Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 164
وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا١ۙ اِ۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا اُمَّةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے لِمَ تَعِظُوْنَ : کیوں نصیحت کرتے ہو قَوْمَ : ایسی قوم االلّٰهُ : اللہ مُهْلِكُهُمْ : انہیں ہلاک کرنیوالا اَوْ : یا مُعَذِّبُهُمْ : انہیں عذاب دینے والا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت قَالُوْا : وہ بولے مَعْذِرَةً : معذرت اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید کہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور (اس وقت کا حال پوچھیے) جبکہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کیے جاتے ہوجنکو اللہ تعالیٰ بالکل ہلاک کرنے والے ہیں یا جن کو سخت سزا دینے والے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے ( اور اپنے) رب کے روبرو عذر کرنے کے لیے اور (نیز) اس لیے کہ شاید ڈرجاویں۔ (ف 2) (164)
2۔ جب نصیحت کے موثر ہونے کی بالکل امید نہ ہو تو نصیحت کرنا واجب نہیں رہتا گوعالی ہمتی ہے پس قائلین لم تعظون نے بوجہ یاس کے عدم وجوب پر عمل کیا اور قائلین معذرة کو یا تو یاس نہیں ہوا یا عالی ہمتی کی شق کو اختیار کیا غرض دونوں مصیب تھے اور دونوں کی نجات پانے کا حضرت عکرمہ نے استنباط کیا اور ابن عباس نے پسند کرکے ان کو انعام بھی دیا۔
Top