Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
بلاشبہ جن لوگوں نے ایک بڑا اتہام باندھا تھا وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے ، تم اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے ان میں سے ہر شخص نے جتنا گناہ کمایا اتنا ہی اس کے لیے وبال ہے اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے
اتہام باندھنے والے ایک منظم گروہ کے لوگ تھے جو تم ہی میں شامل تھے : 17۔ نبی اعظم وآخر ﷺ ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو کفار مکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اس تحریک کو ختم کردیا جائے انہوں نے اس کے لئے یہ تدبیر شروع کی کہ مہاجرین مدینہ میں آرام سے نہ بیٹھ سکیں بلکہ ان کے بار بار میدان کارزار میں نکلنے پر مجبور کیا جائے ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح ان کے ساتھ انصار کو مصروف ہونا پڑے گا اور جب وہ اس طرح بار بار آزمائے جائیں گے تو اس تحریک سے یقینا تنگ پڑیں گے ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ان کی یہ آزمائش ان کے حق میں مفید نہیں ہو رہی تو انہوں نے ہر اس شخص کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جس کی رگ وپے میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق ذرا بھر بھی کمزور عنصر موجود تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ میں ایک اچھا خاصا منافقین کا گروہ پیدا ہوتا چلا گیا اور مدینہ منورہ میں جو لوگ محض اپنی سیادت کو بچانے کی خاطر مسلمان ہوئے تھے انہوں نے اندرون خانہ اپنی کوششیں تیز سے تیز تر کردیں اور ان کی ہر ممکن کوشش وسعی یہ تھی کہ لوگ اندھیرے سے نکل کر روشنی میں نہ آئیں ، پرانے نظام کے امام ہر قیمت پر چاہتے تھے کہ ان کی سیادت باقی رہے اور وہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں اس قانون اسلامی سے ان کو بہت دکھ ہوا اس لئے وہ اپنی جان کی بازی لگا کر بھی ان محرکات کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے جو انکی من مانیوں کے لئے خطرہ تھے پرانے رسم و رواج کے پابند قبائل کب برداشت کرسکتے تھے کہ ان کے آباء و اجداد کے طریقوں کو بدلا جائے اس لئے انکو نبی اعظم وآخر ﷺ کا یہ اصلاحی نظام ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا وہ ہر قیمت پر نئی ملت کو ختم کرنے کا تہیہ کرچکے تھے ، آپ پیچھے سورة الانفال میں پڑھ چکے ہیں کہ جنگ احد میں تھوڑی سی کامیابی مخالفین کے حصہ میں آئی تھی اس کامیابی سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ قریش مکہ اور منافقین مدینہ کی ریشہ دوانیاں اب زیادہ تیز ہوگئیں ان کو خیال ہوا کہ ہم مزید ہمت کریں تو اس تحریک کو بیخ وبن سے اکھیڑ پھینکنے میں کامیاب ہوجائیں گے ، انہوں نے چھوٹے چھوٹے قبائل کو ساتھ ملانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ان کے ارادہ میں یہ بات تھی کہ اب ایک بار مدینہ پر ٹوٹ پڑیں گے تو یہ سارا معاملہ ختم کردیں گے غزوہ احد کے بعد انہوں نے پروپیگنڈا مہم کو بھی تیز کردیا اور غلط خبریں پھیلانا شروع کردیں یہی وجہ ہے کہ جنگ احد کے بعد جو مہمات پیش آئیں ان میں غلط خبروں کا زیادہ حصہ ہے ، غزوہ بدر الاخری ذی قعدہ 4 ھ میں پیش آیا آپ ﷺ مدینے سے پندرہ سو آدمیوں کی جمعیت لے کر نکلے آپ ﷺ کو معلوم ہوا تھا کہ ابو سفیان مکہ سے لشکر لے کر آرہا ہے حالانکہ یہ خبر غلط تھی اس طرح غزوات الرقاع اور غزوہ دومۃ الجندل میں بھی ہوا ۔ ازیں بعد آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ حارث بن ابی ضرار مدینے پر چڑھائی کے لئے لشکر فراہم کر رہا ہے آپ ﷺ نے بریدہ سلمی کو بھیجا کہ اس خبر کی صداقت معلوم کریں اور ازیں بعد آپ ﷺ خود بھی سات سو کی جمعیت لے کر بعجلت مریسیع پہنچے ، یہ خزاعہ کا ایک قبیلہ تھا جو بنی مصطلق کے نام سے معروف تھا یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کو غزوہ بنی المصطلق کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ غزوہ مریسیع ہی وہ غزوہ ہے جس میں منافقین کی خاصی تعداد نے شرکت کی تھی ‘ کیوں ؟ مدینے میں رہ کر ان کی پالیسی کامیاب نہیں ہو رہی تھی انہوں نے کتنی ہی مہمات میں شرکت کرنے سے گریز کیا تھا اور وہ بار بار معذرت کر کے بھی تھک چکے تھے اس لئے انہوں نے یقینا ایک نئی سکیم بنائی کہ اب زیادہ سے زیادہ مسلمانوں میں شریک ہو کر مسلمانوں کے جنگی رازوں سے واقفیت حاصل کریں اور ان کے علم میں تھا کہ مدینہ کے باہر جتنی قومیں اور خاندان آباد ہیں ان سب سے قریش کے روابط ہیں اور وہ ان سب کو اکٹھا کرکے مدینہ پر چڑھائی کرنے والے ہیں اس لئے مسلمانوں کے جنگی راز بھی ان کو پہنچائیں گے اور اگر ہوسکا تو کوئی سکیم بھی ایسی ضرور لڑائین گے جس سے مسلمانوں کے اندر اختلاف پھوٹ سکے اور کچھ نہیں تو کم از کم مہاجر وانصار ہی کا مسئلہ کھڑا کردیں گے ۔ مریسیع چونکہ مکہ کے قریب جگہ تھی اس لئے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ یہاں سے مکہ والوں کے ساتھ آسانی کے ساتھ روابط رکھے جاسکیں گے بہرحال اس طرح کے حالات کے باعث وہ شریک ہوئے لیکن ان کے ارادوں پر پانی پھر گیا جب وہ لوگ مسلمانوں کے پہلے ہی حملہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلے اور مسلمانوں کو اس غزوہ سے اتنا مال و دولت ملا کہ اس سے پہلے کسی غزوہ میں اتنا مال و دولت نہیں ملا تھا اور جب اس مال و دولت کو دیکھ کر وہ مکمل طور پر محتاط ہوگئے تاکہ اس مال سے وافر حصہ پاسکیں اور مسلمانوں کو یہ باور بھی کرائیں کہ دیکھا تم نے ‘ ہماری وجہ سے یہ سب کچھ ہوا اگر وہ بھاگ نہ کھڑے ہوتے تو ہم ان کا تیاپانچا کردیتے اور منافقین کے سرداروں کو اس سے بہت ہی تکلیف پہنچتی کہ ان کی کوئی سکیم بھی کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی اس لئے یہاں بھی ان کے اندر کی آگ نہ بھڑک سکی بلکہ اندر اندر سلگتی رہی اور یہ بدباطن ہر موقع پر فتنہ گری کی کوشش کرتے رہے کہ اتفاق سے ایک دن چشمہ سے پانی لینے پر ایک مہاجر اور انصاری میں جھگڑا ہوگیا ۔ انصاری نے عرب کے قدیم طریقہ پر یا للانصار کا نعرہ بلند کیا اور دوسری طرف مہاجر نے بھی یا معشرالمھاجرین کے نعرے سے جواب دے دیا دونوں طرف سے نعروں کی آواز سن کر مہاجرین وانصار بھی ہتھیار بستہ ہوگئے لیکن چند لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا ۔ عبداللہ بن ابی سلول جو منافقین کا سردار تھا اس کو یہ موقع ہاتھ آگیا اور انصار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ” تم نے یہ بلا خود مول لی ‘ مہاجرین کو تم نے بلا کر ایسا کردیا کہ اب وہ خود تم سے برابر کا مقابلہ کرتے ہیں اور تمہارا ذرا بھر بھی لحاظ نہیں کرتے ، اب بھی کچھ ہاتھ سے نہیں گیا ہے تم ان لوگوں کی دستگیری سے ہاتھ اٹھا لو تو وہ خود بخود یہاں سے نکل جائیں گے “۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ جھگڑا اتفاقا نہ ہوا ہو بلکہ ان منافقین ہی کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہو اس لئے کہ جب یہ آگ بھڑکتے بھڑکتے بجھ گئی تو ان منافقوں کے سردار کو بہت تکلیف پہنچی اور اس نے اپنے مداحوں اور خاندان کے لوگوں کے سامنے ایک جوشیلی تقریر شروع کردی اور ان کو مخاطب کرکے زور دار الفاظ میں کہا کہ ” رسول کے ان ساتھیوں پر خرچ کرنا بند کر دو تاکہ یہ منتشر ہوجائیں “ اور پھر اسی جوش میں اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ” ہم مدینے واپس پہنچ جائیں تو جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے گا ۔ “ (المنافقون 63 : 7) یہ واقعہ لوگوں نے نبی اعظم وآخر ﷺ تک بھی پہنچا دیا جب یہ واقعہ عرض کیا جارہا تھا اس وقت حضرت عمر فاروق ؓ بھی آپ ﷺ کے پاس تشریف فرما تھے اور ابھی تک میدان مریسیع ہی میں تھے ، عمر ؓ نے جب یہ باتیں اپنے کانوں سے سنیں تو غصہ سے بےتاب ہوگئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ارشاد ہو تو میں ان منافق کی گردن اڑا دوں ۔ آپ ﷺ نے نہایت سکون سے جواب دیا کہ اے عمر ؓ ! کیا تم یہ چرچا پسند کرتے ہو کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں ۔ (بخاری ص 728) مریسیع کی جنگ میں جو لوگ گرفتار ہوئے ان میں حضرت جو یریہ بھی تھیں جو حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھی اور حارث اپنی قوم کے سردار تھے اس طرح جو یریہ نے نبی اعظم وآخر ﷺ کی زوجیت میں آنے کی خواہش کی جو پوری کردی گئی اور آپ ﷺ کا نکاح جو یریہ سے ہونا تھا کہ جو یریہ کے خاندان کا سارا مال جو مسلمانوں نے مال غنیمت کے طور پر تقسیم کرلیا تھا جو یریہ ؓ کے خاندان کو واپس کردیا اور تمام قیدیوں کو بھی رہا کردیا گیا ۔ اس طرح یہ قبیلہ اور خاص کر قبیلہ کی یہ شاخ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مطیع وفرمانبردار ہوگئی لیکن منافقین کو اس سے بہت بڑا دھچکا لگا کہ اس طرح ایک طرف تو اس مال سے ہاتھ دھونے پڑے اور چار وناچار واپس کرنا پڑا اور دوسری طرف قریش مکہ کے ساتھ جو عہد ومعاہدہ تھے وہ بھی پورے نہ ہو سکے اس سے ان کو بہت قلق تھا کہ اس غزوہ کی واپسی میں ایک مزید اتفاقیہ واقعہ پیش آگیا جو واقعہ افک کے نام سے معروف ہے ۔ احادیث وسیر کی کتابوں میں اس واقعہ کو سننے کے ساتھ ہی نقل کیا گیا ہے لیکن جب واقعہ کی نسبت قرآن کریم میں مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اس واقعہ کو سننے کے ساتھ ہی تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ” یہ بالکل افتراء ہے “ اس کی تفصیلات لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہاں ! اس واقعہ سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ محض جھوٹ اور بیہودہ خبر بھی بعض اوقات کس طرح پھیل جاتی ہے اور پھیلانے والے کتنے محتاط ہوتے ہیں کہ وہ بات کا بتنگڑ بھی بنا دیتے ہیں اور خود ظاہر بھی نہیں ہوتے اور اشاروں کنایوں ہی میں وہ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں اور ان کو ایک ” پر “ سے کوا اور کوے سے ڈار بناتے کوئی زیادہ دیر نہیں لگتی اور آج کل یہ مہم باقاعدہ منظم طریقہ سے چلائی جاتی ہے جس کا نام پروپیگنڈا رکھا گیا ہے اور ہر تحریک میں اس کا ایک باقاعدہ سیکرٹری بنایا جاتا ہے ، بہرحال ان لوگوں نے واقعہ افک کی خبر خوب گرم کی اور اندر ہی اندر انہوں نے بہت کچھ کہنا سننا شروع کردیا اور دراصل وہ اس نئے قانون کی دھجیاں اڑانا چاہتے تھے جس کی سزائیں نہایت سخت تھیں اور ان کو یہ پابندیاں ایک نظر نہ بھاتی تھیں ، انہوں نے جو کچھ کہا نہایت بچ بچا کر کہا اور اس طرح کی گول مول باتیں کیں اور ان کو اس قدر خفیہ رکھا کہ کتنے روز تک اس بات کو اندر ہی اندر چلاتے رہے اور جب یہ بات ظاہر ہوئی تو اس وقت مدینہ کے بچہ بچہ کی زبان پر یہ بات جاری تھی اور ہر کان اس کو سن چکا تھا اور اس کی چھان بین نہایت مشکل ہوچکی تھی کہ اس افواہ کو پھیلانے والا کون ہے ؟ اور ایک اتفاقی بات کو کس طرح ہوا دی جارہی ہے ؟ بہرحال اس سے جو تکلیف آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے اہل و عیال کو پہنچی اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو کسی اس طرح کی آزمائش میں مبتلا ہوا ہو باقی لوگ اس کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے ۔ اللہ تعالیٰ ایسی آزمائش میں کسی کو مبتلا نہ کرے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے اس واقعہ افک سے بالکل انکار کیا ہے اور انہوں نے انکار کا باعث صرف ان روایات کو قرار دیا ہے جن روایات میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے اور پھر روایات کا انکار کرنے کے لئے روایان کو زیر بحث بنایا ہے لیکن ہم یہ بات ایک سے زیادہ بار عرض کرچکے ہیں کہ راویوں کی بحث سے کسی واقعہ کے صحیح یا غلط قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اس طرح سارا وقت اس بحث میں کھپ جاتا ہے اور پھر بات کے صحیح یا غلط ہونے کا یہ معیار بذاتہ صحیح نہیں ہے بلکہ واقعہ خود اس کی وضاحت پیش کردیتا ہے کہ میرے اندر صداقت کتنی ہے اور کذب گو کہاں تک اس کا نام درایت رکھیں یا کچھ اور اس سے حقیقت واضح ہونا فطرت کے زیادہ قریب ہے اگرچہ یہ طریقہ ہمارے ہاں کم رواج پایا ہے اور ایک دوسرے کی بات کو نیچا کرنے کے لئے زیادہ تر سہارا راویوں ہی کا لیا جاتا ہے کیونکہ فریقین ایک دوسرے کی باتوں کا رد اس بحث سے زیادہ کرسکتے ہیں بلکہ بعض اوقات دونوں فریق اپنی اپنی بحث پیش کرکے ایک دوسرے کا رد کرنے پر مطمئن رہتے ہیں اور اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہیں اور پھر اصلاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ۔ قرآن کریم نے اس آیت میں صرف یہ اشارہ دیا ہے کہ یہ واقعہ افک باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت پھیلایا گیا اور ایک اتفاق کو اتفاق نہیں بلکہ عمد بنانے کی کوشش کی گئی اور اس میں شامل ہونے والے ایک گروہ کی صورت میں تھے جو اپنا اپنا کام نہایت مستعدی کے ساتھ سرانجام دیتے چلے جار ہے تھے لیکن دوسرے واقعات کی طرح اس واقعہ کی برائی بھی انہی پر پڑی اور وہ جو کچھ کر گزرنا چاہتے تھے وہ نہ کرسکے بلکہ ان کا سارا وبال انہیں پر پڑا تاہم کچھ کان کے کچے لوگوں پر بھی اس کا اثر پڑا اگرچہ وہ حقیقت میں سچے مسلمان تھے لیکن کوئلوں کی دلالی میں منہ کلا کا مصداق وہ بھی ٹھہرے ۔ تم اس کو برا نہ سمجھو بلکہ تمہارے حق وہ واقعہ اچھا رہا کیونکہ نتیجہ نے اس کو اچھا کردیا : 18۔ بلاشبہ کوئی الزام بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن ذرا غور کرو کہ جب وہ شخص جس پر الزام لگایا گیا ہو اس الزام سے بری قرار دیا جائے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟ اس کی اتنی خوشی ہوتی ہے کہ لوگ مبارکبادیاں پیش کرتے ہیں اور ہر آنے والا الزام لگانے والوں پر لعن طعن کرتا ہے اور بری ہونے والے ملزم کی اخلاقی حالت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کا ہر ایک خودبخود اعتراف کرنا شروع کردیتا ہے اور ملزم اپنے آپ میں پھولا نہیں سماتا اور الزام لگانے والے منہ چھپائے پھرتے ہیں اور وہ شرم کے مارے کسی کی آنکھوں کے سامنے آنے تک سے گریز کرنے لگتے ہیں اور بلاشبہ اس وقت ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے ۔ اس لئے قرآن کریم نے بھی اس وقعہ کو (خیر) کہا کیونکہ اس نے نتیجہ میں بھلائی رکھی گئی تھی اور عام مسلمانوں کی بھلائی اس میں یہ نکل آئی کہ ان کو آئندہ ایسی باتوں میں آنے سے روک دیا گیا اور ان کو احتیاط کا سبق سکھایا گیا اور منافقین سے بچنے کی تلقین کی گئی اور انکی طرف سے ہر حال چوکنا رہنے کا کہا گیا ‘ دوست و دشمن کی تمیز سکھائی گئی اور آج تک منافقین کے ہاتھ میں کھیلنے والوں کو ان کے نرغہ سے نکلنے کا موقع میسر آگیا ، قوم مسلم کو دوست و دشمن میں تمیز کرنے کا سبق سکھایا گیا اس لئے ارشاد فرمایا کہ ” تم اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بلکہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے ۔ “ اپنے کیے کا نتیجہ سب نے اپنے اپنے گناہ کے مطابق پالیا : 19۔ بلاشبہ اس واقعہ کے کرداروں میں سے جس کو جتنا جتنا دکھ پہنچا اتنی اتنی بڑی خوشی بھی اس کو حاصل ہوئی اور جن لوگوں نے اپنی اپنی مخالفت کے باعث جتنا جتنا حصہ انہوں نے ڈالا تھا اتنے اتنے ہی عذاب سے وہ دوچار ہوگئے جو اپنی منافقت یا اپنی سادگی کے باعث ظاہری طور پر سزا کے مستحق ٹھہرے ان کو اتنی سزا دی گئی اور جو اپنی چرب زبانی سے بچ نکلے ان کے لئے رسوائی کافی رہی اور بچہ بچہ ان کی اس حرکت سے واقف ہوا اس لئے ارشاد فرمایا کہ ” ان میں سے ہر شخص نے جتنی گناہ کمایا تھا اتنا ہی اس کے لئے وبال ہے اور جس نے ان میں سے سب سے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے “ یعنی اس دنیا میں بھی وہ رسوا ہوا اور آخرت میں بھی وہ یقینا رسوا ہوگا اور آخرت کی رسوائی سب سے بڑی رسوائی ہے ۔ اس فتنے کا اصل برپا کرنے والا کون تھا ؟ پیچھے واضح ہوچکا کہ وہ عبداللہ بن ابی سلول ہی تھا اور اس فتنے کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی تھی کہ اس نے ایک اتفاقیہ امر کو اپنی چرب زبانی سے کچھ کا کچھ بنا دیا حالانکہ اس کے پاس اس کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں تھی اور دراصل وہ اس نئے قانون سے جو اس سورت میں بیان ہوا بہت نالاں تھا اور چاہتا تھا کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس میں پھنسا کر نبی اعظم وآخر ﷺ کے پیچھے لگا دیا جائے اور اس طرح ایک پنتھ دو کاج کی بات کر دکھائے لیکن اس سلسلہ میں بھی اس کو منہ کی کھانی پڑی ۔
Top