Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب ابن مریم کی مثال دی جاتی ہے تو تمہاری قوم کے لوگ اس پر چیخنے لگتے ہیں
-6 آگے آیات 65-57 کا مضمون جس مقصد سے اوپر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی سرگزشتیں سنائی گی ہیں اسی مقصد کی تائید کے لئے آگے حضرت عیسیٰ ؑ کی سرگزشت کا بھی ایک حصہ اجمالاً بیان ہوا ہے کہ انہوں نے بھی اللہ کی توحید ہی ہی کی دعوت دی لیکن ان کی پیروی کے مدعی مبتدعین نے ان کی صریح تعلیمات کے خلاف بدعتیں ایجاد کر کے ان کو ابن اللہ بنا کر رکھ دیا۔ اس سرگزشت کا آغاز اس تمہید سے فرمایا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ ؑ کا نام لیا جاتا ہے تو قریش کے جھگڑا لو لوگ یہ فتنہ اٹھاتے ہیں کہ یہ شخص عیسیٰ کی تعریف کرتا ہے، حالانکہ عیسیٰ سے اچھے تو ہمارے ہی معبود ہیں کہ وہ فرشتے اور خدا کی بیٹیاں ہیں جب کہ عیسیٰ ؑ مریم (علیہا السلام) کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے بیوقوف پیروئوں پر یہ اثر ڈالنا چاہتے ہیں کہ قرآن جو ان کا ذکر خیر کرتا ہے تو گویا عیسائیوں کی طرح ان کو ابن اللہ تسلیم کر کے ان کی بندگی کی دعوت دیتا ہے حالانکہ قرآن ان کا ذکر اللہ کے ایک بندے او اس کے ایک رسول کی حیثیت سے کرتا ہے کہ انہوں نے بھی اسی توحید کی دعوت دی جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی لیکن یہ شریر اور مناظرہ باز لوگ سدیھی سادی باتوں کو بھی فتنہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں … اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ -7 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت ولما ضرب ابن مریم ثلاً اذا قومک منہ یصدون، وقالوآء الھتنا خیر ام ھو ماضربوہ لک الاجدلا بل ھم قوم خصمون (58-57) قریش کے شریروں کی ایک فتنہ انگیزی یعنی جب تمہاری قوم کے سامنے انبیاء کے سلسلے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی دعوت کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایسی دین توحید کے داعی بن کر آئے جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی تو تمہاری قوم کے جھگڑالو مجردان کے نام کے ذکر ہی کو فتنہ بنا لیتے اور چیخنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ لو، یہ شخص ہمارے بتوں کو تو برا کہتا ہے لیکن مسیح کی تعریف کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے معبود فرشتے ہیں اور مسیح بہرحال مریم کے بیٹے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن حضرت عیسیٰ کا ذکر کرتا ہے تو گویا ایک معبود کی حیثیت سے کرتا ہے اور یہ ایک سازش ہے اس غرض کے لئے کہ ہمارے ذہنوں سے ہمارے آبائی دیوتائوں کی عقیدت ختم کر کے ان کی جگہ مسیح کی الوہیت کا عقیدہ راسخ کیا جائے۔ ماضربوہ لک الاجدلا، بل ھم قوم خصمون فرمایا کہ یہ اشغلہ انہوں نے محض بحث و جلال کے لئے چھوڑا ہے ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن حضرت مسیح کا ذکر کرتا ہے تو معبود کی حیثیت سے نہیں بلکہ اللہ کے ایک بندے اور ایک رسول کی حیثیت سے کرتا ہے کہ دوسرے نبیوں اور رسولوں کی طرح انہوں نے بھی خلق کو توحید ہی کی تعلیم دی۔ یہ سب جانتے ہوئے انہوں نے محض اس لئے یہ فتنہ اٹھایا ہے کہ قرآن اور نبی کی مخالفت کے لئے کوئی بہانہ ان کو ملے اور وہ لوگوں کو بھڑکا سکیں کہ یہ شخص ہمارے آبائی دین کو مٹا کر ہمارے اوپر مسیحیت کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ ہیں ہی جھڑالو، یہ شاخسانہ انہوں نے اتفاق سے نہیں کھڑا کیا ہے بلکہ فتنہ پردازی و شر انگیزی ان کے قومی مزاج کی خصوصیت بن چکی ہے۔ یہ امر ہیاں واضح رہے کہ قریش کے جھگڑالو لیڈروں نے اسی طرح کا فتنہ اسم رحمان کی آڑلے کر اٹھانے کی کوشش کی تھی جس کی وضاحت ہم سورة بنی اسرائیل کی آیت قل ادعوا اللہ اوادعوا الرحمن …110 کے تحت کرچکے ہیں اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم رحمان سے قریش ناواقف نہیں تھے لیکن اس کا غالب استعمال چونکہ اہل کتاب، بالخصوص نصاریٰ کے ہاں تھا، اس وجہ سے انہوں نے اپنی قوم کو یہ کہہ کر بھڑکا یا کہ یہ شخص دوسروں کے عقائد و نظریات ہمارے اوپر مسلط کرنا چاہتا ہے اور اس کے ثبوت میں انہوں نے ذلیل یہ دی کہ جو صحیفہ یہ شخ پیش کر رہا ہے اس میں لفظ رحمان کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح کی باتوں کی آڑ لے کر مشرکین یہ بھی کہتے تھے کہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ہیں جو اس شخص کو سکھاتے ہیں اور مقصود اس سازش کا ہمارے دین اور ہماری روایات کو مٹانا ہے۔ بدگمانی کی فضا میں اس طرح کے اشغلے بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ عوام کے ذہن بالکل خام ہوتے ہیں۔ وہ بڑی آسانی سے اس طرح کی باتیں قبول کرلیتے ہیں اور جب قبول کرلیتے ہیں تو ان کو ذہنوں سے نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ صدمن الشی کے معنی ہوتے ہیں کسی شے سے بیزار ہو کر چیخ اٹھنا کسی بات سے خوش ہو کر شور و غل کرنے کے لئے اس لفظ کا استعمال معروف نہیں ہے۔
Top