Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 53
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ١ؕ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو طَوْعًا : خوشی سے اَوْ : یا كَرْهًا : ناخوشی سے لَّنْ يُّتَقَبَّلَ : ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْكُمْ : تم سے اِنَّكُمْ : بشیک تم كُنْتُمْ : تم ہو قَوْمًا : قوم فٰسِقِيْنَ : فاسق (جمع)
ان سے کہہ دیجیے ! تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا بیشک تم ایک نافرمان قوم ہو۔
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْکَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلُ مِنْکُمْ ط اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ وَمَا مَنَعَھُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْھُمْ ز نَفَقٰـتُھُمْ اِلَّا اَنَّھُمْ کَفَرُوْابِاللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَا یَاْ تُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَھُمْ کُسَالٰی وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّاوَھُمْ کٰرِھُوْنَ ( التوبۃ : 53، 54) (ان سے کہہ دیجیے ! تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا بیشک تم ایک نافرمان قوم ہو۔ یہ اپنے انفاق کی قبولیت سے صرف اس لیے محروم ہوئے کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر سست سست اور وہ خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ وہ ناخوش ہوتے ہیں۔ ) سابقہ آیات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ منافق حقیقت میں اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین مخالف ہیں لیکن مسلمان معاشرہ میں گھرے ہونے اور اسلامی حکومت کے زیر نگین رہنے کی وجہ سے مجبور ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے اسلام اور مسلمانوں سے اپنے تعلق کا اس طرح اظہار کریں کہ مسلمان انھیں اپنے میں سے سمجھیں۔ جنگ کا موقع آتا تو جھوٹے بہانے بنا کر پیچھے رہنے کی کوشش کرتے لیکن یہ دکھانے کے لیے کہ ہم مخلص مسلمان ہیں آگے بڑھ کر انفاق کی کوشش کرتے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں ان سے پوری طرح قطع تعلق اور اظہارِ نفرت وکراہت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیغمبر ان سے کہہ دیجیے ! تم مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اور اپنے اسلام کے اظہار کے لیے خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ بعض روایات میں جد بن قیس کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے کہ دوسرے منافقین کی طرح وہ بھی چندہ لے کر حاضر ہوا لیکن آنحضرت ﷺ نے قبول کرنے سے انکار فرمادیا۔ اس لیے کہ اسلام کی سربلندی کے لیے چندہ بھی اسی کا قبول کیا جاسکتا ہے جو اسلام کے بارے میں مخلص ہو۔ جو شخص ایک طرف تو اسلام کی جڑ کاٹے اور دوسری طرف اپنے تعلق کی بقا کے لیے مالی تعاون کرے تو یہ سراسر ایک فریب اور دھوکہ ہے جسے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے لیکن ہماری خود فریبی کا عالم یہ ہے کہ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ انھیں ہمارا وجود بھی گوار انھیں ان کا بس چلے تو وہ اس ملک کو باقی نہ رہنے دیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم ان کی طرف سے ظاہری تعلق کے تمام مظاہر کو نہ صرف قدروقیمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ اعتماد بھی کرتے ہیں۔ ہمارا حال تو بس یہ ہے کہ : بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں انفاق قبول نہ کرنے کی وجہ دوسری آیت کریمہ میں منافقین کے انفاق کو قبول نہ کرنے کی وجہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ نے ان کے انفاق کو قبول کرنے سے اس لیے روکا ہے کہ وہ لوگ حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول کے منکر اور کافر ہیں۔ لیکن محض دکھاوے کے لیے وہ چندہ بھی دیتے ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن تم اگر غور سے ان کی نمازوں کو دیکھو تو تمہیں اندازہ ہوجائے کہ ان کی نماز مارے باندھے کی نماز ہے۔ جیسے آدمی اپنے سر سے کسی بیگارکو ٹالتا ہے اور اس لیے ادا کرتے ہیں تاکہ مسلمان دیکھ کر یقین کرلیں کہ وہ واقعی مسلمان ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ جب اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں تو کراہت اور ناخوشی سے خرچ کرتے ہیں دل کی آمادگی ساتھ نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو یقین آجائے کہ ہم بھی اسلام کی سربلندی اور اس کی نشرواشاعت کو عزیز رکھتے ہیں۔
Top