Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اللہ ان لوگوں کو کس طرح بامراد کرے گا جنہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا در آنحالیکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں اور ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں بھی آچکی ہیں اور اللہ ظالموں کو بامراد نہیں کرے گا۔
تفسیر آیت 86 تا 89: لفظ ”ہدایت“ کا خاص مفہوم : لفظ ’ ہدایت ‘ پر ہم بقرہ میں بحث کرچکے ہیں کہ اس کے تین مرحلے ہیں۔ آخری مرحلہ اس کا ہدایت آخرت کا ہے۔ اس مرحلہ میں غایت و مقصود کی طرف ہدایت ہوتی ہے اور بندہ اپنی مساعی کے ثمرہ سے بہرہ مند اور اپنی جدو جہد زندگی کے حاصل سے با مراد ہوتا ہے۔ ہدایت کا لفظ اس معنی میں بھی قرآن میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔ مجھے بار بار خیال ہوتا ہے کہ ’ یہدی ‘ اس آیت میں اسی معنی میں ہے۔ استاذ مرحوم اس سے ہدایت کا عام مفہوم ہی مراد لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہاں بنی اسرائیل کے لیے جس ہدایت کی نفی ہے وہ من حیث القوم ہے، من حیث الافراد نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو قوم ایسے شدید جرائم کی مرتکب ہوئی ہے اس کے لیے اسلام کی راہ کس طرح کھل سکتی ہے ! شَہِدُوْا میں شہادات سے مراد دل کی شہادت ہے کہ ان اہل کتاب کے دل مانتے ہیں کہ یہ رسول سچے ہیں۔ ان کی وہ نشانیاں جو ان پر ظاہر ہوئی ہیں وہ اس قدر واضح ہیں کہ ان کی صداقت پر ان کے دل گواہی دیتے ہیں لیکن محض ضد، تعصب اور حسد کے سبب سے اس کو جھٹلاتے ہیں۔ وَاللّٰهُ لَايَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ۔ یہ اوپر والی آیت کی توجیہ بیان ہوئی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کس طرح با مراد کرسکتا ہے جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا، جن کے پاس اس رسول کی صداقت کی کھلی ہوئی نشانیاں آچکی ہیں لیکن وہ ان کی تکذیب کر رہے ہیں، جن کے دل گواہی دیتے ہیں کہ یہ رسول برحق ہیں لیکن پھر بھی ان کی زبانیں اس کو جھٹلاتی ہیں ؟ ایسے لوگ اپنی فطرت، اپنی عقل اور اپنی روح پر بہت بڑا ظلم ڈھانے والے ہیں اور یہ سنت الٰہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بامراد نہیں کرتا جو خود اپنے ہوتھوں اپنے نشاناتِ راہ گم کریں اور اپنے آپ کو خود ٹھوکر کھلائیں۔ ایسے لوگوں کی سزا یہی ہے کہ ان پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور ساری خلقت کی لعنت ہو۔ ’ للناس ‘ کے ساتھ ’ اجمعین ‘ کی تاکید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ قیامت کے دن ان پر نیک اور بد سب ہی لعنت کریں گے۔ نیکوں کی لعنت کی وجہ تو واضح ہے، بد اس لیے لعنت کریں گے کہ وہ ان کے سبب سے گمراہ ہوئے۔ چناچہ قرآن میں تصریح ہے کہ قیامت کے دن گمراہ لیڈر اور ان کے گمراہ پیرو دونوں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ پیرو کہیں گے کہ تم نے ہمیں برباد کیا، اگر تم ہماری راہ نہ مارتے تو ہم ہدایت پر ہوتے۔ لیڈر کہیں گے ہم جیسے تھے ویسا ہی ہم نے تم کو بنایا، تم خود شامت زدہ تھے کہ تم نے ہدایت کی راہ اختیار نہ کی۔ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا میں ضمیر کا مرجع دوزخ ہے۔ اگرچہ دوزخ کا ذکر الفاط میں موجود نہیں ہے لیکن اوپر جس لعنت کا ذکر ہے اس نے اس کا ایسا واضح قرینہ بہم پہنچا دیا ہے کہ لفظوں میں اس کے ذکر کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ گویا لعنت خود عذاب کی قائم مقام بن گئی۔ زبان میں اس اسلوب کی مثالیں بہت ہیں۔ سورة حدید کی تفسیر میں ہم اس اسلوب پر بحث کریں گے۔ اس عذاب کی نسبت فرمایا کہ نہ اس میں کسی مرحلے میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ اس سے ان کو کبھی مہلت ملے گی۔ اس میں پڑجانے کے بعد ان کے لیے امید کے سارے دروازے بند ہوجائیں گے البتہ وہ لوگ اس عذاب سے بچ جائیں گے جو ان تنبیہات کے بعد توبہ کر کے اپنے حالات کی اصلاح کرلیں گے اور جن حق پوشیوں کے اب تک مجرم ہوئے ہیں ان کا برملا اظہار واعلان کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
Top