Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب بیان کی گئی مثال عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) کی تو اچانک آپ کی قوم کے لوگ اس سے چلانے لگے
ربط آیات گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے سلسلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ، اور اس کے ساتھ فرعون اور اس کے حواریوں کا بھی جنہوں نے غرور وتکبر کی بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت کو تسلیم نہ کیا ، اور ان کی مثال میں نازیبا کلمات بھی کہے۔ اللہ نے دنیا میں ہی ان کی گرفت کی اور فرعن نبع اپنے لاکھوں لشکریوں کے بحیرہ قلزم کی موجودں کی نذر ہوگیا۔ دنیا میں ان کو یہ سزا ملی جب کہ آخرت کا دائمی عذاب آگے آنے اولا ہے۔ اللہ نے ان کو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے باعث عبرت بنا دیا۔ قریش مکہ کا واویلا اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی قوم قریش مکہ کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد ہتا ہے ولما ضرب ابن مریم مثلاً جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) کی مثال بیان کی گی۔ اس مثال سے مراد وہ حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورة الانبیاء میں بیان فرمائی ہے ان کم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم (آیت 98- ) تم اور وہ معبود جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ، جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ نیز فرمایا لوکان ھولآء الھۃ م اور دوھا (آیت 99- ) اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ مطلب یہ کہ جن کی تم پوجا کرتے ہو یہ تو عبادت کے لائق ہی نہیں اگر یہ معبود ہوتے تو پھر تو دوزخ سے بچ جاتے مگر موجودہ صورت میں تم اور تمہارے یہ معبود ان باطلہ سب جہنم رسید ہوں گے۔ جب یہ مثال بیان کی گئی تو اللہ نے فرمایا اذا قومک منہ یصدون تو اے نبی (علیہ السلام) آپ کی قوم چیخنے چلانے لگی۔ کہنے لگے دیکھو آپ ہمارے معبودوں کی مذمت بیان کر رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ وہ بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے انہوں نے دلیل کے طور پر کہا کہ ہمارے معبودوں میں تو فرشتے ، عیسٰی (علیہ السلام) اور عزیز (علیہ السلام) بھی شامل ہیں جو اللہ کے مقرب ہیں تو کیا ملائکہ اور انبیاء بھی ہمارے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس سوال کا جواب اللہ نے سورة الانبیاء میں ہی دیا ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (آیت 101) جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی مقرر ہوچکی ہے ، وہ اس (جہنم) سے دور رکھے جائیں گے۔ اس سے مراد ملائکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عزیز علیہ اسللام ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے کہ اگرچہ لوگوں نے ان کو معبود بنا لیا مگر ان کے لئے اللہ نے بھلائی لکھ دی ہے لہٰذا وہ اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کبھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ مشرکوں نے ازخود ان کو الوہیت کے درجے پر پہنچا دیا۔ لہٰذا یہ ان کے ساتھ سزا میں شریک نہیں ہوں گے۔ مشرکین نے اللہ کے آخری نبی اور رسول پر دوسرا اعتراض یہ کیا کہ آپ بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اپنی پرستش کرانا چاہتے ہیں۔ اس لئے تو مسیح (علیہ السلام) کا نام بڑے ادب و احترام سے لیتے ہیں اور ان کی خوبیاں گنواتے ہیں۔ ان کے اس اعتراض کی بنیاد سورة آل عمران کی آیت 59- پر تھی ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادھ خلقہ من تراب بیشک اللہ کے نزدیع عیسیٰ علیہ اسللام کی مثال آدم (علیہ السلام) کی ہے جن کو اللہ نے مٹی سے تخلق فرمایا ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے واسطہ کے پیدا کیا اور حوا نہ کو بغیر ماں کے واسطہ سے تخلیق کیا۔ اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے واسطہ کے پیدا فرما دیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا شاہکار ہے۔ وہ جس طرح چاہے کسی کو پیدا فرما دے وگرنہ اس کا عام قانون تو یہی ہے کہ وہ انسان کو ماں اور باپ دونوں کے واسطہ سے پیدا فرماتا ہے جیسے اس کا ارشاد ہے۔ اے لوگو ! اس اللہ سے ڈر جائو جس نے تمہیں ایک جان سے تخلق کیا وخلق منھا زوجھا پھر اسی ایک جان یعنی آدم (علیہ السلام) سے اس کا جوڑا یعنی حضرت حوا کو پیدا کیا ویت منھما رجالاً کثیرا ونسآء (انلسآ 1- ) اور پھر ان دونوں سے کثیر تعداد میں مرد و زن پیدا کر کے زمین میں پھیلا دیئے۔ بہرحال مشرک لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ اللہ کا قرآن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عام قانون تخلیق سے مستثنیٰ قرار دے کر ان کی عزت و احترام کرتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بھی عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اپنی عبادت کرانا چاہتے ہیں۔ جس طرح نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) لیہ السلام کی پوجا کرتے ہیں ۔ ا سی طرح آپ بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ و قالوآء الھتنا خیر ام ھو وہ یہ سوال بھی کرتے تھے کہ بھلا بتلائو کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا عیسیٰ (علیہ السلام) ؟ اللہ نے اس قسم کی بیہودہ باتوں کے جواب میں فرمایا ماضربوہ لک الاجدلاً انہوں نے یہ مثال آپ کے سامنے محض جھگڑا کرنے کے لئے بیان کی ہے۔ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کی مثال آپ پر فٹ کرنا چاہتے ہیں۔ جو کہ نہایت ہی غلط بات ہے ۔ حقیقت یہ ہے بل ھم قوم خممون یہ جھگڑالو لوگ ہیں جو آپ کو اس قسم کی بیہودہ باتوں میں الجھانا چاہتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ فرشتوں نے یہ حضرت عیسیٰ السلام یا حضرت عزیز (علیہ السلام) نے کبھی اپنی عبادت کا حکم لوگوں کو نہیں دیا۔ وہ تو ہمیشہ اپنی پرستش سے بیزاری کا اظہار کرتے رہے اور دنیا میں اللہ کی وحدانیت کا دسر دیتے رہے ان اللہ ربی و ربکم فاعبدود ھذا صراط مستقیم (آل عمران 51- ) عیسیٰ (علیہ السلام) نے واضح کردیا کہ میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے ، اسی کی عبادت کرو ، یہی سیدھا راستہ ہے ۔ انہوں نے متنبہ کردیا انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ لعیہ الجنۃ وما وئہ النار ط بیشک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا۔ اللہ نے اس پر جنت حرام قرار دے دی اور اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔ انہوں نے تو یہ تعلیم دی مگر خود ان کے نام نہاد پیروکاروں نے توحید کے اس عقیدے کو بگاڑ کر انہی کو الوہیت کا درجہ دے دیا کسی نے خدا کا بیٹا کہا ، کسی نے تینوں میں سے تیسرا تسلیم کیا اور کسی نے مود خدا کردیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بر انعامات الہیہ اللہ نے فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام) نہ خدا تھے اور نہ خدا کے بیٹے ن ھولا عبد انعمنا علیہ نہیں تھے وہ مگر ایک بندے جس پر ہم نے انعام کیا۔ آپ پر پہلا انعام تو تخلیق کے سلسلے میں ہوا کہ اللہ نے بغیر باپ کے اپنی قدرت کا ملہ سے ان کو پیدا فرمایا ، ان کی پرورش بھی عجیب و غریب طریقے سے ہوئی۔ اللہ نے انہیں انجیل جیسی عظیم کتاب عطا فرمائی اور آپ کے ہاتھ پر حیرت انگیز معجزات کا اظہار فرمایا اور پھر سب سے بڑا انعام نبوت و رسالت ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی مطلب نہیں تو فرمایا وجعلنہ مثلاً لبنی اسرآئیل ہم نے آپ کو بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنا دیا۔ اس کی وضاحت سورة آل عمران میں موجود ہے۔ ورسولاً الی بنی اسرآئیل (آیت 49- ) اللہ نے آپ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ آپ کی نبوت بین الاقوامی نہیں بلکہ قومی تھی۔ بہرحال یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑا انعام تھا۔ فرمایا ولو نشآء لجعلنا منکم ملئکۃ فی الارض یخلفون اور اگر ہم چاہیں تو تمہاری جگہ زمین میں فرشتے بنا دیں تو آگے پیچھے آتے رہیں۔ یہ اس کی قدرت میں ہے کہ زمین پر فرشتوں کو نازل فرما دے۔ مگر اس نے اپنی حکمت بالغہ سے عیسیٰ (علیہ السلام) جیسی جلیل القدر ہستی کو پیدا کیا تو اس میں تعبج کی کون سی بات ہے ؟ نزول مسیح بطور آثار قیامت بہرحال اللہ تعالیٰنے یہاں پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق دو باتوں کا ذکر کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دوسری بات یہ کہ وانہ لعلم للساعۃ بیشک آپ قیامت کی نشانی ہیں۔ علم تو نشانی کو کہتے ہیں اور علم بایں معنی کہ ایک ایسی چیز جس کے ذریعے قیامت کا قریب الوقوع ہونا معلوم ہوگا یعنی مسیح (علیہ السلام) کا نزول قرب قیامت کی علامت ہوگا اور یہی چیز آپ کی حیات کی دلیل ہے کہ آپ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت میں نازل ہوں گے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں انہ کی ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے اور معنی یہ بنتا ہے کہ بیشک قرآن ایک علم ہے جس کے ذریعے وقوع قیامت کا پتہ چلتا ہے۔ اللہ نے قرآن پاک میں قیامت کا ذکر بکثرت کیا ہے بلکہ قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ قیامت کے موضوع پر ہی مشتمل ہے۔ تاہم اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ انہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف لوٹتی ہے یعنی بیشک عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کی نشانی ہیں جو کہ آپ کے دوبارہ نزول کی طرف ایک اشارہ ہے۔ امام ابن کثیر اور بعض دیگر مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کے نزول کی۔ روایات متواتر ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنے کثیر راویان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے۔ اس سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) قرب قیامت میں ضرور نازل ہوں گے اور حقیقت ہر مسلمان کے عقیدہ کا جزو ہے۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد مبارک ہے کیف اذ نزل فیکم ابن مریم اس وقت کیا حالت ہوگی جب عیسیٰ (علیہ السلام) تمہارے درمیان آسمان کی طرف سے نازل ہوں گے آپ صاحب انصاف حاکم ہوں گے۔ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ اس وقت جزیہ موقوف ہوجائے گا کیونکہ اس وقت اسلام کے سوا دنیا پر کوئی دوسرا دین نہیں ہوگا۔ اگر کوئی عیسائی اسلام قبول کرنے سے انکار کرے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) حضور خاتم النبین ﷺ کی شریعت کے تابع ہوں گے اور اسی کے مطاب قفصلے کریں گے۔ مسلم شریف میں امام ابن ابی ذنب کی روایت میں آتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا میں حضور ﷺ کے نائب کی حیثیت سے آئیں گے اور قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کریں گے ۔ واقعہ معراج میں بھی موجود ہے کہ جب عالم بالا میں ابنیاء (علیہم السلام) کا اجتماع ہوا اور قیامت کا ذکر ہوا تو تمام انبیاء نے یہی کہا کہ ہمیں وقوع قیامت کے وقت کا علم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے قیامت کی گھڑی کے متعلق تو علم نہیں۔ البتہ اس قدر جانت اہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے مجھے زمین پر اتاریں گے اور میں دجال کو قتل کروں گا۔ قرب قیامت کی نشانیوں میں خروج دجال کے علاوہ خروج یاجوج ماجوج (الانبیائ۔ 96- ) اسی طرح سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا ، مشرق اور جزیرۃ العرب میں خسف الارض یعنی زمین کا دھنس جانا آگ کا عدن کے کنارے سے نکلنا اور لوگوں کو ہانک کر شام کی طرف لے جانا ۔ وغیرہ علامات قیامت میں شمار ہوتی ہیں اور نزول مسیح بھی انہی نشانیوں میں شامل ہے۔ فرمایا فلا تمترن بھا پس تم قیامت کے بارے میں شک میں نہ پڑو واتبعون اور میری بات کو مانو۔ ھذا صراط مستقیم یہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین ۔ قیامت پر ایمان اور نزول مسیح کو قیامت کی علامت کے طور پر ماننا ہر اہل ایمان کے عقیدے میں داخل ہے یہی سیدھا راستہ ہے جس شخص نے اس عقیدے کے خلاف کیا وہ راہ رسات سے ٹھیک گیا۔ قادیانیوں کا باطل عقیدہ حیات مسیح (علیہ السلام) کے سلسلے میں قادیانیوں نے بہت دجل کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ فوت ہوچکے ہیں اور جن احادیث میں نزول مسیح کا ذکر صراحتاً موجود ہے ان کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ ان احادیث میں مذکورہ مسیح سے مراد مٹیل مسیح ہے جو مرزا غلام احمد کی صورت میں آ چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) روح مع الجسد دوسرے آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر نزول فرمائیں گے اور یہاں پر عدل و انصاف قائم کریں گے۔ جن احادیث میں نزول مسیح کا ذکر آیا ہے وہ تواتر کا درجہ رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان میں کسی قسم کا شک یا تاویل کی کوئی گنجا ئش نہیں۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری نے اس موضوع پر کتاب لکھی ہے۔ معقیدۃ السلام فی حیات عیسیٰ (علیہ السلام) عربی زبان میں ایک ضخیک کتاب ہے جس میں تمام متعلقہ احادیث کو جمع کردیا گیا ہے جس سے مسئلہ بالکل واضح ہوجاتا ہے بہرحال یہاں پر علم سے مراد وہ چیز ہے جس کے ذریعے قرب قیامت کا پتہ چلتا ہے اور مراد اس سے علامت اور نشانی ہے۔ شیطانی حملہ سے بچائو فرمایا سیدھا راستہ توہ وہی ہے جو ایمان ، توحید اور نیکی کا راستہ ہے۔ ولا یصدنکم الشیطن اور شیطان تمہیں اس راستہ سے کہیں روک نہ دے تمہیں عقیدہ قیامت سے متزلزل نہ کر دے۔ انہ لکم عدومبین بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ وہ ہمیشہ انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لوگوں کا عقیدہ خراب کرتا ہے۔ شک ڈالتا ہے ، لہٰذا اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
Top