Bayan-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیسے ہدایت دے گا اللہ ان لوگوں کو جو ایمان کے بعد کافر ہوگئے ؟ اور انہوں نے گواہی دی کہ یہ رسول حق ہیں اور ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں بھی آچکی ہیں اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا
آیت 86 کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ یعنی ان کے دل ایمان لے آئے تھے ‘ ان پر حقیقت منکشف ہوگئی تھی ‘ لیکن دنیوی مصلحتیں آڑے آگئیں اور زبان سے انکار کردیا۔ جیسے سورة النمل میں ہم پڑھیں گے : وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط آیت 14 انہوں نے ظلم اور تکبر کے مارے ان معجزات کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ وَشَہِدُوْآ اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ اہل کتاب جب آپس میں باتیں کرتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ واقعتا نبی آخر الزمان ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کردہ پیشینگوئیوں کا مصداق ہیں۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ علقمہ کے دو بیٹے ابوحارثہ اور کرز جب نجران سے مدینہ منورہ چلے آ رہے تھے تو راستے میں کرز کے گھوڑے کو کہیں ٹھوکر لگی تو اس نے کہا : تَعِسَ الْاَبْعَدُ ہلاک ہوجائے وہ دور والا یعنی جس کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ اس کا اشارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف تھا۔ اس پر اس کے بڑے بھائی ابوحارثہ نے کہا بَلْ تَعِسَتْ اُمُّکَ بلکہ تیری ماں ہلاک ہوجائے ! اس نے کہا میرے بھائی ! تمہیں میری بات اس قدر بری کیوں لگی ؟ ابوحارثہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یقیناً وہ وہی نبی امی ہیں جس کے ہم منتظر تھے۔ کرز نے کہا : جب آپ یہ سب جانتے ہیں تو ان پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ ابوحارثہ کہنے لگا : ان بادشاہوں نے ہمیں بڑا مقام و مرتبہ عطا کر رکھا ہے ‘ اگر ہم ایمان لے آئے تو وہ ہم سے یہ سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ لوگ سلطنت روما کے تحت تھے اور انہیں مصر کی حکومت کی طرف سے بڑی مراعات حاصل تھیں ‘ انہیں مال و دولت اور عزت و وجاہت حاصل تھی۔ ابھی یہ لوگ محمد عربی ﷺ سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو یہ حال تھا ‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کئی روز گزارنے کے بعد مباہلہ سے راہ فرار اختیار کر کے واپس جاتے ہوئے انہیں کس قدر یقین حاصل ہوگیا ہوگا کہ یہی وہ نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کے وہ منتظر تھے۔ ان کے دل گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول برحق ﷺ ہیں۔
Top