Al-Qurtubi - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
آیت نمبر 11-22 ۔ اس میں اٹھائیس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ان الذین جائو بالافک عصبۃ منکم، عصبۃ انکی خبر ہے۔ اور حال کی بناء پر اس کو نصب دینا جائز ہے۔ اور خبر لکل امری منھم ماکتسب من الاثم ہوگی۔ امام بخاری نے اسے تعلیقا نقل کیا ہے اور اس کی حدیث اتم ہے۔ انہوں نے ام رومان حضرت عائشہ ؓ کی والدہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ام رومان نے فرمایا جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی گئی تو وہ غش کھاکر گرپڑیں۔ ام رومان حضرت عائشہ کی والدہ نے فرمایا : میں اور حضرت عائشہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں اچانک انصار کی ایک عورت داخل ہوئی اور کہا اللہ فلاں کے ساتھ ایسا کرے، اللہ فلاں کیساتھ ایسا کرے۔ ام رومان نے کہا : یہ کہا ہے ؟ اس عورت نے کہا : حضرت عائشہ نے پوچھا : کیا نبی کریم ﷺ نے یہ بہتان سنا ہے اس عورت نے کہا : ہاں۔ حضرت عائشہ نے پوچھا حضرت ابوبکر نے بھی ؟ اس عورت نے کہا : ہاں : حضرت عائشہ غش کھاکر گرپڑیں۔ جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ کو کپکپی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے حضرت عائشہ پر کپڑے ڈالے اور اسے ڈھانپ دیا نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور پوچھا : اسے کیا ہوا ہے ؟ میں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ اسے کپکپی کیساتھ بخار ہوگیا ہے۔ فرمایا : شاید اس بات کی وجہ سے ہو جو کہی گئی ہے۔ ام رومان نے کہا : ہاں حضرت عائشہ بیٹھ گئی اور کہا اللہ کی قسم اگر میں قسم اٹھائون تو تم میری تصدیق نہیں کرو گے اگر میں کچھ کہوں تو تم مجھے معذور نہیں سمجھوگے میری مثال حضرت یعقوب اور انکے بیٹوں جیسی ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا : حضرت عائشہ اس کا معنی دوسروں سے زیادہ جانتی تھیں کیونکہ یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ امام بخاری نے کہا : معمر بن راشد زہری سے روایت کیا حدیث افک غزوہ مریسیع میں پیش آئی۔ ابن اسحاق نے کہا : یہ چھٹا سال تھا۔ موسیٰ بن عقبیٰ نے کہا : چوتھا سال تھا۔ امام بخاری نے معمر عن زہری کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ فرمایا : مجھے ولید بن عبد الملک نے کہا : کیا تجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت علی تہمت لگانے والوں میں تھے ؟ انہوں نے کہا میں نے کہا : نہیں لیکن مجھے تیری قوم کے دو افراد ابو سلمہ بن عبدا لرحمان اور ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام نے مجھے خبر دی کہ حضرت عائشہ نے ان دونوں کو کہا : حضرت علی، حضرت عائشہ کے بارے میں خاموش تھے۔ ابوبکر اسماعیلی نے اپنی کتاب المخرج علی الصحیح میں ایک دوسرے طریق سے معمر عن زہری کی حدیث روایت کی ہے، اس میں ہے فرمایا : میں ولید بن عبد الملک کے پاس تھا اس نے کہا : جو اس مسئلہ کو زیادہ اچھالنے والے تھے ان میں حضرت علی بن ابی طالب بھی تھے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ حضرت عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس مسئلہ کو اچھالنے والوں کا سرغنہ عبد اللہ بی ابی بن سلول تھا۔ امام بخاری نے عائشہ کی حدیث سے روایت کیا ہے جو اس مسئلہ کو پھیلانے والے تھے ان میں سے عبد اللہ بن ابی تھا۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : بالافک، افک کا معنی جھوٹ ہے۔ العصبۃ تین سے لے کر دس افراد تک کو عصبہ کہتے ہیں۔ ابن عینیہ نے کہا : چالیس آدمیوں کو عصبہ کہتے ہیں۔ مجاہد نے کہا : یہ دس سے پندرہ افراد ہیں۔ اور الخیر کی حقیقت یہ ہے کہ جس کا نفع اس کے نقصان سے زئد ہو اور الشر جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ ہو وہ خیر ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں اس کا ضرر کم ہوتا ہے اور اس کی خیر آخرت میں بہت زیادہ ثواب ہے۔ اللہ نے حضرت عائشہ اور ان کے گھر والوں اور صفوان کو آگاہ فرمایا کیونکہ خطاب اس ارشاد میں ان سے ہے۔ لا تحسبوہ شرالکم بل ہو خیر لکم کیونکہ شر کی نسبت نفع اور خیر راجح ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ جب نبی پاک ﷺ ، حضرت عائشہ کے ساتھ غزرہ بنی مصطلق میں نکلے اور آپ لوٹے جب مدینہ طیبہ کے قریب تھے تو آپ نے رات کو چلنے کا اعلان فرمایا جب کوچ کرنے کا اعلان ہوچکا تو حضرت عائشہ اٹھیں اور قضاء حاجب کے لئے چلیں حتیٰ کہ لشکر سے دور ہوگئیں جب فارغ ہوئین اور اپنی جگہ پر آئیں اور اپنے سینے پر ہاتھ مارا تو یمن کے موتیوں کا ہار ٹوٹ چکا تھا۔ آپ واپس لوٹیں اور اسے تلاش کیا اس کی تلاش نے آ پکو روک لیا اور آپ نے ہار پالیا اور واپس آئیں وہاں کسی شخص کو نہ پایا آپ نوجوان تھیں گوشت کم تھا۔ مردوں نے آپ کا ہودج اٹھایا اور انہیں آپ کا نہ ہونا محسوس نہ ہوا جب آپ نے اپنی جگہ کسی کو نہ پایا تو آپ اپنی جگہ پر لیٹ گئیں اس امید کے ساتھ کہ آپ کو تلاش کیا جائے گا اور اس کی طرف رجوع کیا جائے گا آپ اپنی جگہ سوگئیں آپ کو بیدار نہ کیا مگر صفوان بن معطل کا قول : انا للہ وانا الیہ راجعون نے وہ پیچھے رہ جانے والی چیزوں کی حفاظت کے لئے لشکر کسے پیچھے تھے کہنے سے بیدار ہوگئیں۔ وہ اپنی سواری سے اترے اور حضرت عائشہ سے دور کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ حضرت عائشہ اونٹنی پر سوار ہوئیں۔ حضرت صفوان نے اونٹنی کیمہار پکڑی اور چل پڑے حتیٰ کہ دوپہر کے وقت انہیں لیکر لشکر میں پہنچ گئے۔ جھوٹے اور بہتان تراش اپنے دھندے میں مشغول تھے۔ اس مسئلہ میں لوگ جس کے پاس جمع ہوتے تھے اور جو اس مسئلہ کے بارے استفسار کرتا تھا اور اس کو پھیلاتا تھا وہ عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق تھا اس نے صفوان کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے ہے تو اس نے کہا : اللہ کی قسم نہ وہ اسے بچی اور نہ وہ اس سے بچا اور کہا تمہارے نبی کی بیوی نے ایک آدمی کے ساتھ رات گزاری، اور اس بہتان تراشی میں حضرت حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش شامل تھے۔ یہ اس حدیث کا اختصار ہے اور یہ مکمل طور پر امام بخاری اور امام مسلم میں ہے۔ جب حضرت صفوان کو اس جھوٹ میں حضرت حسان کی بات پہنچی تو وہ آئے اور حضرت حسان کے سر پر تلوار ماری اور کہا : تلق ذباب السیف عنی فاننی غلام اذا ہو جیت لیس بشاعر ایک جماعت نے حضرت صفوان کو پکڑا اور اس کا گریبان پکڑ کر نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے۔ آپ ﷺ نے حضرت حسان کا زخم رائیگاں کردیا او اس سے کچھ طلب کیا۔ اس پر دلیل آپ کی مروی حدیث ہے آپ کی بیوی کے ساتھ آپ کا معاملہ ہوا، نبی پاک ﷺ نے آپ کے بیٹوں کے بارے میں فرمایا : دونوں صفوان کے ساتھ اسی طرح مشابہ ہیں جیسے کوا، کوے کے مشابہ ہوتا ہے۔ اور حدیث میں آپ کا قول ہے کہ اللہ کی قسم میں نے کبھی کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا اس سے مراد یہ ہے کہ میں نے کبھی زنا نہیں کیا۔ یہ روم کے شہروں میں حضرت معاویہ کے زمانہ میں اٹھاون ہجری میں وصال پاگئے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : لکل امری منھم ما اکتسب من الاثم یعنی جس نے جھوٹ بولا۔ اہل افک کا نام نہیں لیا سوائے حسان، مسطح، حمنہ اور عبد اللہ کے اور کچھ دوسرے مجہول لوگ، یہ عروہ بن زبیر کا قول ہے اس کے متعلق عبد الملک بن مروان نے اس سے پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ جتھہ تھا جیسے اللہ نے فرمایا : مصحف حفصہ میں ہے : عصبہ اربعہ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذی تولیٰ کبرہ منھم حمیداعرج اور یعقوب نے کبر کاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور فراء نے کہا : یہ وجہ عمدہ ہے کیونکہ عرب کہتے ہیں فلاں تولی عظم کذاو کذا یعنی وہکام میں بڑا تھا۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ جب حضرت حسان جب نابینا ہوگئے تھے شاید وہ بڑا عذاب ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا وہ انکی آنکھوں کا چلاجانا ہے۔ ابو عمر نے حکایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت حسان کو اس بات سے بری کردیا تھا۔ کہا تھا اس نے کچھ نہیں کہا۔ حضرت حسان نے حضرت عائشہ کی شان میں یہ اشعار کہے : حصان رزان ما تزن بریبۃ وتصبح غرثی من لحوم الغوافل وہ پاک دامن ہے صاحب وقار ہے اس کو متہم نہیں کیا جاسکتا وہ پاک دامن عورتوں کی غیبت سے بھوکی رہتی ہے۔ حلیلۃ خیر الناس دینا ومنصبا نبی الھدی والمکرمات الفواضل عقیلۃ حی من لوئی بن غالب کرام المساعی مجدھا غیر زائل مھذبۃ قد طیب اللہ خیھا وطھرھا من کل شین وباطل فان کا نت ما بلغت انی قلتہ فلا رفعت سوطی الی انامل فیکف وددی ما حییت ونضربی لال رسول اللہ زین المحافل لہ رتب عال علی الناس فضلھا تقاصیر عنھا سورة المتطاول یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت حسان نے حضرت عائشہ کے بارے میں کہا وہ پاک دامن اور صاحب وقار ہے تو حضرت عائشہ نے کہا : تو تو اس طرح نہیں ہے، تو پاکدامن عورتوں کے بارے میں باتیں کرنے والا ہے۔ یہ تعارض ہے اس طرح ان کو جمع کرنا ممکن ہے کہ حضرت حسان نے نصا اور تصریحا کچھ نہیں کہا۔ یہ تعریض اور اشارہ ہے پس اس کو آپ کی طرف منسوب کیا گیا۔ علماء کا اختلاف ہے کہ حضرت حسان نے اس میں زیادہ دخل دیا تھا یا نہیں کیا آپ کو حد لگائی گئی تھی یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہا ہوا تھا ؟ مسئلہ نمبر 6 ۔ محمد بن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس جھوٹی تہمت میں دو مردوں اور ایک عورت کو حد لگائی تھی وہ مسطح، حسان اور حمنہ تھے، یہ ترمذی نے ذکر کیا ہے۔ قشری نے حضرت سے روایت کیا ہے کہ نبی پاک نے ابن ابی کو اسی کوڑے لگائے تھے اور اس کے لئے آخرت میں آگ کا عذاب ہے۔ اس کے متعلق دو قول ہیں ایک یہ کہ کسی بھی حد نہیں لگائی گئی تھی کیو کہ حد ود اقربا یا دلیل کے ساتھ قائم کی جاتی ہیں اور اللہ نے صرف اخبار کی بناء پر حدود قائم کرنے کر مکلف نہیں بنایا جس طرح منافقین کو قتل کرنے کا مکلف نہیں بنایا تھا جبکہ ان کے کفر کی اطلاع آپ کو خبر دی تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اہل الافک کو کوڑے لگائے۔ اس کے متعلق مسلمانوں کے شاعر نے کہا : لقد ذاق حسان الذی کان اھلہ وحمنۃ اذ قالو ھجیرا ومسطح وابن سلول ذاق فی الحد خزیۃ کما خاض فی افک ومن القول یفصح تعاطو برجم الغیب زوج نبیھم وسخطۃ ذی العرش الکریم فابرحوا واذا رسول اللہ فیھا فجللو مخاذی تبقی عمموھا وفضحوا فصبت علیھم محصدات کا نھا شابیب قطر من ذری المزن تسفح ابود ائود نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے فرمایا : جب میرا عذر نازل ہوا تو نبی پاک کھڑے ہوئے اور وہ ذکر کیا اور قرآن کی تلاوت کیا جب آپ منبر سے اترے تو دو مردون اور ایک عورت کے بارے میں حکم دیا انہیں حد لگائی گئی اور ان کے نام بھی لئے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : عبد اللہ بن ابی کو حد نہیں لگائی گئی تھی کیونکہ اللہ نے اس کے لئے آخرت میں عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اگر اسے دنیا میں حد لگائی جاتی تو یہ آخرت میں اس کے عذاب کے لے کمی اور تخفیف کا باعث ہوتا جبکہ اللہ نے حجرت عائشہ کی براءت کی گواہی دی اور تہمت لگانے والے کو جھوٹ کو بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : یہ اس کے لئے کفارہ ہے جس پر یہ حدود قائم کی گئیں۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : لولا اذ سمعتموہ ظن المومنون والمئومنت بانفسھم خیرا یہ اللہ کی طرف سے مومنین کو انکے گمان کی وجہ سے عتا ب ہے جب جھوٹے لوگوں نے کہا : جو انہوں نے کہا : ابن زید نے کہا : مومنوں نے گمان کیا کہ مومن اپنی ماں کے بارے میں ایسا نہیں کہہ سکتا : بعض نے کہا : اس کا معنی ہے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے فضلاء کو اپنے نفسوں پر قیاس کرنا چاہیے تھا۔ اگر ان سے یہ بعید تھا تو حضرت عائشہ اور حجرت صفوان میں بدرجہ اولیٰ بعید تھا۔ روایت ہے کہ صحیح فکر ہو تھی جو حضرت ابو ایوب انصاری اور انکی بیوی سے ظاہر ہوئی تھی۔ وہ اس طرح ہے کہ حضرت ابو ایوب، اپنی بیوی کے پاس گئے تو بیوی نیپوچھا۔ اے ابو ایوب کیا تو نے سنا جو کہا گیا ہے۔ ابو ایوب نے کہا ہاں یہ جھوٹ ہے۔ اے ام ایوب تو ایسا کرے گی اس نے کہا۔ نہیں اللہ کی قسم حضرت ابو ایوب نے کہا اللہ کی قسم عائشہ تجھ سے افضل ہے ام ایوب نے کہا : ہاں وہ یہ فعل ہے جس پر اللہ نے مومنین کو عتاب فرمایا ہے کیونکہ مومنین نے یہ کام نہیں کیا تھا۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : بانفسھم، نحاس نے کہا : اس کا معنی ہے باخوانھم اللہ نے مسلمانوں پر واجبج فرمایا کہ جب جوہ سنین کہ وہ کسی پر تہمت لگا رہا ہے یا اس کی برائی بیان کررہا ہے جو اس کے متعلق نہیں جانتے تو وہ اس کا انکار کریں اور اس شخص کو جھٹلائیں جس نے اس کو ترک کیا، اس کو وعید سنائی اور اسے بھی وعید سنائی جس نے اس بات کو آگے نقل کیا۔ میں کہتا ہیوں۔ اسی وجہ سے علماء نے یہ آیت آصل ہے کہ ایمان کا وہ درجہ جس کو انسان حاصل کرتا ہے اور اصلاح کا وہ مرتبہ جس پر مومن اترتا ہے اور عفاف کا لباس جس کے ساتھ مسلمان کا پردہ ہوتا ہے وہ کسی متحمل خبر سے زائل نہیں ہوتا اگرچہ وہ پھیل بھی جائے جبکہ اس کی اصل فاسد یہ مجہول ہو۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : لولا جائو علیہ باربعۃ شھداء یہ جھوٹ گھڑنے والوں کو توبیخ ہے۔ لولاہ بمعنی ھلا ہے یعنی اپنے اس افتراء پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ یہ پہلے حکم پر رد ہے اور سابقہ آیت پر لوٹانا جو قذف کے بارے میں ہے۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : فاذلم یا تو بالشھداء فاولئک عند اللہ ھم الکذبون۔ یعنی وہ اللہ کے حکم میں جھوٹے ہیں کبھی کوئی شخص دلیل پیش کرنے سے عاجز ہوتا ہے حالانکہ وہ قذف میں سچا ہوتا ہے لیکن حکم شرع میں اور ظاہر امر میں جھوٹا ہے نہ کہ علم الٰہی میں جھوٹا ہے۔ اللہ نے حدود کو اسی حکم پر مرتب کیا ہے جو دنیا میں مشروع کیا ہے نہ کہ اس اپنے علم کے مقتضیٰ پر جو انسان کے ساتھ متعلق ہے جس پر وہ ہے اپنے علم کے مطابق آخرت میں اس سے برتائو کرے گا۔ میں کہتا ہوں : اس مفہوم کی تائید وہ روایت کرتی ہے جو امام بخاری ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا۔ اے لوگو وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اب ہم تمہارے ظاہر اعمال کو لیں گے جس نے ہمارے لئے خیر کو ظاہر کیا ہم اسے امن دین گے اور اپنا قرب بخشیں گے ہمارے لئے اس کے باطن سے کوئی سروکار نہیں۔ اللہ اس کے باطن کا محاسبہ کرے گا اور جو ہمارے لئے برائی ظاہر کرے گا ہم اسے نہ امن دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے گے اگرچہ وہ کہے کہ اس کا باطن اچھا تھا۔ علماء کا اجماع ہے کہ دنیا کے احکام ظاہر پر مبنی ہیں اور دل کے بھید اللہ کے سپرد ہے۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ۔ سیبوبہ کے نزدیک فضل پر رفع مبتدا کی حیثیت سے ہے اور اسکی خبر محذوف ہے عرب اس کو ظاہر نہیں کرتے اور لولا کا جواب حذف ہے کیونکہ اس کے بعد اس کی مثل ذکر کیا اللہ نے فرمایا : اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہو تو جو کچھ تم نے حضرت عائشہ کے بارے میں کہا ہے اس کے سبب دنیا میں اور آخرت میں تمہیں عذاب عظیم لاحق ہوتا۔ یہ اللہ کی طرف سے عتاب بلیغ ہے لیکن اس نے اپنی رحمت سے دنیا میں متہم پر پردہ فرمایا اور آخرت میں بھی اس پر رحم فرمائے گا جو توبہ کرے گا۔ الافضۃ کا معنی ہے حدیث میں پڑنا۔ اس پر عتاب واقع ہوا ہے کہا جاتا ہے : افاض القوم فی الحدیث۔ قوم اس بات میں پڑگئی۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : اذ تلقونہ بالسنتکم۔ محمد بن سمیقع نے تاء کے ضمہ، لام کے سکون اور قاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی القاء سے مشتق ہے یہ قرأت واضح ہے اور حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود ؓ نے اذ تتلقونہ، التلقی سے مشتق کرکے دو تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ قرائت سبعہ کے جمہور نے ایک تا اور ذال کے اظہار کے ساتھ بغیر ادغام کے پڑھا ہے۔ بہ بھی التلقی سے مشتق ہے۔ ابو عمرو، حمزہ اور کسائی نے تاء میں زال کو ادغام کرکے پڑھا ہے۔ ابن کثیر نے ذال کے اظہار اور تاء میں ادغام کے ساتھ پڑھا ہے۔ قلقلۃ قراءت ہے کیونکہ یہ اجتماع ساکننین کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ فلا تتناجو اور تنابزو پڑھنے والون کی قرائت ہے اور ادغام کی طرح نہیں ہے۔ ابن یعمر اور حضرت عائشہ نے وہ تمام لوگوں سے زیادہ اس معاملہ کو جانتے تھے اس کو اذ تلقونہ تا کے فتحہ، لام کے کسرہ اور قاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس قرائت کا معنی عربوں کے اس قول سے ہے۔ ولق الرجل یلق ولقاء جب کوئی جھوٹ بولے اور اس پر متواتر جھوٹ بولتا رہے۔ وہ متعدی کو غیر متعدی پر شاہد لائے ہیں۔ حرف جر کو حذف کیا گیا اور ضمیر کو فعل سے متصل کیا گیا۔ خلیل اور ابو عمرو نے کہا : الولق کا اصل معنی جلدی کرنا ہے کہا جاتا ہے : جاءت الابل تلق۔ تیز دوڑتے ہوئے آئے۔ شاعرنے کہا : لما رائو جیشا علیھم قدطرق جائوا باسراب من الشام ولق ان الحصین زلق وزملق جائت بہ عنس من الشام تلق کہا جاتا ہے : ر جل ذلق وزملق اس کی مثال ھدبد ہے زمالق وزملق۔ میم کی تشدید کے ساتھ وہ شخص جس کو جماع کرنے سے پہلے انزال ہوجاتا ہے۔ راجز نے کہا : ان الحصین زلق وزملق الولق کا معنی اخف الطعن بھی ہے۔ ولقہ یلقہ ولقا، ولقہ بالسیف ولقات۔ یعنی تلوار کے کئی وار کیے۔ یہ لفظ مشترک ہے۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : وتقولون بافواھکم، افواھکم لفظ مبالغہ، الزام اور تاکید کیلئے ہے۔ تحبونہ کی ضمیر حدیث، اس میں غور وخوض اور اس کے پھیلانے کی طرف لوٹ رہی ہے۔ ھینا۔ تھوڑا گناہ یعنی اس میں تمہیں گناہ لاحق نہ ہوگا۔ وھو عند اللہ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کے قول کی مثل ہے جو دو قبور کے بارے میں ہے۔ انھا لیعذبان وما یعذبان فی کبیر، یعنی اندونوں کو عذاب ہورہا ہے اور تمہاری نسبت سے انہیں کسی بڑے گناہ کیوجہ سے عذاب نہیں ہورہا۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : و لولا اذ سمعتموہ قلتم مایکون لنا ان نتکلم بھذا سبحنک ھذا بھتان عظیم۔ یعظکم اللہ ان تعوذو لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین۔ ویبین اللہ لکم الایت واللہ علیم حکیم۔ یہ تمام مومنوں کو عتاب ہے۔ یعنی تمہیں مناسب تھا کہ تم انکار کرتے، اس کو حکایت کرنے اور نقل کرنے میں ایک دوسرے کی معاونت نہ کرتے اور اللہ کی پاکیزگی بیان کرتے کہ اس کے نبی مکرم ﷺ کی زوجہ سے ایسا فعل واقع ہو اور تم اس بات پر بہتان کا فیصلہ کرتے۔ بہتان کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اس میں نہ ہو اور غیبت یہ ہے کہ بات بیان کی جائے جو اس میں ہو۔ یہی مفہوم نبی کریم ﷺ کی حدیث میں آیا ہے۔ پھر اللہ نے ایسی حالت کی طرف لوٹنے سے نصیحت فرمائی۔ ان مفعول لا جلہ ہے۔ تقدیر کراھیۃ ان ہے۔ مسئلہ نمبر 15 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ان کنتم مومنین۔ یہ تو قیف اور تاکید ہے جیسے تو کہتا ہے : تجھ ایسا ایسا کرنا مناسب ہے اگر تو مرد ہے۔ مسئلہ نمبر 16 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے یعظکم اللہ ان تعودو لمثلہ ابدا یعنی حضرت عائشہ کے بارے میں پھر ایسی بات کرو اللہ تمہیں اس سے نصٰحت کرتا ہے کیونکہ اس کی مثل نہیں ہوگا مگر اس قول کے مثل جو بعینہ مقول عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے یا اس کے بارے میں جو مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے مرتبہ میں ہوگا۔ کیونکہ اس میں نبی کریم ﷺ کو اذیت ہے اس لیے اسیسا کرنے والے کی طرف سے یہ کفر ہوگا۔ مسئلہ نمبر 17 ۔ ہشام بن عمار نے کہا : میں نے امام مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا جس نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو برا بھلا کہا اس کی تادیب کی جائے گی اور جس نے حضرت عائشہ کو برا بھلا کہا اسے قتل کیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ فرماتا ہے : یعظکم اللہ ان تعودو لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین۔ پس جس نے حضرت عائشہ کی شان میں گستاخی کی اس نے قرآن کی مخالفت کی۔ ابن عربی نے کہا : اصحاب شافعی نے کہا : جس نے حضرت عائشہ کو گالی دی اس کی تادیب کی جائے گی جیسا کہ دوسرے مومنین کے بارے میں ہے۔ ان کنتم مومنین۔ یہ قول حضرت عائشہ کے بارے میں کفر نہیں ہے یہ اس طرح ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ لایومن من لا یمان جارہ بوائقۃ وہ مومن نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی تخریب کاریوں سے محفوظ نہیں۔ اگر حضرت عائشہ کو گالی دینے والے کا ایمان حقیقہ سلب ہوتا تو لایزنی الزانی حین یزنی وھو مومن کے قول میں زانی کا ایمان بھی حقیاہ سلب ہوتا۔ ہم کہتے ہیں : جیسا تم نے گمان کیا ایسا نہیں ہے کیونکہ بہتان تراشون نے حضرت عائشہ صدیقہ پر فاحشہ ہونے کا بہتان لگایا پھر اللہ نے انکی برائت فرمائی۔ پس وہ شخص جوا سے برا مانتا ہے جس کی اللہ نے برائت فرمائی وہ اللہ کو جھٹلانے والا ہے اور جو اللہ کا جھٹلانے والا ہے وہ کافر ہے۔ یہ امام مالک کے قول کا طریق ہے یہ اہل بصائر کے لئے واضح راستہ ہے۔ مسئلہ نمبر 18 ۔ اللہ کا ارشاد ہے ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ، کہ ان تشیع کا معنی تفشو (پھیلانا) ہے کہا جاتا ہے : شاع الشیء وشیعا وشیعانا وشیعوعۃ، اس کا معنی ظاہر ہونا، بکھر جانا۔ فی الذین امنو یعنی پاکدامن مردوں اور عورتوں میں۔ اس لفظ عام سے مراد حضرت عائشہ اور حضرت صفوانس ہیں۔ الفاحشۃ ایسا برا فعل ہے جو برائی میں انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ بعض علماء نے کہا : اس آیت میں فاحشہ سے مراد برای بات ہے۔ لھم عذاب الیم فی الدنیا یعنی عذبا سے مراد حد ہے اور آخرت میں آگ کا عذاب ہے یعنی منافقین کے لئیے یہ مخصوص ہے۔ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ حد مومنین کے لئے کفارہ ہے۔ طبری نے کہا : اس کا معنی ہے اگر وہ اصرار کرتے ہوئے بغیر توبہ کے مرے۔ مسئلہ نمبر 19 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : واللہ یعلم یعنی اس گناہ کی بڑائی کی مقدار اور اس پر جزا کو جانتا ہے ؛ اور بعض ہر چیز کو جاننا ہے۔ انتم تعلمون حضرت ابو الدرداء کی حدیث سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے لوگوں میں سے کسی کی جھگڑے میں مدد کی جبکہ اس کو اس کے متعلق کوئی علم ہی نہیں ہے تو وہ اللہ کی ناراضگی میں ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ اس سے باز آجائے۔ اور جس شخص نے اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے بارے میں سفارش کی کہ وہ اسے نہ لگے تو اس نے حق کے بارے میں اللہ کی مخالفت کی اور اس نے اللہ کی ناراضگی کی طرف پیش قدمی کی اور اس پر متواتر قیامت تک اللہ کی لعنت ہوگی اور جس نے کسی مسلمان کے بارے میں ایسا کلمہ پھیلایا جس سے وہ بری ہے اسکا خیال ہے کہ وہ دنیا میں اس کے ساتھ اسے عیب دار کردے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے کی وجہ سے آگ میں ڈالے۔ پھر اس کا مصداق کتاب اللہ سے تلاوت کیا : ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنو۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ مسئلہ نمبر 20 ۔ اللہ کا ارشاد ہے۔ یایھا الذین امنو لا تتبعو اخطوت الشیطن یعنی شیطان کے راستہ اور مذہب پر نہ چلو۔ مطلب یہ ہے کہ اس راستے پر نہ چلو جس کی طرف شیطان بلاتا ہے۔ الخطوات کا مفرد خطوۃ ہے۔ یہ وہ فاصلہ ہوتا ہے جو دو قدموں کے درمیان ہوتا ہے۔ الخطوۃ خاء کے فتحہ کے ساتھ مصدر ہے۔ کہا جاتا ہے : خطوت خطوۃ اس کی جمع خطوات ہے۔ تخطی الینا فلان۔ اسی سے حدیث ہے۔ انہ رای رجلا یتخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ۔ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگ رہا تھا۔ جمہور نے خطوات طاء کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ عاصم اور اعمش نے اسے طاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ جمہور نے مازکیٰ کو کاف کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی اس نے ہدایت نہیں پائی، وہ سلامت نہ ہوا اور اس نے ہدایت کو نہیں پہچانا۔ بعض علماء نے کہا : مازکیٰ کا مطلب ہے ماصلح اس نے اصلاح نہ کی۔ کہا جاتا ہے : زکا، یذکوز کائ۔ یعنی صلح کرنا۔ حسن اور ابو حیوہ نے اس کو شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ یعنی اس کا تمہارا تزکیہ کرنا اور تطہیر اور ہدایت دینا یہ اس کے فضل سے ہے۔ تمہارے اعمال کی وجہ سے نہیں ہے۔ کسائی نے کہا : یا ایھا الذین امنو لا تتبعو اخطوٰت الشیطن جملہ معترضہ ہے۔ اور ما زکیٰ منکم من احد ابدا پہلے اور دوسرے لولا کا جواب ہے۔ مسئلہ نمبر 21 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ولا یاتل اولو الفصل منکم والسعۃ روایات سے مشہور ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ اور مسطح بن اثاثہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت مسطح، حضرت ابوبکر کی خالہ کی بیٹی کا بیٹا تھا یہ بدری صحابہ میں سے تھا۔ مہاجر بھی تھا اور مسکین میں سے تھا۔ یہ مسطح بن اثاثہ بن عبادہ بن مطلب بن عبد مناف تھا۔ بعض نے کہا : اس کا نام عوف تھا اور مسطح اس کا لقب تھا۔ حضرت ابوبکر اس کے مسکین ہونے اور اس کی قرابت کیوجہ سے اس پر خرچ کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہ پر بہتان کا واقعہ پیش آیا اور مسطح بھی اس بہتان تراشی میں شامل تھا تو حضرت ابوبکر نے قسم اٹھائی کہ وہ اس پر خرچ نہیں کریں گے اور اسے کوئی نفع نہیں پہنچائیں گے۔ مسطح، حضرت ابوبکر کے پاس آیا اور معذرت کی۔ میں حسان کی مجلس میں ہوتا تھا میں سنتا تو تھا لیکن کہتا نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر نے مسطح سے کہا تو ہنستا تھا اور اس بات میں تو شریک ہوا پس آپ نے یہ قسم اٹھادی پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ ضحاک اور حضرت ابن عباس نے کہا : مومنین کی ایک جماعت ان کے منادفع کاٹ دیئے تھے جنہوں نے تہمت لگائی تھی اور کہا : ہم ان سے صلہ رحمی نہیں کرین گے جنہوں نے حضرت عائشہ کی شان میں کہا ہھے۔ پس تمام کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ صحیح نے روایت کیا ہے کہ اللہ نے جب ان الذین جائو بالافک عصبۃ منکم سے لیکر دس آیت نازل فرمائیں تو حضرت ابوبکر نے کہا ہو مسطح پر قرابت اور فقر کی وجہ سے خرچ کرتے تھے اللہ کی قسم اس پر کوئی چیز خرچ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد جو اس نے حضرت عائشہ کے متعلق کہا ہے۔ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ولا یاتل اولوا لفضل منکم والسعۃ اولی القربی والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ولیعفو اولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک نے کہا : یہ آیت کتب اللہ میں امید افزا آیت ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا اللہ کی قسم میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے۔ پھر آُ نے وہ نفقہ مسطح کا جاری کردیا جو آپ پہلے عطا کرتے تھے اور فرمایا : میں اب کبھی ان سے خرچ نہیں روکوں گا۔ مسئلہ نمبر 22 ۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ قذف اگرچہ گناہ کبیرہ ہے لیکن اعمال کو ضائع نہیں کرتا اللہ نے اس بہتان کے بعد پھر حجرت مسطح کا ہجرت اور ایمان کے ساتھ وصف بیانج فرمایا ہے۔ یہی حکم تمام کبائر کا ہے اللہ کے شریک ٹھہرانے کے علاوہ کوئی بھی گناہ اعمال کو ضائع نہیں کرتا اللہ کا ارشاد ہے : لئن اشرکت لیحبطن عملک (الزمر :65) مسئلہ نمبر 23 ۔ اگر کوئی کسی شے پر قسم اٹھائے کہ وہ یہ نہیں کرے گا پھر اس فعل میں بہتری دیکھے تو وہ کردے اور ہر قسم کا کفارہ دے دے یا پہلے قسم کا کفارہ دے اور پھر وہ کام کرے جیسا کہ سورة المائدہ میں گزر چکا ہے۔ فقہاء کا خیال ہے کہ جو کسی سنت کو نہ کرنے یا کسی منذوب کو نہ کرنے کی قسم اٹھائے اور ہمیشہ انہیں ادا نہ کرے تو یہ امر اس کی شہادت کو مجروھ کر دے گا یہ الباجی نے المنتھیٰ میں ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 24 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ولا یاتل اولو الفضل، ولا یاتل کا معنی ہے قسم نہ اٹھائے اس کا وزن یفتعل ہے یہ الیۃ سے مشتق ہے جس کا معنی قسم ہے اسی سے اللہ کا فرمان ہے : للذین یولون من نسائھم (بقرہ :266) یہ سورة بقرہ میں گزرچکا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : اس کا معنی ہے کمی کرنا۔ یہ الوت من کذا سے مشتق ہے کسی امر میں کوتاہی کرنا۔ اس سے اللہ کا ارشاد ہے : لایالونکم خبالا (آل عمران : 118 ) ۔ مسئلہ نمبر 25 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : الا تحبون ان یغفر اللہ لکم : یہ تمثیل اور حجت ہے یعنی ؛ جس طرح تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے تو اسی طرح تم بھی دوسروں کو معاف کرو جو تم سے کم درجہ ہیں۔ یہی مفہوم نبی کریم ﷺ کے ارشاد : من لایرحم لا یرحم (جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا) کا ہے۔ مسئلہ نمبر 26 ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت کتاب اللہ میں افزا ہے کیونکہ اس لفظ کے ساتھ اللہ نے تہمت لگانے والے نافرمانوں پر لطف فرمایا ہے۔ بعض علماء نے کہا : کتاب اللہ میں امید افزا آیت ہے : وبشر بان لھم من اللہ فضلا کبیرا۔ (الاحذاب) اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا : والذین آمنو وعملوا لصلحت فی روضت الجنت لھم ما یشائون عند ربھم ذلک ھو الفضل الکبیر۔ (الشوریٰ ) ۔ اس آیت میں فضل کبیر کی شرح فرمائی ہے اور اس کے ساتھ مومنین کو بشارت دی ہے اور امید افزا آیات سے یہ بھی ہے۔ قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم (الزمر) اور اللہ کا ارشاد ہے : اللہ لطیف بعبادہ بعض نے کہا : یہ آیت امید افزا ہے۔ ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ ۔ یہ اس لئے ہے کیونکہ نبی پاک کسی ایک امتی کے دوزخ میں رہنے سے راضی نہ ہوں گے۔ مسئلہ نمبر 27 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ان یوتو۔ یعنی الا یوتو، لا کو حذف کیا گیا جیسے شاعر کا قول ہے : فقلت یمین اللہ ابرح قاعدا زجاج نے اس کو ذکر کیا ہے اور ابو عبیدہ کے قول پرلا کے اضمار کی ضرورت نہیں۔ ولیعفوا یہ عفا الریح سے مشتق ہے جس کا معنی ہے ہوا کا اثر مٹادینا۔ جس طرح ہوا اثر مٹادیتی ہے۔
Top