہ ہے جسے دنیا میں بھلائی قائم کرنے کے لیے بر پا کیا گیا ہے۔ اس میں نہ زنا ہی تفریح بن سکتی ہے اور نہ اس کے چرچے ہی خوش باشی اور دل لگی کے موضوع قرار پاسکتے ہیں۔ سورة النُّوْر 9 روایات میں صرف چند آدمیوں کے نام ملتے ہیں جو یہ افواہیں پھیلا رہے تھے۔ عبد اللہ بن ابی۔ زید بن رفاعہ (جو غالباً رفاعہ بن زید یہودی منافق کا بیٹا تھا)۔ مِسْطَح بن اثاثہ۔ حسّان بن ثابت اور حمْنہ بنت جحش۔ ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی تین مومن تھے جو غلطی اور کمزوری سے اس فتنے میں پڑگئے تھے۔ ان کے سوا اور جو لوگ اس گناہ میں کم و بیش مبتلا ہوئے ان کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں نظر سے نہیں گزرا۔ سورة النُّوْر 10 مطلب یہ ہے کہ گھبراؤ نہیں، منافقین نے اپنی دانست میں تو یہ بڑے زور کا وار تم پر کیا ہے مگر انشاء اللہ یہ ان ہی پر الٹا پڑے گا اور تمہارے لیے مفید ثابت ہوگا۔ جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں، منافقین نے یہ شوشہ اس لیے چھوڑا تھا کہ مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دیں جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا، یعنی اخلاق جس میں فائق ہونے ہی کی وجہ سے وہ ہر میدان میں اپنے حریفوں سے بازی لیے جا رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی مسلمانوں کے لیے سبب خیر بنادیا۔ اس موقع پر ایک طرف نبی ﷺ نے، دوسری طرف حضرت ابوبکر اور ان کے خاندان والوں نے، اور تیسری طرف عام اہل ایمان نے جو طرز عمل اختیار کیا اس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہوگئی کہ یہ لوگ برائی سے کس قدر پاک، کیسے ضابطہ و متحمل، کیسے انصاف پسند اور کس درجہ کریم النفس واقع ہوئے ہیں۔ نبی ﷺ کا ایک اشارہ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دینے کے لیے کافی تھا جنہوں نے آپ کی عزت پر یہ حملہ کیا تھا، مگر مہینہ بھر تک آپ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے رہے، اور جب اللہ کا حکم آگیا تو صرف ان تین مسلمانوں کو، جن پر جرم قذف ثابت تھا، حد لگوا دی، منافقین کو پھر بھی کچھ نہ کہا۔ حضرت ابوبکر کا اپنا رشتہ دار، جس کی اور جس کے گھر بھر کی وہ کفالت بھی فرماتے تھے، ان کے دل و جگر پر یہ تیر چلاتا رہا، مگر اللہ کے اس نیک بندے نے اس پر ابھی نہ برادری کا تعلق منقطع کیا، نہ اس کی اور اس کے خاندان کی مدد ہی بند کی۔ ازواج مطہرات میں سے کسی نے بھی سوکن کی بد نامی میں ذرہ برابر حصہ نہ لیا، بلکہ کسی نے اس پر ادنیٰ درجے میں بھی اپنی رضا اور پسند کا، یا کم از کم قبولیت کا اظہار تک نہ کیا۔ حتیٰ کہ حضرت زینب کی سگی بہن حمنہ بنت جحش محض ان کی خاطر ان کی سوکن کو بدنام کر رہی تھیں، مگر خود انہوں نے سوکن کے حق میں کلمہ خیر ہی کہا۔ حضرت عائشہ کی اپنی روایت ہے کہ ازواج رسول اللہ میں سب سے زیادہ زینب ہی سے میرا مقابلہ رہتا تھا، مگر واقعہ افک کے سلسلے میں جب رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق تم کیا جانتی ہو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ، خدا کی قسم، میں اس کے اندر بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ حضرت عائشہ کی اپنی شرافت نفس کا حال یہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابت نے انہیں بد نام کرنے میں نمایاں حصہ لیا، مگر وہ ہمیشہ ان کے ساتھ عزت اور تواضع ہی سے پیش آتی رہیں۔ لوگوں نے یاد دلایا کہ یہ تو وہ شخص ہے جس نے آپ کو بد نام کیا تھا تو یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کردیا کہ یہ وہ شخص ہے جو دشمن اسلام شعراء کو رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی طرف سے منہ توڑ جواب دیا کرتا تھا۔ یہ تھا ان لوگوں کا حال جن کا اس معاملے سے براہ راست تعلق تھا۔ اور عام مسلمانوں کی پاکیزہ نفسی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری سے ان کی بیوی نے جب ان افواہوں کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے " ایوب کی ماں " اگر تم عائشہ کی جگہ اس موقع پر ہوتیں تو کیا ایسا فعل کرتیں " ؟ وہ بولیں " خدا کی قسم میں یہ حرکت ہرگز نہ کرتی "۔ حضرت ابوایوب نے کہا " تو عائشہ تم سے بدرجہا بہتر ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ اگر صفوان کی جگہ میں ہوتا تو اس طرح کا خیال تک نہ کرسکتا تھا، صفوان تو مجھ سے اچھا مسلمان ہے "۔ اس طرح منافقین جو کچھ چاہتے تھے، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور مسلمانوں کا اخلاقی تفوق پہلے سے زیادہ نمایاں ہوگیا۔ پھر اس میں خیر کا ایک اور پہلو بھی تھا، اور وہ یہ کہ یہ واقعہ اسلام کے قوانین و احکام اور تمدنی ضوابط میں بڑے اہم اضافوں کا موجب بن گیا۔ اس کی بدولت مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہدایات حاصل ہوئیں جن پر عمل کر کے مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیداوار اور ان کی اشاعت سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اور پیدا ہوجائیں تو ان کا بروقت تدارک کیا جاسکتا ہے۔ مزید برآں اس میں خیر کا پہلو یہ بھی تھا کہ تمام مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ نبی ﷺ غیب داں نہیں ہیں، جو کچھ اللہ بتاتا ہے وہی کچھ جانتے ہیں، اس کے ماسوا آپ کا علم اتنا ہی کچھ ہے جتنا ایک بشر کا ہوسکتا ہے، ایک مہینے تک آپ حضرت عائشہ کے معاملے میں سخت پریشان رہے۔ کبھی خادمہ سے پوچھتے تھے، کبھی ازواج مطہرات سے، کبھی حضرت علی ؓ سے اور کبھی حضرت اسامہ سے۔ آخر کار حضرت عائشہ سے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اگر تم نے یہ گناہ کیا ہے تو توبہ کرو اور نہیں کیا تو امید ہے کہ اللہ تمہاری بےگناہی ثابت کر دے گا۔ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو یہ پریشانی اور یہ پوچھ گچھ اور یہ تلقین توبہ کیوں ہوتی ؟ البتہ جب وحی خداوندی نے حقیقت بتادی تو آپ کو وہ علم حاصل ہوگیا جو مہینہ بھر تک حاصل نہ تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے براہ راست تجربے اور مشاہدے کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اس غلو اور مبالغے سے بچانے کا انتظام فرما دیا جس میں عقیدت کا اندھا جوش بالعموم اپنے پیشواؤں کے معاملے میں لوگوں کو مبتلا کردیتا ہے۔ بعید نہیں کہ مہینہ بھر تک وحی نہ بھیجنے میں اللہ تعالیٰ کے پیش نظر یہ بھی ایک مصلحت رہی ہو۔ اول روز ہی وحی آجاتی تو یہ فائدہ حاصل نہ ہو سکتا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 595 تا 598)۔ سورة النُّوْر 11 یعنی عبد اللہ بن ابی جو اس الزام کا اصل مصنف اور فتنے کا اصل بانی تھا۔ بعض روایات میں غلطی سے حضرت حسان بن ثابت کو اس آیت کا مصداق بتایا گیا ہے، مگر یہ راویوں کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ حضرت حسان کی کمزوری اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ منافقوں کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ میں مبتلا ہوگئے۔ حافظ ابن کثیر نے صحیح کہا ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں نہ ہوتی تو قابل ذکر تک نہ تھی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جھوٹ، بلکہ بہتان یہ ہے کہ بنی عمیہ نے حضرت علی ؓ کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔ بخاری، طبرانی، اور بیہقی میں ہشام بن عبدالملک اُمَوی کا یہ قول، منقول ہے کہ الذی تولیٰ کبرہ کے مصداق علی بن ابی طالب ہیں۔ حالانکہ حضرت علی ؓ کا سرے سے اس فتنے میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ انہوں نے جب نبی ﷺ کو بہت پریشان دیکھا تو حضور ﷺ کے مشورہ لینے پر عرض کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں آپ پر کوئی تنگی تو نہیں رکھی ہے۔ عورتیں بہت ہیں۔ آپ چاہیں تو عائشہ کو طلاق دے کر دوسرا نکاح کرسکتے ہیں۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ حضرت علی ؓ نے اس الزام کی تصدیق فرمائی تھی جو حضرت عائشہ پر لگایا جا رہا تھا۔ ان کا مقصد صرف آنحضرت ﷺ کی پریشانی کو رفع کرنا تھا۔ سورة النُّوْر 12 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے لوگوں، یا اپنی ملت اور اپنے معاشرے کے لوگوں سے نیک گمان کیوں نہ کیا۔ آیت کے الفاظ دونوں مفہوموں پر حاوی ہیں، اور اس ذو معنی فقرے کے استعمال میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے خوب سمجھ لینا چاہیے۔ جو صورت معاملہ حضرت عائشہ اور صفوان بن معطل کے ساتھ پیش آئی تھی وہ یہی تو تھی کہ قافلے کی ایک خاتون (قطع نظر اس سے کہ وہ رسول کی بیوی تھیں) اتفاق سے پیچھے رہ گئی تھیں اور قافلے ہی کا ایک آدمی جو خود اتفاق سے پیچھے رہ گیا تھا، انہیں دیکھ کر اپنے اونٹ پر ان کو بٹھا لایا۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ یہ دونوں تنہا ایک دوسرے کو پاکر گناہ میں مبتلا ہوگئے تو اس کا یہ کہنا اپنے ظاہر الفاظ کے پیچھے دو اور مفروضے بھی رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ قائل (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) اگر خود اس جگہ ہوتا تو کبھی گناہ کیے بغیر نہ رہتا، کیونکہ وہ اگر گناہ سے رکا ہوا ہے تو صرف اس لیے کہ اسے صنف مقابل کا کوئی فرد اس طرح تنہائی میں ہاتھ نہ آگیا، ورنہ ایسے نادر موقع کو وہ چھوڑنے والا نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ جس معاشرے سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کی اخلاقی حالت کے متعلق اس کا گمان یہ ہے کہ یہاں کوئی عورت بھی ایسی نہیں ہے اور نہ کوئی مرد ایسا ہے جسے اس طرح کا کوئی موقع پیش آجائے اور وہ گناہ سے باز رہ جائے۔ یہ تو اس عورت میں ہے جبکہ معاملہ محض ایک مرد اور ایک عورت کا ہو۔ اور بالفرض اگر وہ مرد اور عورت دونوں ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہوں، اور عورت جو اتفاقاً قافلے سے بچھڑ گئی تھی، اس مرد کے کسی دوست یا رشتہ دار یا ہمسائے یا واقف کار کی بیوی بہن، یا بیٹی ہو تو معاملہ اور بھی زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔ اس کے معنی پھر یہ ہوجاتے ہیں کہ کہنے والا خود اپنی ذات کے متعلق بھی اور اپنے معاشرے کے متعلق بھی ایسا سخت گھناؤنا تصور رکھتے ہے جسے شرافت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کون بھلا آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے کسی دوست یا ہمسائے یا واقف کار کے گھر کی کوئی عورت اگر اتفاق سے کہیں بھولی بھٹکی اسے راستے میں مل جائے تو وہ پہلا کام بس اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے ہی کا کرے گا، پھر کہیں اسے گھر پہنچانے کی تدبیر سوچے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ اس سے ہزار گنا زیادہ سخت تھا۔ خاتون کوئی اور نہ تھیں، رسول اللہ ﷺ کی بیوی تھیں جنہیں ہر مسلمان اپنی ماں سے بڑھ کر احترام کے لائق سمجھتا تھا، جنہیں اللہ نے خود ہر مسلمان پر ماں کی طرح حرام قرار دیا تھا۔ مرد نہ صرف یہ کہ اسی قافلے کا ایک آدمی، اسی فوج کا ایک سپاہی اور اسی شہر کا ایک باشندہ تھا، بلکہ وہ مسلمان تھا، ان خاتون کے شوہر کو اللہ کا رسول اور اپنا ہادی و پیشوا مانتا تھا، اور ان کے فرمان پر جان قربان کرنے کے لیے جنگ بدر جیسے خطرناک معرکے میں شریک ہوچکا تھا۔ اس صورت حال میں تو اس قول کا ذہنی پس منظر گھناؤنے پن کی اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے جس سے بڑھ کر کسی گندے تخیل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ مسلم معاشرے کے جن افراد نے یہ بات زبان سے نکالی یا اسے کم از کم شک کے قابل خیال کیا انہوں نے خود اپنے نفس کا بھی بہت برا تصور قائم کیا اور اپنے معاشرے کے لوگوں کو بھی بڑے ذلیل اخلاق و کردار کا مالک سمجھا۔
Top