Dure-Mansoor - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب ان کے سامنے ابن مریم کے متعلق ایک عجیب مضمون بیان کیا گیا تو اچانک آپ کی قوم کے لوگ اس کی وجہ سے چیخ رہے ہیں
1:۔ احمد وابن ابی حاتم (رح) والطبرانی (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جس کی عبادت کی جائے اس میں کوئی خیر نہیں تو انہوں نے کہا کیا آپ یہ گمان نہیں کرتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ نے نبی اور اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک بندے تھے اور نصاری نے ان کی عبادت کی اگر آپ سچے ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان کے بتوں کی طرح ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت ) ” ولما ضرب ابن مریم مثلا اذا قومک منہ یصدون “ (اور جب ابن مریم کے متعلق عجیب مضمون بیان کیا گیا تو یکایک آپ کی قوم والے اس سے (مارے خوشی کے چلانے لگے) (آیت ) ” یصدون “ سے مراد ہے کہ چیختے چلاتے ہیں (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ (اور وہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے علم کا ذریعہ ہے) یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے۔ 2:۔ عبدالرزاق وابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا تو قریش نے شور مچا دیا اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ نے جو عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے (اور) محمد ﷺ نے نہیں ارادہ کیا مگر اس بات کا کہ ہم ان کے ساتھ ایسا ہی کریں جیسے نصاری نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کیا تو اللہ تعاولیٰ نے فرمایا (آیت ) ” ماضربوہ لک الاجدلا “ (ان لوگوں نے جو مضمون بیان کیا ہے وہ محض جھگڑے کی وجہ سے ہے) 3:۔ عبدالرزاق (رح) وفریابی (رح) و سعید بن منصور (رح) وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ اس کو یوں پڑھتے تھے (آیت ) ” یصدون “ صاد کے کسرہ کے ساتھ یعنی وہ شور مچاتے تھے۔ 4:۔ عبدالرزاق (رح) وعبد بن حمید (رح) نے ابو عبد الرحمن سلمی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت ) ” یصدون “ سے مراد ہے کہ وہ اعراض کرتے ہیں۔ 5:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) نے سعید بن معید بن ابی عبید بن عمیر للثی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ سے ابن عباس ؓ نے فرمایا کیا ہے تیرے چچا کو کہ وہ اس آیت کو یوں پڑھا کرتے ہیں (آیت ) ” اذا قومک منہ یصدون ‘ اور یہ اس طرح نہیں ہے بلکہ وہ اس طرح ہے (آیت ) ” اذا قومک منہ یصدون ‘ یعنی جب وہ ہجو کرتے ہیں اور شور مچاتے ہیں۔ 6:۔ عبد بن حمید (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اذا قومک منہ یصدون ‘ یعنی وہ شور مچاتے ہیں۔ 7:۔ عبد بن حمید (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” اذا قومک منہ یصدون ‘ یعنی وہ شور مچاتے ہیں۔ 8:۔ عبد بن حمید (رح) نے مجاہد حسن (رح) اور قتادہ ؓ تینوں حضرات نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 9:۔ ابن مردویہ (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا (آیت ) ” یصدون “ کسرہ کے ساتھ۔ 10:۔ سعید بن منصور (رح) احمد وعبد بن حمید و ترمذی (رح) (وصححہ) وابن ماجہ وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) والطبرانی (رح) وحاکم (رح) (وصححہ) وابن مردویہ (رح) والبیہقی نے شعب الایمان میں ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ ہدایت جب پر لوگ قائم تھے اس سے وہ گمراہ نہیں ہوئے مگر وہ جھگڑے میں پڑگئے پھر (آیت) پڑھی ” ما ضربوہ لک الا جدلا “ 11:۔ ابن ابی حاتم نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ کوئی امت اپنی نبی کے بعد گمراہ نہیں ہوتی مگر ان کو جھگڑوں میں ڈال دیا گیا پھر (آیت) پڑھی ” ما ضربوہ لک الا جدلا “۔ 12:۔ سعید بن منصور (رح) نے ابو ادریس خولانی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی قوم نے فتنہ کو نہیں بھڑکایا مگر ان کو جھگڑے میں ڈال دیا گیا اور کوئی فتنہ میں خوشی میں نہیں آتی مگر وہ اس کے لئے پناہ گاہ بن گئے۔ 13:۔ ابن عدی والخرائطی نے مساوی الاخلاق میں ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ نفاق کے درمیان میں سے ایک دروازہ ہے اور نفاق کی نشانی یہ ہے کہ آدمی جھگڑالوبن جائے۔ 14:۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرآن میں ذکر کیا گیا تو مکہ کے مشرکین نے کہا کہ (کیا محمد ﷺ ارادہ کرتے ہیں کہ ہم ان سے ایسی محبت کریں جیسے نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) سے محبت کرتے ہیں تو (اس پر) فرمایا (آیت ) ” ما ضربوہ لک الا جدلا “ (ان لوگوں نے جو یہ مضمون بیان کیا ہے وہ محض جھگڑے کی وجہ سے ہے) یعنی انہوں نے یہ بات نہیں کہی مگر جھگڑنے کے لئے (آیت ) ” ان ھوالا عبد انعمنا علیہ “ ( عیسیٰ (علیہ السلام) تو محض ایک بندے ہیں جن پر ہم نے انعام فرمایا (آیت ) ” جعلنہ مثلا “ اور ہم نے ان کو نشانی بنادیا (آیت ) ” لبنی اسرآئیل “ (بنی اسرائیل کے لئے) (آیت ) ” ولونشآء لجعلنا منکم مآئکۃ فی الارض یخلفون “ (اور اگر ہم چاہتے تو ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے کہ وہ زمین پر یکے بعددیگرے رہا کرتے) یعنی وہ فرشتے ایک دوسرے کی نیابت کرتے آدم کے بیٹے کی جگہ۔ تمام معبود ان باطلہ جہنم میں ہوں گے : 15:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ان سے کہا آپ بتائیے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے وہاں کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا آگ میں انہوں نے سورج اور چاند (بھی) فرمایا ہاں سورج اور چاند (بھی آگ میں ہوں گے) پھر انہوں نے کہا سورج اور چاند (بھی) فرمایا ہاں سورج اور چاند (بھی آگ میں ہوں گے) پھر انہوں کہا عیسیٰ بن مریم (کہاں ہوں گے ؟ ) تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتاری ” ان ھو الا عبد انعمنا علیہ وجعلنہ مثلا لبنی اسر آ ء یل “ ( عیسیٰ تو محض ایک بندے ہیں جن پر ہم نے فضل کیا تھا اور بنی اسرائیل کے لئے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنایا تھا ) ۔ 16:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لجعلنا منکم ملئکۃ فی الارض یخلفون “ (البتہ ہم تم سے فرشتوں کو پیدا کردیتے ہیں کردیتے ہیں وہ زمین میں یکے بعد دیگرے رہا کرتے) یعنی وہ فرشتے تمہارے جگہ میں زمین کو آباد کرتے۔ 17:۔ وفریابی (رح) و سعید بن منصورومسدد وعبد بن حمید وابن ابی حاتم والطبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ (اور وہ عیسیٰ البتہ قیامت کی نشانی ہے) یعنی قیامت کے دن سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری ہوگی۔ 18:۔ عبد بن حمید (رح) نے ابوہریرہ ؓ سے (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کا تشریف لانا اور وہ زمین میں چالیس سال رہیں گے ان چالیس سالوں میں چار سال ایسے ہوں گے جن میں وہ حج اور عمرہ ادا کریں گے۔ 19:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ سے مراد ہے قیامت کے دن سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کا تشریف لانا قیامت کی نشانی ہے۔ 20:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ سے مراد ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کا نازل ہونا۔ 21:۔ عبد الرزاق وعبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ سے مراد ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا نازل ہونا قیامت کی نشانی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن نشانی ہے قیامت کے لئے۔ 22:۔ عبد بن حمید (رح) نے شیبان (رح) سے روایت کیا کہ حسن (رح) فرماتے تھے (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ سے مراد ہے قرآن۔ 23:۔ عبد بن حمید (رح) نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا (آیت ) ” وانہ لعلم للساعۃ “ علم عین کے کسرہ کے ساتھ اور اس سے مراد ہے قرآن۔ 24:۔ عبد بن حمید (رح) نے حماد بن سلمہ (رح) سے روایت کیا کہ ابی ؓ کے صحف میں یوں پڑھا (آیت ) ” وانہ لذکر للساعۃ “۔ 25:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وان تعلم للساعۃ “ سے مراد ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کا نازل ہونا۔ 26:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولابین لکم بعض الذی تختلفون فیہ “ (تاکہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کرتے ہو تم سے کھول کر بیان کردوں) جو تم تورات میں تبدیلی میں تبدیلی کے متعلق اختلاف کرتے ہو۔
Top