Bayan-ul-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب (قرآن میں) ابن ِمریم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اس پر آپ کی قوم چلانے ّلگتی ہے
آیت 57 { وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ } ”اور جب قرآن میں ابن ِمریم کی مثال بیان کی جاتی ہے تو اس پر آپ کی قوم چلانے ّلگتی ہے۔“ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر مشرکین ِمکہ ّکی چیخ و پکار ایک تو سورة الانبیاء کی اس آیت کے حوالے سے تھی : { اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَط اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ۔ } ”یقینا تم لوگ اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ‘ سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ تمہیں اس میں پہنچ کر رہنا ہے“۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ کے سوا جتنے معبود لوگوں نے بنا رکھے ہیں اگر وہ سب جہنم کا ایندھن بنیں گے تو پھر عیسیٰ علیہ السلام ٰ بھی تو ان ہی میں شامل ہوں گے ‘ کیونکہ انہیں بھی تو دنیا میں پوجا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ کے مقابلے میں اگر فرشتوں ‘ اللہ کے مقرب بندوں ‘ ِجنات ّاور ُ بتوں وغیرہ کی پرستش کی گئی ہے تو جہنم میں جھونکے جانے کا مصداق ملائکہ ‘ انبیاء اور اولیاء اللہ تو نہیں ٹھہرتے۔ ظاہر ہے جو باطل ہوگا وہی جہنم میں جھونکا جائے گا۔ البتہ مشرکین مکہ اسی دلیل کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر شدت کے ساتھ چیخنا چلانا شروع کردیتے تھے۔ دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذکر پر مشرکین مکہ کے مخصوص رد عمل کا باعث ان کا حضور ﷺ کے بارے میں یہ موقف بھی تھا کہ آپ ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کی تعریف و توصیف کے پردے میں نصرانیت کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ جس طرح ہم لات و ُ عزیٰ ّوغیرہ کی پوجا کرتے ہیں اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کو پوجتے ہیں۔ تو ایسا کیوں ہے کہ عیسائیوں کے معبود کی تو آپ ﷺ تعریف کرتے ہیں اور ہمارے معبودوں کی مذمت ؟ اس وجہ سے وہ لوگ حضور ﷺ پر عیسائیت کو قبول کرلینے اور عیسائیت کی تبلیغ کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔ بلکہ جب مکہ میں مسلمانوں نے نماز پڑھنا شروع کی تو مشرکین ِمکہ ّنے حضور ﷺ اور مسلمانوں پر یہ الزام بھی لگادیا کہ یہ لوگ ”صابی“ ہوگئے ہیں۔ صابی لوگ عراق میں آباد تھے اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے پیروکاروں کی نسل میں سے تھے۔ اگرچہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اصل دین کو تو بگاڑ دیا تھا لیکن ”نماز“ کسی نہ کسی شکل میں ان کے ہاں موجود تھی۔ چناچہ نماز کی اس مشابہت کے باعث مشرکین مکہ نے حضور ﷺ پر صابی ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ بہر حال مذکورہ دو وجوہات کی بنا پر مشرکین مکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ٰ کے ذکر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔
Top