Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tawba : 53
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ١ؕ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو طَوْعًا : خوشی سے اَوْ : یا كَرْهًا : ناخوشی سے لَّنْ يُّتَقَبَّلَ : ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْكُمْ : تم سے اِنَّكُمْ : بشیک تم كُنْتُمْ : تم ہو قَوْمًا : قوم فٰسِقِيْنَ : فاسق (جمع)
کہہ دو کہ تم (مال) خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔ تم نافرمان لوگ ہو۔
53۔ 54۔ تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ بنی سلمہ کے سردار جدبن قیس منافق نے تبوک کی لڑائی میں جانے سے جب یہ عذر پیش کیا کہ وہاں جاکر میں خوبصورت عورتوں کے فتنہ میں پڑجاؤں گا اس عذر کے ساتھ اس نے دنیا سازی کے طور پر یہ بھی کہا تھا کہ اس لڑائی میں کچھ روپے کی ضرورت ہو تو میں مدد دے سکتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی اور فرما دیا کہ جب ان لوگون کا عقیدہ ہی درست نہیں ہے تو ان کی کوئی عبادت مالی یا بدنی مقبول نہیں اس واسطے ان کا مدد خرچ ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا طبرانی کے حوالہ سے معتبر سند کی انس بن مالک ؓ کی روایت ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن سر بمہر اعمال نامے جب اللہ تعالیٰ کے روبرو کھولے جائیں گے تو ان میں سے بعض عمل اللہ تعالیٰ کے حکم سے باطل ٹھہرائے جاویں گے اس پر فرشتے عرض کریں گے یا اللہ ان عملوں میں کیا خرابی ہے اللہ تعالیٰ فرماوے گا یہ عمل خالص دل سے نہیں کئے گئے اس لئے بیکار ہیں منافقوں کے عملوں کے علاوہ اگر آدمی منافق نہ ہو لیکن اس کے نیک عملوں میں ریا کاری کا میل ہو تو تھوڑی ریا کاری سے بھی جو عمل کیا جاوے حدیث میں اس کو شرک فرمایا ہے چناچہ بیہقی اور مستدرک حاکم کی معاذبن جبل ؓ کی روایت میں اس کا ذکر ہے خالص نیت سے تنکا پہاڑ کے بڑا ہے اور بغیر خالص نیت کے پہاڑ تنکے سے بھی کم سے حاصل کلام یہ ہے کہ منا فقوں کے دل میں دین کی باتوں کی طرف سے شک وشبہ رہتا ہے اور ریا کاروں کے دل میں دنیا کے دکھاوے میں تو وہی عمل مقبول ہے جو خوش اعتقادی کے ساتھ خالص نیت سے شریعت کے موافق ہو۔
Top