Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 164
وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا١ۙ اِ۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا اُمَّةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے لِمَ تَعِظُوْنَ : کیوں نصیحت کرتے ہو قَوْمَ : ایسی قوم االلّٰهُ : اللہ مُهْلِكُهُمْ : انہیں ہلاک کرنیوالا اَوْ : یا مُعَذِّبُهُمْ : انہیں عذاب دینے والا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت قَالُوْا : وہ بولے مَعْذِرَةً : معذرت اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید کہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور جب بولا162 ان میں سے ایک فرقہ کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جن کو اللہ چاہتا ہے کہ ہلاک کرے یا ان کو عذاب دے سخت5 وہ بولے الزام اتارنے کی غرض سے تمہارے رب کے آگے اور اس لیے کہ شاید وہ ڈریں  
162: ان لوگوں میں جماعتیں تھیں پہلی جماعت ہفتہ کے دن شکار کرتی تھی۔ دوسری جماعت ان کو اس سے منع کرتی تھی اور تیسری جماعت نہ شکار کرتی تھی اور نہ شکار کرنے والوں کو منع کرتی تھی بلکہ منع کرنے والوں سے بھی کہتی تھی کہ تم خوب جانتے ہو کہ اللہ ان کو ہلاک کرنے والا یا شدید عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے۔ اس لیے ان کو وعظ و نصیحت کر کے کیوں دماغ سوزی کرتے ہو۔ “ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّکُمْ ” تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو اللہ کے سامنے بطور معذرت ان کو اس فعل قبیح سے روکتے ہیں تاکہ نہی عن المنکر کا جو فریضہ ہمارے ذمہ ہے اس میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔ نیز ممکن ہے کہ وہ اس فعل سے باز آجائیں۔ “ مَعْذِرَةً ” فعل مقدر یعنی “ نَعْتَذِرُ ” کا مفعول مطلق ہے۔ “ قال جمھور المفسرین ان بنی اسرائیل افترقت ثلث فرق فرقة عصمت و صادت وفرقة نھت و اعتزلت وفرقة اعتزلت و لم تنه و تعص وان ھذه الطائفة قالت للناھیة لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمًا نِ اللّٰهُ مُھْلِکُھُمْ اَوْ مُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ” (قرطبی ج 7 ص 307) ۔
Top