Mafhoom-ul-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے ‘ اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لیے اچھا ہے۔ ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اس کے لیے اتنا ہی وبال ہے اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا۔
سیدہ عائشہ صدیقہ پر جھوٹی تہمت اور اس کی برأت تشریح : انسان کو ہمیشہ ہی اخلاقی اور مذہبی تربیت کی ضرورت رہی ہے مگر آج کل پھر دنیا میں اخلاقی پستی اور افراتفری کا دور دورہ ہے۔ غرض کیا اسلامی ممالک اور کیا غیر اسلامی ممالک ہوں سوائے چند ایک کے ہر جگہ معاشرتی کمزوریاں ‘ فحاشی ‘ لوٹ مار لا قانونیت ‘ رشوت ‘ سفارش ‘ بددیانتی ‘ سیاسی بگاڑ ‘ تعلیم و تربیت کی تباہی ‘ فرقہ پرستی ‘ اندرونی و بیرونی سازشیں ‘ نفاق ‘ اغوا ‘ منشیات اور کلاشنکوف کلچر ‘ شرک ‘ بدعات اور لادینیت وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ تمام برائیاں ہیں جن کی وجہ سے قومیں اور ملک تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ اب تو پوری دنیا ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ قرب قیامت کی نشانی ہے۔ اسی بجھتی ہوئی روشنی کو قرآنی تعلیمات کافی حد تک بچا سکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ لوگ جن پر اللہ کا کرم ہے اور وہ کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ سر پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئیں اور اللہ کی آیات کو جو کہ فضل و کرم ‘ امن و سکون اور روحانی و اخلاقی تربیت کا خزانہ ہیں لوگوں کو ہر صورت سنائیں۔ جیسا کہ سورة نور میں ایسے احکامات انتہائی جامع انداز میں بیان ہوئے ہیں جو انسانوں کی زندگیوں کی بنیادیں مضبوط کرسکتی ہیں آیت ایک سے دس کے تمام احکامات عفت وعصمت پر دست اندازی ‘ حد زنا ‘ حد قذف اور پھر لعان پر مشتمل تھیں۔ قرآن کا اصول ہے کہ ہر بات دلیل کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ جھوٹی تہمت ‘ افواہوں کا پھیلانا اور ان پر گناہ و عذاب جاری ہونا اور معصوم انسان کی اللہ کی طرف سے حفاظت کی ذمہ داری کا ثبوت ان مندرجہ بالا آیات میں بڑی وضاحت سے مثال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ہوا یوں جب مخالفین نے مسلمانوں کی کامیابیوں سے حسد کی آگ میں جلنا شروع کیا تو طرح طرح کی سازشوں میں لگے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک سازش واقعہ افک بھی ہے۔ صحیحین اور دوسری احادیث کی کتابوں میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔ 6 ھ رسول اللہ ﷺ غزوہ بنی المصطلق کے لیے روانہ ہوئے تو سیدہ عائشہ ؅آپ ﷺ کے ساتھ تھیں واپسی پر مدینہ سے کچھ فاصلے پر قافلے نے رات بھر کے لیے پڑائو ڈالا۔ علی الصبح سیدہ عائشہ ؅رفع حاجت کے لیے جنگل کی طرف گئیں واپسی پر دیکھا کہ ان کا ہار کہیں گرگیا ہے۔ ڈھونڈنے کے لیے واپس گئیں۔ ہار تو مل گیا مگر جب واپس ٹھکانے پر پہنچیں تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔ قافلے والوں نے ان کا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ اس میں موجود ہیں یا نہیں۔ کیونکہ ہودج چاروں طرف سے بند تھا۔ آپ پریشان ہوئیں مگر کیا کرتیں یہ سوچ کر کہ ان کی عدم موجودگی پر قافلے والے خود ہی ان کی تلاش میں واپس آجائیں گے۔ وہ ادھر ہی چارد لے کر لیٹ گئیں اور سو گئیں۔ اتنے میں صفوان بن معطل صحابی ؓ جو اسی ڈیوٹی کے لیے پیچھے رہ گئے تھے کہ قافلہ کی جگہ پر اچھی طرح دیکھ بھال کر کے بعد میں آئیں کہ کوئی چیز رہ گئی ہو تو لے آئیں۔ انہوں نے جب سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو دیکھا کہ وہ سوئی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے سے پردہ ہٹا ہوا تھا اور انہوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھیں دیکھا تھا تو ” اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ “ پڑھا۔ ان کی آواز سے آپ ؅ جاگ گئیں اور فورًا اپنے چہرے پر پردہ گرا لیا۔ صفوان بن معطل ؓ نے آپ کو دیکھا تو اونٹ آپ کے قریب بٹھا دیا۔ آپ اس پر سوار ہوگئیں۔ صحابی نے اونٹ کی نکیل پکڑی اور پیدل چلتے ہوئے قافلے تک جا پہنچے۔ اس پر مشہور منافق عبداللہ بن ابی نے طوفان اٹھا دیا اور چاروں طرف سیدہ عائشہ ؓ پر تہمت اور الزام کی غلط خبر پھیلا دی۔ جس کی وجہ سے وہ آنحضرت ﷺ کی عزت کو (نعوذ باللہ) خراب کرنا چاہتا تھا۔ کچھ معصوم مسلمان بھی اس کی چال کا شکار ہو کر بدگمانی میں پڑنے لگے جیسا کہ مردوں میں سیدنا حسان ؓ اور سیدنا مسطح ؓ عورتوں میں سیدہ حمنہ؅۔ ظاہر ہے الزام تراشی اور افواہ سازی دوسرے فریق کو بدنام کرنے اور پریشان کرنے اور پھر منتشر کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ مگر یہ معاملہ تھا پیارے نبی ﷺ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؅ کا تو اس کا انجام بخیر ہوا اگرچہ ایک ماہ تک آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ اور دیگر صحابہ کو پریشانی اٹھانی پڑی۔ ایک ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ ؅کی بےگناہی میں بہتان لگانے والوں اور اس میں شریک ہونے والوں کی مذمت میں سورة النور کی مندرجہ بالا دس آیات نازل فرمائیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی انتہائی عزت افزائی ہے کہ خاص طور سے قرآن پاک میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عزت احترام ‘ پاکدامنی اور نیک نامی کے طور پر لکھ دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اسلامی سوسائٹی کو بہترین بنائے رکھنے کے بہترین اصول قوانین اور طریقے بتا دیے گئے ہیں۔ اب یہ ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان تمام ارشادات کو پلے باندھ کر امن و سکون اور خیر و عافیت سے زندگیاں گزاریں اور نافرمان مشرک اور غافل لوگوں کے لیے بھی بتا دیا گیا ہے کہ ” ایسے لوگ جو چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا و آخرت میں بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ “ (النور آیت : 16 ) اسلامی سوسائٹی نے ان برائیوں کی نشاندہی بھی کی ہے جن سے بچنا چاہیے۔ (1) جھوٹا الزام۔ (2) بغیر تحقیق کے سنی سنائی بات آگے بیان کرنا۔ (3) بغیر ثبوت کے الزام لگانا۔ (4) فحش کاموں اور باتوں سے نہ بچنا۔ (5) گناہ سے نہ بچنا۔ (6) اللہ کا خوف ہر وقت دل میں نہ رکھنا۔ (7) دوسرے کی عزت کا خیال نہ رکھنا۔ (8) آپس میں ہمدردی اور سلوک سے نہ رہنا۔ (9) بد گمانی کرنا۔ (10) کسی کی بری بات کو پھیلانا۔ (11) ہر صورت تقویٰ اور پرہیزگاری کا خیال نہ رکھنا۔ اس کے برعکس جو معاشرہ ان تمام برائیوں سے پاک ہو وہ بھلا کیونکر ترقی نہ کرے گا۔ اور پھر اس میں خود انسان کے لیے سکون ہی سکون ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن کے اصول و قوانین کسی زمانے میں بھی خواہ ترقی پذیر ہو، ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ نامناسب نہیں ہوتے بلکہ ہر لحاظ سے فٹ ہوتے ہیں۔ اقبال مسلمان کی تعریف یوں کرتے ہیں ؎ غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا (اقبال) مطلب یہ ہے کہ دور اول کے مسلمان میں اتنی صفات تھیں کہ بیان سے باہر ہے۔ ان صحرانشینوں (صحرائوں میں رہنے والے) کی ساری زندگی صحرائوں اور بیابانوں میں گزری مگر یہ اسلام اور قوانین اسلام کی ہی برکت تھی کہ ایمان لانے کے بعد انہوں نے نہ صرف دنیا کے ایک بڑے حصہ کو فتح ہی کیا بلکہ جدید طرز کی سلطنت بھی قائم کر کے دکھائی۔ دنیا کے نظام کو ٹھیک کیا۔ زندگی ‘ حکومت اور حکمرانی کے ایسے بہترین قوانین ‘ اصول و ضوابط جاری کیے کہ خلاف راشدہ کی صورت میں ایک مثالی نظام حکومت پیش کیا۔ سبحان اللہ۔ کیوں نہ ہو جس کا بچہ نوجوان ‘ جوان اور بوڑھا بہترین زندگی گزارنے کے لیے بہترین اصول جانتا ہو وہ بھلا کامیابیوں کی دوڑ میں پیچھے کیسے رہ سکتا ہے۔
Top