Jawahir-ul-Quran - Az-Zukhruf : 57
وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ یَصِدُّوْنَ
وَلَمَّا ضُرِبَ : اور جب بیان کیا گیا ابْنُ مَرْيَمَ : مریم کے بیٹے کو مَثَلًا : بطور مثال اِذَا قَوْمُكَ : اچانک تیری قوم مِنْهُ يَصِدُّوْنَ : اس سے تالیاں بجاتی ہے۔ چلاتی ہے
اور جب مثال لائے مریم کے بیٹے کی35 تبہی قوم تیری اس سے چلانے لگتے ہیں
35:۔ ” ولما ضرب ابن مریم مثلا “ تا ” من عذاب یوم الیم “ ” یصدون “ یصیحون و یضحکون (بحر، جلالین) ۔ یعنی شور مچاتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ جب عیسیٰ ابن مریم کی مثال بیان کی جاتی ہے، تو آپ کی قوم یعنی مشرکین قریش مارے خوشی کے آپ سے باہر ہوجاتے ہیں ہنستے اور شور مچاتے ہیں۔ ان آیتوں کا ماقبل سے ربط چار طرح پر ہے۔ سب سے زیادہ مناسب شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) کا قول ہے، کیونکہ اس کے مطابق اس آیت کا ماقبل سے ربط واضح تر ہے۔” واسئل من ارسلنا من قبلک الخ “ سے ثابت ہوگیا کہ کسی پیغمبر کی شریعت میں غیر اللہ کی عبادت کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبود (لائق عبادت) نہیں۔ اس پر مشرکین نے اعتراض کیا کہ نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کی پرستش کرتے ہیں، اگر حقیقت میں وہ بھی عبادت کے لائق نہیں تھے، جیسا کہ ہمارے معبودوں کے بارے میں تم کہتے ہو تو ہم راضی ہیں کہ ہمارے معبود اور عیسیٰ (علیہ السلام) ایک ہی جگہ میں ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے شب ہے کا ازالہ فرمایا (فتح الرحمن) ۔ جواب شبہہ آگے آرہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عبادت کا کسی کو حکم نہیں دیا تھا، بعد میں باغیوں نے ان کی عبادت کا کسی کو حکم نہیں دیا تھا، بعد میں باغیوں نے ان کی عبادت شروع کردی۔ دوم یہ ہے کہ جب آیت ” انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم انتم لھا واردون “ (انبیاء رکوع 7) نازل ہوئی، تو عبداللہ بن الزبعری نے کہا اگر یہ صحیح ہے کہ تمام معبود غیر اللہ بھی جہنم میں جائیں گے، تو نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کی اور یہود عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں تو کیا وہ بھی دوزخ میں جائیں گے ؟ اس تمثیل پر مشرکین بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ (علیہ السلام) اور اگر عیسیٰ عمبود ہونے کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے (عیاذا باللہ) تو ہمارے معبود اگر جہنم میں چلے گئے تو کوئی بات نہیں ہمیں منظور ہے ای الھتنا خیر عندک ام عیسیٰ علیہ السلام، فان کان فی النار تلتکن الھتنا معہ (بیضاوی) ۔ اس کا جواب سورة انبیاء کی محولہ بالا آیات کے متصل بعد ہی مذکور ہے کما مر ملاحظہ ہو تفسیر سورة انبیاء کی محولہ بالا آیات کے متصل بعد ہی مذکور ہے کما مر ملاحظہ ہو تفسیر سورة انبیا ص 725 حاشیہ 71 ۔ مشرکین نے یہ تمثیل حق سمجھنے اور حق و باطل میں تمیز کرنے کے لیے نہیں بیان کی، بلکہ محض جدال و مخاصمت کی غرض سے بیان کی ہے اور یہ لوگ ہیں ہی نہایت جھگڑالو۔ ” ان ھو الا عبد الخ “ عیسیٰ (علیہ السلام) ہمارے نہایت ہی عظیم المرتبت رفیع المنزلت بندے ہیں جن پر بڑے بڑے احسانات اور ان کو بغیر باپ پیدا کر کے بنی اسرائیل کے لیے ان کی ذات کو ایک اعجوبہ روزگار اور ضرب المثل بنا دیا مگر اس کے باوجود وہ معبودیت کے مستحق نہیں۔ تھے فھو مرفوع المنزلۃ علی القدر لکن لیس لہ من استحقاق المعبودیۃ من نصیب (روح ج 25 ص 93) ۔ سوم مشرکین کہتے ہیں ہم تو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہمارے معبود فرشتے ہیں تو کیا ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ ؟ اتو اگر وہ معبود اور ابن اللہ ہوسکتا ہے تو ہمارے معبود بطریق اولی خدا کی بیٹیاں ہیں۔ اٰلھتنا الملائکۃ خیر ام عیسیٰ (علیہ السلام) فاذا جاز ان یعبدو یکون ابن اللہ کانت الھتنا اولی بذلک (بیضاوی) اس کا جواب دیا گیا کہ ” ول نشاء لجعلنا۔ الایۃ “ یعنی فرشتہ ہونا یا فرشتوں کے بعض آثار کا حامل ہونا تو معبود ہونے کی کوئی دلیل نہیں اگر ہم چاہیں تو تمہیں ہلاک کر کے زمین میں تمہاری جگہ فرشتے پیدا کردیں۔ ” منکم “ بدلکم (مدارک) ۔ اس صورت میں یہ تخویف دنیوی ہے یا اگر چاہیں تو تمہاری نسل سے فرشتے پیدا کردیں۔ موضح قرآن میں ” یعنی عیسیٰ میں آثار فرشتوں کے سے تھے، اس سے معبود نہیں ہوتا، اگر چاہیں تمہاری نسل سے ایسے لوگ پیدا کیریں “ لجعلنا منکم ای لخلقنا منکم ای من الانس (مظیر ج 8 ص 359) ۔ فرشتے بھی چونکہ مخلوق ہی ہیں، اس لیے معبود نہیں ہوسکتے۔ چہارم شاہ عبدالقادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں۔ مشرکین نبی کریم ﷺ سے کہتے کہ تم ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہو، لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے تو ان کو خوبی سے یاد کرتے ہو حالانکہ لوگ (انصاری) ان کی بھی پوجا کرتے ہیں۔ اس کا جواب دیا گیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا وہ تو توحید ہی کی تعلیم دیتے تھے اور قابل مذمت وہ معبود ہے جو اپنی عبادت آپ کرائے۔
Top