Baseerat-e-Quran - At-Tawba : 53
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ١ؕ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو طَوْعًا : خوشی سے اَوْ : یا كَرْهًا : ناخوشی سے لَّنْ يُّتَقَبَّلَ : ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْكُمْ : تم سے اِنَّكُمْ : بشیک تم كُنْتُمْ : تم ہو قَوْمًا : قوم فٰسِقِيْنَ : فاسق (جمع)
آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ تم خوشی سے خرچ کرو یا زبردستی، اللہ تمہارے کسی خرچ کو قبول نہ کرے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نافرمان قوم ہو۔
لغات القرآن آیت نمبر 53 تا 57 طوعاً (خوشی سے) کرھا (زبردستی) لن یتقبل (ہرگز قبول نہ کیا جائے گا) لایاتون (وہ نہیں آتے) کسالی (سستی کرنے والے) لاینفقون (وہ خرچ نہیں کرتے) کرھون (زبردستی) لاتعجبک (تجھے حیرت میں نہ ڈالے) تزھق (وہ نکالے) یحلفون (وہ قسم کھاتے ہیں) قوم یفرقون (وہ لوگ جو ڈرتے ہیں) یجدون (وہ پائیں گے) ملجا (ٹھکانا) مغرت (غار) مدخل (داخل ہونے کی جگہ، گھسنے کی جگہ ) یجمحون (سرکشی کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 53 تا 57 خطاب کا رخ ان منافقین کی طرف ہے جو جہاد میں جسم و جان کھپانے کو تیار نہ تھے البتہ دنیا دکھاوے اور اپنی لاج رکھنے کے لئے کچھ چندہ کے طور پر رقم دے کر یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے لئے فرمایا کہ تمہارا یہ مال قبول نہیں ہوگا چونکہ تم لوگ فاسق یعنی نافرمان ہو اور تمہارا شمار کافروں میں ہے فرمایا کہ تمہارا مال اس لئے قوبل نہیں ہے کہ تمہارا عمل اس کے برخلاف ہے جو تم زبان سے کہتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر فرمایا کہ تمہاری نمازیں، کاہلی اور سستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اس میں خوش دلی کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ کوئی تاوان اور جرمانہ ادا کر رہے ہو۔ مال اور اولاد کی کثرت نے انہیں اس خوشی فہمی میں مبتلا کردیا ہے کہ یہ کوئی بہت برگزیدہ اور نیک لوگ ہیں حالانکہ اللہ نے ان کی بدعملی کی وجہ سے ان کے مال اور ان کی اولاد دوں کو ان کے لئے عذاب کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ ان چیزوں کی کثرت حالت کفر میں زحمت اور حالت ایمان میں رحمت ہے۔ کافر مال سمیٹنے جمع رکھنے حفاظت کرنے ، مزید پیدا کرنے اور ان کی نمائش میں اتنا مبتلا رہتا ہے کہ وہ نہ حرام دیکھتا ہے نہ حلال نہ اسے فکر آخرت کی ذہنی فرصت ہے نہ وہ اللہ کے کام میں اسکو خرچ کرتا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ وہ عذاب در عذاب کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے جب وہ مرتا ہے تو کافر رہ کر ہی مرتا ہے اور حسرت و افسوس کے ساتھ اپنا سارا مال و متاع یہیں چھوڑ کرجاتا ہے۔ یہ لوگ منافق کیوں بنے ؟ فرمایا کہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مدینہ چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے جب مدینہ میں دین اسلام کی دشمن روشن ہوئی اور وہاں اس دین نے قدم جمائے تو انہیں اپنے مال و متاع کی خیر و عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بن جائیں۔ اب دین اسلام کی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھ دیکھ کر وہ اس حد تک بدحواس ہوتے جا رہے ہیں کہ اگر ان کو کوئی بھی چھپنے کی جگہ مل جائے تو وہ پہلی فرصت میں بھاگ جائیں گے۔
Top