Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ
: اور جب بیان کیا گیا
ابْنُ مَرْيَمَ
: مریم کے بیٹے کو
مَثَلًا
: بطور مثال
اِذَا قَوْمُكَ
: اچانک تیری قوم
مِنْهُ يَصِدُّوْنَ
: اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جونہی کہ ابن مریم کی مثال دی گئی ، تمہاری قوم کے لوگوں نے اس پر غل مچادیا
درس نمبر 233 ایک نظر میں یہ اس سورت کا آخری سبق ہے اور اس کا موضوع بھی عربوں کے افسانوی عقائد ہیں ، یہ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ، اس لیے ہم ان کی بندگی کرتے ہیں ، یہاں ایک استدلال نقل کیا جاتا ہے جو مشرکین مکہ اپنے واہی تباہی عقائد کی مدافعت میں پیش کیا کرتے تھے۔ یہ استدلال وہ اس نیت سے نہ کرتے تھے کہ وہ سچائی کے متلاشی تھے ، یہ محض دکھاوا اور دھوکہ تھا۔ جب ان سے کہا گیا کہ تم اور جن بتوں کی تم بندگی کرتے ہو ، وہ جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ مراد تو یہ تھی کہ جن بتوں کی پوجا کرتے ہو ، خواہ وہ فرشتوں کے نام سے ہیں یا کسی اور کے نام کے۔ مراد یہ نہ تھی کہ جن کے نام سے تم بتوں کو منسوب کرتے ہو ، وہ بھی جہنم میں ہوں گے۔ غرض ان سے جب یہ کہا گیا کہ عابدو معبود دونوں جہنم میں ہوں گے۔ جب ان سے یہ کہا گیا تو بعض لوگوں نے عیسیٰ ابن مریم کی مثال دی کہ بعض گمراہ عیسائی ان کی بندگی کرتے تھے۔ یہ ان کی طرف سے محض ایک کج بحثی تھی۔ پھر وہ کہتے تھے کہ جب اہل کتاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بندگی کرتے ہیں تو ان سے ہم بہتر ہیں کہ ہم فرشتوں کی بندگی کرتے ہیں۔ یہ استدلال بناء الباطل علی الباطل کی بہترین مثال تھا۔ اس بنا پر یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی ایک کڑی لائی جاتی ہے۔ اس میں بتایا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت کیا ہے۔ آپ کی دعوت کیا تھی۔ اور ان سے پہلے بنی اسرائیل میں کیا اختلافات تھے اور ان کے بعد کیا اختلافات پیدا ہوئے۔ اس کے بعد تمام بد عقیدہ اور مشرکانہ خیالات رکھنے والوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اچانک قیامت آجائے گی اور پھر حالت کیا ہوگی ؟ اس کے بعد قیامت کے مناظر میں سے ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے جس میں ایک جھلک ان نعمتوں کی ہے جو متقین کے لئے تیار کی گئی ہیں اور ایک جھلک اس دردناک عذاب کی ہے جو مجرمین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس سبق میں فرشتوں کے بارے میں عربوں کے اس افسانے کو بھی رد کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ پاک ان باتوں سے بری ہے جو یہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس مناسب سے اللہ کی بعض صفات کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ زمین و آسمان اور دنیا و آخرت کا مطلق مالک ہے اور سب لوگوں نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اور آخر میں حضور اکرم ﷺ کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ ان کو نظر انداز کردیں ، ان سے منہ پھیر لیں اور ان کو کرتے دیں جو کرتے ہیں۔ عنقریب ان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا اور یہ ایک ایسی بالواسطہ دھمکی ہے جو ان لوگوں کے لئے مناسبت ہے جو محض دکھاوے کے لئے کٹ حجتی کرنے میں ، احقاق حق کے لئے بات نہیں کرتے۔ ٭٭٭ درس نمبر 233 تشریح آیات 57 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 89 آیت نمبر 57 تا 65 ابن اسحاق نے سیرۃ میں لکھا ہے کہ جس طرح مجھ تک یہ بات پہنچی ، حضور اکرم ﷺ حرم میں ولید ابن مغیرہ کے پاس بیٹھے تھے ، نضر ابن الحارث بھی آیا اور وہ بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ مجلس میں قریش کے کئی اور لوگ بھی بیٹھے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ بات کی۔ نضر ابن حارث نے کچھ اعتراض کیا ، تو حضور ﷺ نے اس کو خاموش کرا دیا۔ اس کے بعد ان پر یہ آیت پڑھی۔ انکم وما تعبدون ۔۔۔۔۔۔ لھا واردون (21 : 98) ” تم اور جن بتوں کو تم پوجا کرتے ہو ، جہنم کا ایندھن ہیں۔ تم اس جہنم میں پہنچنے والے ہو۔۔۔۔ “۔ رسول اللہ ﷺ اس مجلس سے اٹھ گئے اور عبد اللہ ابن الزیعری تمیمی آیا اور مجلس میں بیٹھ گیا تو ولید ابن مغیرہ نے کہا : ” خدا کی قسم نضر ابن الحارث کا کھڑا ہونا تھا کہ عبد المطلب کے بیٹے اٹھ کر چلے گئے۔ محمد ﷺ کا خیال یہ ہے کہ ہم اور ہمارے سب معبود جہنم کا ایندھن ہیں۔ اس پر عبد اللہ ابن الزیعری نے کہا ، خدا کی قسم اگر مجھے ملے تو میں اس کے ساتھ جھگڑا کروں گا۔ تم محمد ﷺ سے پوچھو کیا وہ تمام معبود جن کی عبادت کی جاتی ہے ، اپنے عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔ ہم تو ملائکہ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہودی عزیر کی عبادت کرتے ہیں اور نصاریٰ مسیح ابن مریم کی عبادت کرتے ہیں تو ولید اور اہل مجلس ، عبد اللہ ابن زیعری کی بات سے بےحد متاثر ہوئے۔ انہوں نے سمجھا کہ اس نے خوب دلیل پیش کی اور مباحثہ کیا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے سامنے ذکر ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا :” جس نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ اللہ کے سوا پوجا جائے تو بیشک وہ ان لوگوں کے ساتھ جہنم میں ہوگا جنہوں نے اسے پوجا۔ یہ لوگ دراصل شیطان کی عبادت کرتے ہیں جس نے ان کو ان بزرگوں کی بندگی کا حکم دیا ہے “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان الذین سبقت ۔۔۔۔۔ مبعدون (21 : 101) ” رہے وہ لوگ جن کے بارے میں ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہوگا تو وہ یقیناً اس سے دور رکھے جائیں گے “۔ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ پوجے جانے والے دوسرے احبار اور رہبان ۔ جو اللہ کی عبادت پر قائم رہے اور ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کی عبادت شروع کردی اور ان کو ارباب من دون اللہ بنا دیا۔ اور یہ جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے سلسلے میں بات کی گئی کہ ان کو بھی من دون اللہ عبادت کی جاتی ہے اور ولید اور دوسرے اہل مجلس اس سے متاثر ہوئے تو اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ولما ضرب ۔۔۔۔۔۔۔ منہ یصدون (43 : 57) ” جب ان مریم کی مثال دی گئی تو تمہاری قوم نے اچانک غل مچا دیا “۔ یصدون کے معنی ہیں یصدون عن امرک یعنی تمہاری دعوت سے روکتے رہیں۔۔۔۔ “۔ علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کے سامنے یہ آیت پڑھی انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم (21 : 98) ” تم اور تمہارے معبود جہنم کا ایندھن ہوں گے اور سب نے اس میں جانا ہے “۔ تو اس پر اہل قریش سخت برہم ہوئے ۔ عبد اللہ ابن زیعری نے پوچھا محمد ، یہ حکم صرف ہمارے معبدوں اور ہمارے بارے میں ہے یا دوسری ملتوں کے بارے بھی ہے ۔ آپ نے فرمایا ” یہ تمہارے لیے تمہارے الہوں کے لئے اور تمام اقوام کے لئے ہے “۔ تو اس نے کہا ، رب کعبہ کی قسم میں نے تمہیں شکست دے دی۔ کیا تم یقین نہیں کرتے کہ عیسیٰ ابن مریم نبی ہیں اور تم ان کے اور ان کی والدہ کے بارے میں اچھی باتیں کرتے ہو ، اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ نصاری ان کی عبادت کرتے ہیں اور عزیر کی بھی یہودی بندگی کرتے ہیں ، ملائکہ کی بھی بندگی کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب لوگگ جہنم میں خاموش ہو تو اپنے الہوں کے ساتھ جہنم میں جانے کے لئے تیار ہیں۔ اس پر وہ بہت ہنسے اور خوش ہوئے ۔ حضور ﷺ خاموش ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نال بات ہوئی : ان الذین سبقت لھم منا الحسنی (21 : 101) ” رہے وہ لوگ جن کے بارے میں ہمارے طرف سے بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہوگا “۔ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ جب عبد اللہ ابن الزیعری نے عیسیٰ بن مریم کی مثال دی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مباحثہ کیا کہ نصاریٰ بھی تو عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں تو اچانک تمہاری قوم اہل قریش نے شوروغل مچانا شروع کردیا۔ اور یہ انہوں نے اس لیے کیا کہ وہ اس دلیل پر بہت خوش ہوئے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو زیعری نے خاموش کردیا تھا۔ جس طرح بعض اوقات بےدلیل لوگ جب بحث میں ہار جاتے ہیں اور اچانک ان کو کوئی دلیل مل جاتی ہے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ لفظ یصدون کے معنی تو ہیں شور کرنا۔ لیکن جنہوں نے اسے یصدون (حرف صاد پر پیش کے ساتھ ) پڑھا ہے تو اس کے معنی ہوں گے کہ وہ حق سے منہ موڑتے ہیں ، اعراض کرتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یصدون الصدید سے ہے جس کے معنی مقابلہ اور کٹ جانے کے ہیں۔ یصدون اور یصدون دونوں طرح آتا ہے جس طرح یعکف اور یعکف آتا ہے۔ وقالواء الھتنا خیر ام ھو (43 : 57) ” ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ”۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تمہارے نزدیک ہمارے الٰہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے اچھے اور بہتر نہیں ؟ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) جہنم کا ایندھن ہیں تو پھر ہمارے الہٰوں کا معاملہ آسان ہے۔ یہ تھی صاحب کشاف کی روایت ، معلوم نہیں انہوں نے کس سے اخذ کی ہے لیکن اپنے عمومی مضمون میں یہ ابن اسحاق کی روایت کے ساتھ متفق ہے۔ دونوں روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس جدل وجدال میں محض ظاہری اور لفظی کج بحثی سے کام لیتے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کہتا ہے۔ بل ھم قوم خصمون (43 : 58) ” حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ “ ۔ یہ جھگڑتے ہیں اور تنقید کرنے میں بہت ماہر ہیں ، مناظرہ باز ہیں۔ ان کو پہلے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ار رسول اللہ ﷺ کی مراد کیا ، اس کے بعد وہ مفہوم کو توڑ مروڑ کر اپنی مراد پر لاتے ہیں اور پھر اعتراض کرتے ہیں اور الفاظ کے عموم کو لے کر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ ان کے اندر وہ پورے قرآن کی تعلیمات سے خود اختصاص پیدا کرسکتے تھے اور اس قسم کے عمومی اعتراضات وہی عائد کرتا ہے جو مخلص نہ ہو اور پوری طرح چالاک ہو ، جس کی سوچ درست نہ ہو ، مکابرہ کرنے والا ہو اور ہر وقت شبہات ، الفاظ کے ہیر پھیر اور کسی جگہ پر نقب زنی کرنے کا متلاشی ہو۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ نے ہمیشہ ایسی گفتگو سے منع فرمایا ہے جس میں محض دکھاوا ہو ، حقیقت نہ ہو ، اور جس میں صاحب کلام ہر صورت میں کلام ہر صورت میں اپنی بات کو غالب کرنا چاہتا ہو۔ ابن جریر نے ، ابو کریب سے انہوں نے احمد ابن عبد الرحمٰن سے انہوں نے عبادہ ابن عبادہ سے انہوں نے جعفر سے انہوں نے قاسم سے اور انہوں نے حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے اور لوگ قرآن کریم میں مباحثہ اور مناظرہ کر رہے تھے۔ آپ کو بہت شدید غصہ آیا۔ گویا آپ کے چہرۂ مبارک پر سرکہ ڈال دیا گیا ہو۔ (ترشہ روئی کا اظہار کیا) اس کے بعد آپ نے فرمایا ” قرآن کے بعض حصوں کو بعض دوسرے حصوں سے نہ ٹکراؤ، کیونکہ لوگ گمراہ تب ہوئے جب ان کے اندر مذہبی جھگڑے اور اختلافات شروع ہوگئے “۔ اس کے بعد آپ نے پڑھا۔ ما ضربوہ لک الا جدلا بل ھم قوم خصمون (43 : 58) ” یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لئے لائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہی جھگڑالو لوگ ہیں “۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا احتمال بھی ہے۔ وقالواء الھتنا خیر ام ھو (43 : 57) ” اور وہ کہنے لگے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ؟ “ میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے افسانوی عقائد کے مطابق وہ ملائکہ کی پوجا کرتے تھے ان کا خیال یہ تھا کہ ان کی یہ پوجا نصاریٰ کی جانب سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوجا سے بہتر ہے۔ کیونکہ ملائکہ اپنے مزاج کے اعتبار سے اور ان کے افسانوی خیال کی رو سے خدا کے زیادہ قریب ہیں۔ اس پر یہ تبصرہ ۔ ما ضربوہ لک الا جدلا بل ھم قوم خصمون (43 : 58) ” یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لئے لائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت ہی جھگڑالو لوگ ہیں “۔ اور جس طرح پہلے گزرا یہ ابن الزیعری پر رد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصاریٰ کی عبادت مسیح کی مثال لانا یہاں باطل ہے۔ نصاریٰ کا عمل حجت نہیں ہے کیونکہ وہ تو توحید سے پھرگئے ہیں جس طرح مشرکین توحید سے پھرگئے ہیں۔ لہٰذا دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے سب گمراہ ہیں۔ بعض مفسرین نے اس طرف اشارہ کیا ہے اور یہ بھی ایک قریب الفہم تفسیر ہو سکتی ہے۔ اور اس کے بعد حضرت عیسٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جامع تبصرہ ۔ ان ھو الا عبد انعمنا علیہ وجعلنہ مثلا لبنی اسرائیل (43 : 59) ” ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لئے اسے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا “۔ اور وہ الٰہ نہیں جس کی عبادت کی جائے ، جس طرح نصاریٰ کا ایک گروہ گمراہ ہوا اور اس نے ان کی بندگی شروع کردی۔ وہ تو ایک بندۂ خدا ہیں ان پر اللہ کا انعام ہوگیا ، اور اگر بعض لوگوں نے ان کی بندگی کی ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ان کو رسالت اور معجزات دے کر بنی اسرائیل کے لئے نمونہ قدرت الٰہیہ بنا گیا گیا تھا اور بنی اسرائیل کو چاہئے تھا کہ وہ ان کی پیروی کرتے اور ہدایت حاصل کرتے مگر وہ گمراہ ہوگئے۔ اب بات ان کے عقائد بابت ملائکہ کے موضوع کی طرف آتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فرشتے تو تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس زمین میں تمہارا جانشین فرشتوں کو بنا دیں یا بعض لوگوں کو فرشتے بنا دیں جو زمین میں جانشین ہوجائیں۔ ولو نشاء ۔۔۔۔۔ یخلفون (43 : 50) ” اگر اللہ چاہتا تو ملائکہ کو تمہارا خلیفہ بنا دیتا “ ۔ یہ سارے معاملات اللہ کی مشیت پر موقوف ہیں۔ اپنی مخلوق کے بارے میں جو چاہے ، کر دے لیکن مخلوق میں سے کوئی اللہ سے نسب نہیں جوڑ سکتا۔ اور نہ اللہ سے مل سکتا ہے سوائے خالق و مخلوق کے تعلق سے یا عہد و معبود کے تعلق سے یا غلام اور مالک کے تعلق سے۔ اس کے بعد کچھ فیصلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق کہ وہ ایک تو قیامت کی نشانی ہیں۔ اس قیامت کی جس کی یہ تکذیب کرتے ہیں یا ان کو اس کے آنے میں شک ہے۔ وانہ لعلم ۔۔۔۔۔۔ صراط مستقیم (43 : 61) ولا یصدنکم ۔۔۔۔۔۔ مبین (43 : 62) ” اور ابن مریم دراصل قیامت کا علم ہے بس تم اس میں شک نہ کرو ، اور میری بات مان لو۔ یہی سیدھا راستہ ہے ، ایسانہ ہو کہ شیطان تم کو اس سے روک دے ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے “۔ قیامت سے قبل نزول عیسیٰ (علیہ السلام) کے موضوع پر کئی احادیث آئی ہیں۔ یہ قیامت سے قدرے پہلے زمین پر اتریں گے۔ اور اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے۔ وانہ لعلم للساعۃ (43 : 61) ” اور وہ قیامت کا علم ہے “۔ یعنی ان کے آنے سے قرب قیامت کا علم ہوجائے گا اور دوسری قرات یہ ہے۔ وانہ لعلم للساعۃ (43 : 61) ” اور وہ قیامت کی نشانی ہے “ ۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریب ہے کہ تمہارے اندر ابن مریم بطور ایک منصف حاکم نازل ہوں ، وہ صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کردیں گے ، لوگوں پر جزیہ عائد کریں گے اور مال تقسیم کریں گے یہاں تک کہ کوئی لینے والا نہ ہوگا ، حالت یہ ہوگی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا (متفق علیہ ، ابو داؤد ، مالک) ۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک حق پر لڑتا رہے گا اور قیامت تک غالب رہے گا یہاں تک کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے ، مسلمانوں کے امیر ان سے کہیں گے ، آپ ہمیں نماز پڑھائیں ، وہ کہیں گے ، نہیں۔ تم میں سے بعض بعض کے امراء ہوں گے ، اللہ نے اس امت کو یہ اعزاز بخشا ہے “۔ (مسلم ) یہ ایک غیب ہے ، اور اس کی اطلاع ہمیں صادق و امین ﷺ نے دی ہے اور اس طرف قرآن کریم نے بھی اشارہ کیا ہے ، لہٰذا اس بات میں کوئی انسان کوئی اور بات نہیں کرسکتا صرف وہی بات حق ہے جو ان دو سچے ذرائع سے آئی ہے اور ہمارے لیے سچے مصادر قیامت تک یہی ہیں۔ فلا تمترن بھا واتبعون ھذا صراط مستقیم (43 : 61) ” پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مانو ، یہی سیدھا راستہ ہے “۔ یہ لوگ قیامت میں شک کرتے تھے۔ قرآن کریم انہیں دعوت دیتا ہے کہ اس پر یقین کرو ، حضور اکرم ﷺ کی زبانی ان کو دعوت یقین دی جاتی ہے کہ تم میری اطاعت کرو اور میں تمہیں سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ جو بالکل سیدھا اور منزل مقصود تک پہنچنے والا ہے۔ اور اس پر چلنے والے کبھی گمراہ نہیں ہوتے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہوجاتے ہیں اور راندۂ درگاہ ہوتے ہیں ، وہ شیطان کے اثر سے ہوتے ہیں ، لہٰذا شیطان کے مقابلے میں رسول اللہ ﷺ زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ آپ کی اطاعت کی جائے۔ ولا یصدنکم الشیطن انہ لکم عدو مبین (63 : 62) ” ایسا نہ ہو کہ شیطان تم کو اس سے روک دے ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے “۔ قرآن کریم اس مسلسل معرکہ کی طرف بار بار اشارہ کرتا ہے جو اولاد آدم اور شیطان کے درمیان حضرت آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے جاری ہے۔ یہ معرکہ جنت سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ اور اس شخص سے بڑا احمق اور غافل اور کون ہوسکتا ہے جسے بار بار متنبہ کیا جائے کہ گھات میں دشمن بیٹھا ہے اور اس نے تمہارا ارادہ کر رکھا ہے اور یہ شخص اس کے برعکس دشمن کا مطیع فرمان بن جائے۔ اسلام نے تو انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں شیطان کے خلاف اس دوامی جنگ میں برسر پیکار رہے اور اس کے ساتھ اس قدر عظیم مال غنیمت کا وعدہ کیا ہے جو کسی بشر کے تصور سے باہر ہے۔ اسلام نے انسانی جنگ کا رخ اس معرکہ خیر و شر کی طرف پھیر دیا جس کی وجہ سے انسان صحیح انسان بنتا ہے اور جس کی وجہ سے تمام مخلوقات میں سے انسان کو ایک ممتاز مخلوق بنایا گیا ہے اور ایک خاص مزاج دیا گیا ہے اور یہاں انسان کا سب سے بڑ انصب العین یہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کھلے دشمن شیطان پر غالب آجائے ، یوں وہ شر ، خباثت اور ہر قسم کی گندگی پر غالب آجائے اور زمین میں خیر کی بنیادیں رکھ دے جن میں لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوں گے اور پاکیزہ زندگی گزاریں گے۔ اس نصیحت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مزید معلومات کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے تھے اور ان سے پہلے نبی اسرائیل کے باہم اختلافات کیا تھا اور بعد میں کیا ہوتا رہا۔ ولما جاء عیسیٰ ۔۔۔۔۔۔ واطیعون (43 : 63) ان اللہ ھو ۔۔۔۔۔۔ صراط مستقیم (43 : 64) فاختلف الاحزاب ۔۔۔۔ یوم الیم (43 : 65) ” اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں اختلاف کر رہے ہو ، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا بھی۔ اس کی تم عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے مگر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ پس تباہی ہے ان لوگوں لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب کی “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں کے سامنے واضح نشانیاں لے کر آئے تھے۔ یہ نشانیاں وہ معجزات بھی تھے جس صدور آپ کے ہاتھوں پر ہوا۔ اور وہ کلمات اور تقاریر بھی تھیں جو آپ نے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے کیں۔ آپ نے اپنی قوم سے کہا : قد جئتکم بالحکمۃ (43 : 63) ” میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں “ اور جسے حکمت دی گئی وہ گویا خیر کثیر کا مالک بن گیا ۔ وہ لغزش اور بےراہ روی سے امن میں ہوگیا۔ تفریط اور تقصیر سے محفوظ ہوگیا ۔ اور صحیح راستے پر اس کے قدم نہایت ہی توازن اور روشنی میں اٹھنے لگے اور آپ ان کے پاس اس لیے بھی خصوصی طور پر آئے تھے کہ اس وقت مذہبی گروہوں میں جو بہت بڑا تفرقہ پیدا ہوگیا تھا آپ اسے دور کریں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ان کے فقہاء نے بےحد اختلاف شروع کردیا تھا۔ وہ فرقے فرقے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے۔ آپ نے قوم کو اس طرف بلایا کہ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور آپ نے عقیدۂ توحید تو بڑی وضاحت ، بلاریب اور بغیر کسی التباس اور پیچیدگی کے بیان کیا۔ ان اللہ ھو ربی وربکم فاعبدوہ (43 : 64) ” بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے لہٰذا اسی کی بندگی کرو “ نہ آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ الٰہ ہیں اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ آپ ابن اللہ ہیں اور آپ نے اپنے کلام میں کسی جگہ ماسوائے تعلق رب اور بندہ اور خالق و مخلوق ، اللہ کے ساتھ کسی اور تعلق کا اشارہ تک نہیں کیا۔ صرف یہی کہا کہ میں رسول ہوں ، صراط مستقیم دے کر بھیجا گیا ہوں ، جس میں کوئی ٹیٹرھ نہیں ہے ، نہ کوئی پھسلن ہے اور نہ کج روی۔ لیکن جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آئے وہ بھی اسی طرح ٹکڑے اور پارٹیاں بن گئے جس طرح آپ سے پہلے کے لوگ ٹکڑے اور پارٹیاں تھے۔ یہ اختلاف انہوں نے محض ظلم کرتے ہوئے کئے ، اختلافات کے لئے نہ کوئی جواز تھا ، اور نہ شبہ تھا۔ فویل للذین ظلموا من عذاب یوم الیم (43 : 65) ” پس تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب کی “۔ حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کی رسالت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔ اس دور میں بنی اسرائیل رومیوں کے غلام تھے ، ان کو انتظار تھا کہ نجات دہندہ آئے گا اور ہمیں چھڑائے گا لیکن جب وہ آیا تو انہوں نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا اور اس کی دشمنی پر اتر آئے اور انہوں نے اسے سولی پر چڑھانے کی سعی کی۔ جب آپ تشریف لائے تو اس وقت بنی اسرائیل ٹکڑے ٹکڑے تھے ، اہم فرقے چار تھے : 1۔ صدوقی فرقہ : یہ صدوق کی طرف منسوب تھے ، وہ اور اس کے خاندان کے لوگ ہیکل سلیمانی کے کاہن تھے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہما السلام) کے زمانے سے وہ اس منصب پر تھے۔ شریعت کے مطابق ضروری تھا کہ ان کا نسب ہارون (علیہ السلام) تک پہنچے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی پیغمبر تھے کیونکہ ہارون (علیہ السلام) کی اولاد ہی ہیکل کی متولی تھی۔ یہ لوگ اپنے فرائض کے مطابق عبادات کی ظاہری صورت پر بہت زور دیتے تھے۔ اور کسی قسم کی بدعت کے سخت مخالف تھے جبکہ اپنی شخصی زندگی میں بہت عیاش تھے اور زندگی کے مزے لیتے تھے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ قیامت نہیں ہے۔ 2۔ فرسیوں کا فرقہ : یہ صدوقیوں کے سخت خلاف تھے۔ ان کو اعتراض یہ تھا کہ یہ لوگ مذہبی رسومات اور عبادات کی ظاہری شکل پر بہت زور دیتے ہیں اور قیامت اور حساب و کتاب کے منکر ہیں۔ یہ نہایت ہی متقی اور صوفی قسم کے لوگ تھے۔ اگرچہ بعض کے اوپر علمی غرور چھایا ہوا تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا علمی غرور پسند نہ تھا۔ نیز آپ کو ان کی لفاظی بھی پسند نہ تھی۔ 3۔ تیسرا فرقہ سامریوں کا تھا : یہ فرقہ یہودیوں اور اشوریوں پر مشتمل تھا۔ اور یہ عہد قدیمہ کی صرف پانچ کتابوں کو مانتا تھا۔ باقی کتب کو بعد کے اضافے سمجھتا تھا۔ یہ پانچ کتابیں موسوی کتب کے نام سے مشہور ہیں جبکہ دوسرے فرقے ساری کتب کو مانتے تھے۔ 4۔ ان کو آسین یا اسینین کہتے تھے۔ یہ لوگ بعض فلسفیانہ افکار سے متاثر تھے۔ اور یہ لوگ دوسرے فرقوں سے علیحدہ رہتے تھے۔ اور اپنے آپ کو نہایت سختی اور تقشف میں رکھتے تھے اور ان کی جماعت بھی تنظیم میں بہت سخت تھی۔ ان چار مشہور فرقوں کے علاوہ بھی بہت سے انفرادی فرقے تھے۔ غرض بنی اسرائیل کے اندر نظریات اور طرز عمل کا سخت اختلاف و انتشار تھا۔ جن پر رومی شہنشاہیت کا سخت دباؤ تھا۔ اور پوری قوم سخت ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ یہ منظر تھا جس میں ایک نجات دہندہ کی پیشین گوئی کتابوں کی گئی تھی کہ وہ آئے گا اور ہمیں نجات دلائے گا۔ جب حضرت مسیح عقیدۂ توحید کے ساتھ بھیجے گئے اور انہوں نے اعلان کردیا۔ ان اللہ ھو ربی وربکم فاعبدوہ (43 : 63) ” کہ اللہ میرا بھی رب ہے ، اور تمہارا بھی رب ہے ، لہٰذا اس کی عبادت کرو “۔ اور اس کے ساتھ انہوں نے ایسی شریعت پیش کی جس میں رواداری اور روحانی اصلاح پر اور عبادات کی ظاہری صورت کی بجائے عبادات کے روحانی پہلو پر زور دیا گیا تھا تو ان فقہاء اور فرسیوں نے آپ کا مقابلہ کیا کیونکہ یہ لوگ عبادات کی ظاہری شکلوں ہی پر زور دیتے تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا ، ان میں سے آپ کے بعض اقوال نہایت ہی موثر ہیں مثلاً ” یہ لوگ بڑے بڑے بھاری بوجھ باندھتے ہیں اور لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں اور خود اپنی انگلی بھی آگے نہیں بڑھاتے کہ اس بوجھ کو جگہ سے ہلا دیں۔ وہ جو کام بھی کرتے ہیں ، اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ اسے دیکھیں۔ اور اپنے کپڑوں کے دامن لمبے کرتے ہیں اور دعوتوں میں اول مقام پر بیٹھتے ہیں اور جلسوں میں پہلی جگہ پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں اور بازاروں میں پھر کر سلام وصول کرتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ انہیں پکارا جائے ، ” سیدی سیدی “ کہ کر جہاں بھی وہ جائیں “۔ اور فرسیوں اور فقیہوں سے کہتے ہیں ” اے اندھے قائدین ! تم مچھر چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو ، تم پیالے اور تھالی کے ظاہری حصے کو خوب صاف کرتے ہو لیکن ان کے اندر گندگی اور بدکاری ہوتی ہے ، اے لکھنے والے مفتیان کرام اور دھاوا کرنے والے فقہاء ، تمہاری مثال یوں ہے جس طرح ایک چونا گچ کی سفید قبر ، جس کا ظاہری حصہ خوبصورت اور ملمع شدہ ہے اور اندر بوسیدہ ہڈیاں ہیں “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان کلمات کو پڑھو اور خود اپنے دور کے علماء اور مفتیان کرام کو دیکھو ، کیا یہی الفاظ ان پر صادق نہیں آتے ، دین کی تحریف کرنے والے ، رسومات کے پجاری ، ظاہر پرست اور دکھاوا کرنے والے۔ اس کے بعد حضرت مسیح اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ اس طرح آپ کے پیرو کاروں کے اندر اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہ اس طرح فرقے فرقے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ بعض نے خود ان کو الٰہ بنا دیا۔ بعض نے اللہ کا بیٹا بنا لیا۔ بعض نے ثالث ثلاثہ کہا اور وہ کلمہ توحید ان سے گم ہوگیا جس کی دعوت لے کر آپ اس لیے تشریف لائے تھے کہ یہ لوگ اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں اور دین اللہ کے لئے خالص کردیں۔ فاختلف الاحزاب ۔۔۔۔۔۔ یوم الیم (43 : 65) ” مگر گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا پس تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ظلم کیا ایک دردناک عذاب کے دن کی “۔ مشرکین عرب آئے اور انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مجادلہ شروع کردیا۔ اس وجہ سے کہ پیروکار ان مسیح نے آپ کے بعد گل کھلائے تھے اور آپ کے بارے میں بیشمار افسانے گھڑ لیے تھے۔ ٭٭٭
Top