Tafseer-e-Haqqani - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ طوفان 1 ؎ بنا کر لائے ہیں وہ تمہارے ہی میں کا تو ایک گروہ ہے۔ اس کو اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے بقدر عمل گناہ ہے۔ اور ان میں سے جس نے کہ اس کا بیڑا اٹھایا ہے اس کے لیے تو بڑا عذاب ہے۔
1 ؎ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ پر جبکہ وہ اپنا گلوبند تلاش کرتی ہوئیں ایک سفر میں پیچھے رہ گئیں اور قافلہ کے اخیر میں صفوان ؓ تھے ان کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے لائے اس بات سے چند لوگوں نے جو بظاہر مسلمان تھے طوفان باندھ لیا اور زنا کی تہمت لگا کر اس کا عام چرچا کردیا اس قصہ کی طرف جابجا اس سورة میں اشارہ ہے۔ 12 منہ ترکیب : عصبہ منکم خبران و منکم اس کی لغت کبر بالکسر معظمہ وبالضم، من قولھم الولالکبر ای اکبر ولد الرجل۔ اذ تلقونہ کا عامل مسکم۔ بہتان کے متعلق۔ تفسیر : ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو ایک عبرت کا واقعہ ہے۔ تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ افک یعنی بہتان کہ جس کا ان آیات میں ذکر ہے حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین پر باندھا گیا تھا جس کی تفصیل میں امام بخاری و مسلم و غیر ہمامحدثین نے یوں روایت کی ہے۔ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب باہر جاتے تو جس بیوی کا نام قرعہ میں نکلتا تھا اس کو ساتھ لے جاتے تھے۔ چناچہ ایک بار ایک جہاد میں چلے اور میرا قرعہ میں نام نکلا تو مجھے ساتھ لے گئے۔ آیت حجاب نازل ہوچکی تھی۔ اونٹ پر ہودہ میں پردہ میں میں چلتی تھی جب اس سفر سے واپس آئے شب کو مدینہ کے قریب قیام ہوا۔ رات سے کوچ پکارا گیا میں اس عرصہ میں قضائِ حاجت کو گئی لوٹ کر آئی تو گلے کا گلوبند نہ پایا اس کو لینے گئی اتنے میں لوگوں نے میرا ہودہ اس طرح سے اونٹ پر کس دیا اور بوجھ کا تفاوت خیال نہ کیا کیونکہ اس زمانہ میں تنگدستی کی وجہ سے کھانا کم میسر آتا تھا عورتیں ہلکی پھلکی تھیں۔ وہ سمجھے کہ میں ہودہ میں ہوں قافلہ چل دیا میں لوٹ کر آئی تو کسی کو نہ پایا۔ یہ سمجھ کر کہ آخر میری تلاش کرتے ہوئے لوگ یہیں آئیں گے اسی جگہ بیٹھ گئی اس میں نیند آگئی صفوان بن معطل ؓ لشکر کے بعد اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ پیچھے سے گری پڑی چیز یا بھولے بھٹکے آدمی کا خیال رکھے۔ جب وہ میرے قریب آیا اور صبح ہوگئی تھی تو اس نے مجھے پہچان کر اناللہ کہا اس کی آواز سے میں بیدار ہوگئی اس نے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر مجھے اپنے اونٹ پر چڑھا لیا۔ اور نہ میں نے اس سے بات کی اور نہ اس نے مجھ سے۔ دوپہر کے قریب تک مجھے فرودگاہ لشکر میں لے آیا۔ عبداللہ بن ابی منافق نے جو بظاہر مسلمان تھا یہ طوفان اٹھایا اور مجھ پر تہمت لگائی اور حسان بن ثابت اور مسطح و حمنہ بنت جحش اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے اور اس بات کو مشہور کرنے والے ہوگئے جب یہ خبر مسطح کی والدہ کے ذریعہ سے مجھے پہنچی تو میری آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے مہینے بھر تک یہی حال رہا اور آنحضرت ﷺ اس التفات سابق سے پیش نہ آئے تھے آخرکار میری برأت میں یہ آیات نازل ہوئیں اور مجھے اپنے اللہ پر بھروسہ تھا کہ وہ ضرور میرے معاملہ میں کچھ نازل فرما کر مجھے سچا کرے گا۔ ضحاک کہتے ہیں اس کا بیڑہ حسان و مسطح نے اٹھایا تھا اس لیے ان پر اور ایک قریشی عورت پر حد ماری گئی یعنی حمنہ پر۔ جمہور کے نزدیک بیڑہ اٹھانے والا عبداللہ بن ابی منافق تھا جس کے لیے عذاب عظیم جہنم میں ہوا اور حسان کا ایک بار حضرت عائشہ ؓ کے روبرو ذکر آیا فرمایا جنتی ہے کسی نے کہا اس نے بیڑہ اٹھایا تھا فرمایا اس نے آنحضرت ﷺ کی مدح میں یہ کہا ہے ؎ فان ابی و والدتی و عرضی لعرض محمد منکم وقاء بس دنیا میں سزا پائی کہ اندھا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس بہتان کو اپنے حق میں بہتر سمجھو کس لیے کہ اس کے سبب سے قرآن مجید میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی برأت اور پاکدامنی قیامت تک کو ثابت ہوگئی آیندہ لوگوں کو بزرگوں کی بیویوں کی نسبت ایسی باتیں کرنے سے عبرت ہوگئی بعض لوگ اس واقعہ کو سن کر خاموشی کرتے تھے بعض ہاں میں ہاں ملاتے تھے بعض صریح رد کرتے تھے ان میں صریح رد کرنے والوں کی مدح اور باقی سکوت کرنے والوں پر اور اس بات کو مشہور کرنے والوں پر ناراضی ظاہر فرمائی۔
Top