Al-Qurtubi - At-Tawba : 53
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ١ؕ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو طَوْعًا : خوشی سے اَوْ : یا كَرْهًا : ناخوشی سے لَّنْ يُّتَقَبَّلَ : ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْكُمْ : تم سے اِنَّكُمْ : بشیک تم كُنْتُمْ : تم ہو قَوْمًا : قوم فٰسِقِيْنَ : فاسق (جمع)
کہہ دو کہ تم (مال) خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔ تم نافرمان لوگ ہو۔
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت جد بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی جب اس نے یہ کہا : مجھے گھر بیٹھے رہنے کی اجازت عطا فرمادیجئے اور یہ میرا مال ہے میں اس کے ساتھ آپ کی اعانت کروں گا۔ اور انفقوا کا لفظ امر ہے اور اس کا معنی شرط اور جزا ہے۔ عرب اسی طرح اس معنی میں استعمال کرتے ہیں ‘ وہ او کے ساتھ لاتے ہیں ‘ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : أسیٔ بنا أو أحسنی لا ملومۃ لدینا ولا مقلیۃ ان تقلت اور اس کا معنی ہے ان أسات أو أحسنت فنحن علی ما تععر فین ( اگر تو نے گناہ کیا یا نیکی کی پس ہم اسی حال پر ہیں جس پر تو جانتی ہیں) اور آیت کا معنی ہے : ان أنفقتم طائعین أومکرھین فلن یقبل منکم ( اگر تم خرچ کرو گے خوشی سے یا نا خوشی سے وہ ہر گز تم سے قبول نہیں کیا جائے گا) پھر اللہ تعالیٰ نے وضاحت بیان فرمائی کہ ان سے کیوں نہیں قبول کیا جائے گا ؟ تو ارشاد فرمایا : ومامنعھم انتقبل منھم نفقتھم الا انھم کفروا با للہ و برسولہ (اور نہیں منع کیا ہے انہیں کہ قبول کیے جائیں ان سے ان کے اخراجات سوائے اس کے کہ انہوں نے کفر کیا اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ) پس اس بارے میں واضح ترین دلیل یہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ اس بنا پر ہے کہ کافر کے افعال جب نیکی اور خیر کے ہوں مثلا رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا ‘ ٹوٹے ہوئے کو جوڑنا اور مظلموم کی مدد کرنا وغیرہ ان پر ثواب نہیں دیا جائے گا اور نہ آخرت میں اسے ان سے کوئی نفع حاصل ہوگا ‘ مگر یہ کہ دنیا میں ان کے عوض اسے رزق اور نعمتوں سے نوازا جاتا ہے ‘ اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے امام مسلم (رح) نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے آپ فرماتی ہیں : میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ﷺ ابن جدعان دور جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا ‘ تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” وہ اسے نفع نہیں دے گا ‘ بیشک اس نے ایک دن بھی نہیں کہا : اے میرے رب ! قیامت کے دن میرے گناہوں کی مغفرت فرما دے “۔ اور حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ کسی مومن ظلم نہیں کرے گا اس کی نیکی کا اجر اسے دنیا میں بھی عطا فرمایا جائے گا اور آخرت میں بھی اس کے بدلے اسے جزادی جائے گی۔ اور رہا کافر تو دنیا میں اس نے جو نیک اعمال کیے ان کے بدلے دنیا میں اسے اجر عطا کیا جاتا ہے مگر جب وہ آخرت میں جا پہنچے گا تو اس کے لیے کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جس کی اسے جزا دی جائے “ اور یہ نص ہے۔ پھر کہا گیا ہے : کیا اس سچے وعدہ کے حکم کے مطابق ضروری ہے کہ وہ کافر کو عطا کرے اور دنیا میں اس کی نیکیوں کا بدلہ اسے دے یا یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ مقید ہے جس کا ذکر اس ارشاد میں کیا گیا ہے : عجلنا لہ فیھا ما نشآء لمن نرید (الاسرائ :18) (ہم جلدی دے دیتے ہیں اس دنیا میں جتنا چاہتے ہیں ( ان میں سے) جسے چاہتے ہیں) ۔ دونوں قولوں میں سے یہی صحیح ہے ‘ واللہ اعلم کافر سے صادر ہونے والے عمل کو نیکی کا نام دینا بلاشبہ یہ کافر کے ظن اور گمان کے مطابق ہے ورنہ اس سے قربت کا حاصل ہونا صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ شرط جو اسے صحیح قرار دیتی ہے وہ موجود نہیں ہے اور وہ ایمان ہے۔ یا پھر اسے حسنہ (نیکی) کا نام دیا گیا ہے ‘ کیونکہ وہ صورئۃ اور ظاہراً مومن کی نیکی کے مشابہ ہوتی ہے اس میں بھی دو قول ہیں۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ پس اگر کہا جائے : امام مسلم نے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ کا ان امور کے بارے کیا خیال ہے جو عبادت ‘ صدقہ ‘ غلام کو آزاد کرنے یا صلہ رحمی وغیرہ میں زمانہ جاہلیت میں کرتا تھا کیا ان کا اجرہو گا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تو ان پر ہی اسلام لایا ہے جو تو نے ماضی میں خیر کے اعمال کیے “۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا ارشاد : أسلمت علی ما أسلفتَ من خیر اس کا ظاہر اصول کے خلاف ہے ‘ کیونکہ کافر کو اس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا صحیح نہیں ہے کہ وہ اس کی طاعت و عبادت پر ثواب ہوجائے ‘ کیونکہ قرب حاصل کرنے والے کے لیے شرط ہے کہ وہ اسے پہچانتا ہو جس کے وہ قریب ہو رہا ہے ‘ پس جب شرط معدوم ہوگئی تو مشروط کے صحیح ہونے کی بھی نفی ہوگئی۔ پس حدیث میں معنی یہ ہے : بیشک تو نے جاہلیت میں حسین و جمیل مزاج اور طبیعت بنائی تو اسی اچھی اور خوبصورت عادت نے تجھے اسلام میں پہنچا دیا۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت حکیم ؓ ایک سو بیس برس تک زندہ رہے ‘ ساٹھ سال اسلام میں اور ساٹھ سال جاہلیت کی حالت میں رہے۔ پس آپ نے جاہلیت میں ایک سو غلام آزاد کیے اور سو اونٹوں پر سوار کیا ؟ اور اسی طرح آپ نے اسلام میں بھی کیا اور یہ بالکل واضح ہے۔ تحقیق کہ کا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بعید نہیں ہے کہ وہ اسے اس کے اس فعل پر ثواب عطا فرمائے جو اس نے اسلام کے سبب کیا ‘ جیسا کہ وہ اس سے ان گناہوں کو ساقط کردیتا ہے جن کا ارتکاب اس نے حلت کفر میں کیا۔ اور بلاشبہ اسے اجرو ثواب نہیں دیا جائے گا جو نہاسلام لیوا ہو نہ اس نے توبہ کی اور حالت کفر میں ہی مرگیا۔ اور یہ حدیث کا ظاہراً معنی ہے اور یہی صحیح ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ نیکی اور خیر کا جو عمل وہ کرتا ہے اس پر ثواب نہ ہونے کا سبب ایمان کی شرط کا نہ پایا جانا نہیں ہے ‘ پھر وہ اسلام لایا اور مسلمان ہونے کی حالت میں ہی فوت ہوا شرط عقلی کے مطابق وہ تبدیل نہ ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ کرمی ہے کہ وہ اس کا عمل ضائع کردے جب کہ اس کا اسلام حسین ہو۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی وجو دو عطا اور کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کا عمل ضائع نہ کرے جب کہ اس کا اسلام حسین اور خوبصورت ہو) حربی نے حدیث کی اس معنی پر تاویل کی ہے اور کہا ہے : أسلمت علی ما اسلفت یعنی تو نے جو پہلے نیکی اور خیر کے اعمال کیے ہیں پس وہ تیرے لیے ہی ہیں جیسا کہ آپ کہتے ہیں : أسلمت علی ألف درھم تو اسلام لایا ہزار درہم کی شرط پر یعنی اس شرط پر کہ اس نے اپنے لیے انہیں محفوظ کرلیا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ پس اگر کہا جائے کہ امام مسلم (رح) نے حضرت عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ﷺ ۔ بیشک ابو طالب آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کی مدد و نصرت کرتے تھے ‘ تو کیا اس کا انہیں کوئی نفع اور فائدہ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں ‘ میں نے انہیں آگ کی شدت اور سختی میں پایا تو میں نے انہیں تھوڑی آگ کی طرف نکال دیا “۔ آپ کو عرض کی گئی : بعید نہیں ہے کہ وہ کافر سے اس کے عمل خیر کے بدلے عذاب میں تخفیف کردے ‘ لیکن شفاعت ملنے اور حاصل ہونے کے ساتھ جیسا کہ ابو طالب کے بارے میں آیا ہے ‘ لیکن رہا اس کے بغیر تو قرآن کریم نے اپنے اس قول کے ساتھ خبردی ہے : فما تنفھم شفعاعۃ الشفعین۔ (المدثر) (پس انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی شفاعت کرنے والوں کی شفاعت) اور کافروں کے بارے خبر دیتے ہوئے فرمایا : فما لنا من شافعین۔ ولاصدیق حمیم۔ (الشعرائ) تو (آجض نہیں ہے ہمارا کوئی سفارشی اور نہ کوئی غم خوار دوست) امام مسلم (رح) نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ان کے چچا حضرت ابو طالب کا ذکر کیا گیا۔ تو آپ نے فرمایا : ” شاید قیامت کے دن میری شفاعت انہیں فائدہ اور نفع دے گی پس انہیں تھوڑی سی آگ میں رکھا جائے گا جو ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھول جائے گا “۔ اور حضرت عباس ؓ کی حدیث میں ہے :” اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے درک اسفل میں ہوتے “۔ قولہ تعالیٰ : انکم کنتم قوما فسقین اس میں فاسقین سے مراد کافرین ہیں۔
Top