Tafseer-e-Usmani - Aal-i-Imraan : 86
كَیْفَ یَهْدِی اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهِمْ وَ شَهِدُوْۤا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
كَيْفَ : کیونکر يَهْدِي : ہدایت دے گا اللّٰهُ : اللہ قَوْمًا كَفَرُوْا : ایسے لوگ جو کافر ہوگئے بَعْدَ : بعد اِيْمَانِهِمْ : ان کا (اپنا) ایمان وَشَهِدُوْٓا : اور انہوں نے گواہی دی اَنَّ : کہ الرَّسُوْلَ : رسول حَقٌّ : سچے وَّجَآءَ : اور آئیں ھُمُ : ان الْبَيِّنٰتُ : کھلی نشانیاں وَاللّٰهُ : اور اللہ لَايَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیونکر راہ دیگا اللہ ایسے لوگوں کو کہ کافر ہوگئے ایمان لا کر اور گواہی دے کر کہ بیشک رسول سچا ہے اور آئیں ان کے پاس نشانیاں روشن اور اللہ راہ نہیں دیتا ظالم لوگوں کو4
4  جن لوگوں نے وضوح حق کے بعد جان بوجھ کر کفر اختیار کیا۔ یعنی دل میں یقین رکھتے ہیں اور آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں اقرار کرتے ہیں کہ یہ رسول سچّا ہے۔ اسکی حقانیت و صداقت کے روشن دلائل، کھلے نشانات اور صاف بشارات انکو پہنچ چکی ہیں۔ اس پر بھی کبر وحسد اور حب جاہ و مال، اسلام قبول کرنے اور کفر وعدوان کے چھوڑنے سے مانع ہے جیسا کہ عموماً یہود و نصاریٰ کا حال تھا، ایسے ہٹ دھرم، ضدی معاندین کی نسبت کیونکر توقع کی جاسکتی ہے کہ باوجود اس طرح کا رویہ قائم رکھنے کے خدا تعالیٰ انکو نجات و فلاح اور اپنی خوشنودی کے راستہ پر لے جائے گا یا جنت تک پہنچنے کی راہ دے گا۔ اسکی عادت نہیں کہ ایسے بےانصاف متعصب ظالموں کو حقیقی کامیابی کی راہ دے۔ اسی پر ان بدبختوں کو قیاس کرلو جو قلبی معرفت و یقین کے درجہ سے بڑھکر ایک مرتبہ مسلمان بھی ہوچکے تھے۔ پھر دنیاوی اغراض اور شیطانی اغواء سے مرتد ہوگئے۔ یہ ان پہلوں سے زیادہ کج رو اور بےحیا واقع ہوئے، اس لئے ان سے بڑھ کر لعنت و عقوبت کے مستحق ہوں گے۔
Top