Baseerat-e-Quran - Az-Zukhruf : 138
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب ابن مریم کے متعلق ایک بات کہی گئی تو قوم کے لوگ ( کفار مکہ) (خوشی کے مارے) شور مچانے لگے ۔
لغات القرآن آیت نمبر 57 تا 67 : خصمون ( وہ جھگڑتے ہیں) یخلفون (وہ قائم مقام ہوتے ہیں) لا تمترن ( تم ہرگز نہ کرو گے) لا یصدن ( ہرگز نہ روکنے پائے) الاحزاب ( جماعتیں ، فرقے ، گڑھے) الاخلائ (سارے دوست) تشریح : آیت نمبر 57 تا 67 : ایک مشہور مثال ہے کہ ” بد فطرت انسان کے لئے ایک بہانہ کافی ہوتا ہے “ یعنی جن لوگوں کی عقلیں اوندھی ہوجاتی ہیں اور وہ ہر نیک عمل کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں وہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کوئی ایسی بات لگ جائے جسے لے کر وہ اپنی انا کی تسکین کرسکیں ۔ کفار و مشرکین کا بھی یہی حال تھا وہ ہر وقت اس ٹوہ میں لگے رہتے تھے کہ ان کے ہاتھ نبی کریم ﷺ کی کوئی ایسی بات یا کمزوری آجائے جس کو لے کر وہ پروپیگنڈا کرسکیں چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود بنا رکھا ہے وہ معبود اور ان کی بندگی کرنے والے دونوں جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ جنہیں شریک کیا گیا ہے وہ قیامت کے دن ان کے کام نہ آسکیں گے اور پتھرکے بےجان بت یا وہ جان دار جو اپنی عبادت کا حکم دیتے اور اس کو پسند کرتے ہوں کہ ان کی عبادت کی جائے جیسے شیاطین ، فرعون اور نمرود وغیرہ یہ سب جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ کفار و مشرکین نے اس سچائی کو ایک غلط رنگ دے کر نبی کریم ﷺ ، آپ پر ایمان لانے والوں اور دین اسلام کے متعلق پروپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کردیا ۔ کہنے لگے کہ اگر ہم اپنے بتوں کو عبادت و بندگی کرتے ہیں اور ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے تو نصاری بھی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ( یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ، کفار مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کو) معبود کا درجہ دیتے ہیں تو کیا ( نعوذباللہ) یہ بھی جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ جب کفار و مشرکین نے یہ بات سنی تو وہ خوشی سے چلانے اور شور مچانے لگے کہ اب اس کا جواب دیا جائے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ ( عیسیٰ (علیہ السلام) بہتر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس جاہلانہ بات کا جواب دینے سے پہلے یہ بتا دیا کہ ایسی لغو اور فضول باتیں وہی کرسکتے ہیں جن کا کام صرف فساد کرنا اور جھگڑے پیدا کرنا ہے ورنہ وہ اتنی عقل تو رکھتے ہی ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر ہیں جن کی پاکیزہ زندگی کا ہر تصور بہت واضح ہے جن کا وجود قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ( کیونکہ اللہ کے حکم سے وہ آسمانوں پر اٹھا لئے گئے ہیں قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ حضور اکرم ﷺ کے ایک امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔ دجال کو قتل کریں گے ، صلیب کو توڑ ڈالیں اور پھر قیامت قائم ہوگی) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندگی بھر توحید کی تعلیم دیتے رہے اور جب وہ آسمان سے دوبارہ آئیں گے اس وقت بھی وہ اسی توحید کی تعلیم دیں گے لہٰذا جو لوگ زبردست غلط فہمی کی وجہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عبادت و بندگی کر رہے ہیں ان کی غلط سوچ ، ذاتی رائے اور ان کا اپنا ذاتی فعل ہے اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کی پوری زندگی گواہ ہے کہ انہوں نے نہ تو ایسا کرنے کا حکم دیا نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خواہش اور مرضی تھی نہ اللہ کا کلام اس کی تائید کرتا ہے۔ اگر موجودہ انجیلوں کا دیانت دار سے مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے صرف ایک ہی بات فرمائی کہ لوگو ! تم اللہ سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے نہ ڈرو ، صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرو اور زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کے رسول کی پیروی کرو۔ اس بنیادی عقیدے کے خلاف جنہوں نے عقیدت و محبت اور عبادت زندگی کے بیشمار طریقے نکال رکھے ہیں وہ من گھڑت ہیں جب تک وہ انہیں نہ چھوڑیں گے اس وقت تک وہ دین کی اصل روح تک نہ پہنچ سکیں گے۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مسیح اللہ کے محبوب بندوں میں سے ہیں جنہیں بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجا گیا تھا تا کہ عقیدے کی جن گندگیوں میں وہ زندگی گزار رہے ہیں ان کی اصلاح کردی جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان سے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کو معبود کا درجہ دیدیا ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے وہ مردوں کو زندہ کردیتے ہیں ، مٹی کا پرندہ بنا کر جب وہ پھونک مارتے ہیں تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بند جاتا ہے، پیدائشی نابینا کی آنکھوں پر دم کرتے ہیں تو اس کو بینائی مل جاتی ہے، جب وہ کسی کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو وہ بھلا چنگا ہوجاتا ہے۔ یہ اور اس قسم کی چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ( نعوذ باللہ) وہ اللہ کے بیٹے اور معبود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو اس میں کوئی تعجب یا حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حضرت حوا کو اللہ نے بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا ہے یہ تو صرف اسی کی قدرت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے ۔ فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو فرشتوں کو بھی انسانوں سے پیدا کرسکتے تھے پھر ان کے ہاں بھی اولاد کا سلسلہ ہی قائم ہوجاتا جیسا کہ انسانوں میں جاتا ہے۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اس طرح معجزات دیئے تھے جس طرح ان سے پہلے پیغمبروں کو یا نبی کریم ﷺ کو معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ وہ یہ سارے کام اللہ کے حکم سے کرتے تھے۔ مردوں کو زندہ کرنا ، نابینا کو آنکھیں دینا ، کوڑھی کو صحت مند بنانا یہ سب اللہ کی قدرت کے نمونے تھے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے ظاہر ہوئے۔ فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بالکل واضح ، صاف صاحف اور دو ٹوک الفاظ میں اس اعلان کردیا تھا کہ میرا اور تمہارا رب صرف ایک اللہ ہی ہے اور وہی ہر طرح کی عبادت و بندگی کا مستحق ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے ان کا معبود کا درجہ دیدیا ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ تصور کرنے کے بجائے ان کو معبود کا درجہ دیدیا ہے۔ فرمایا کہ ان ظالموں کو عقل سے کام لینا چاہیے کیونکہ اس دنیا کی زندگی بڑی مختصر ہے جب زندگی کا دھارا رک جائے گا یعنی مومت آجائے گی تو قیامت قائم ہوگی اس وقت یہ دنیا کے اسباب اور ساتھ دینے والے دوست احباب ان کا ساتھ نہ دے سکیں گے۔ آج کفار و مشرکین کی آواز میں آواز ملانے والے قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ لیکن ان کے بر خلاف جن لوگوں نے اپنے دلوں میں توحید اور ایمان کی شمع روشن کر رکھی ہوگی وہ بہت جلد بلند ، کامیاب اور با مراد ہوں گے۔
Top