Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 164
وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا١ۙ اِ۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا اُمَّةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے لِمَ تَعِظُوْنَ : کیوں نصیحت کرتے ہو قَوْمَ : ایسی قوم االلّٰهُ : اللہ مُهْلِكُهُمْ : انہیں ہلاک کرنیوالا اَوْ : یا مُعَذِّبُهُمْ : انہیں عذاب دینے والا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت قَالُوْا : وہ بولے مَعْذِرَةً : معذرت اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید کہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور جب بولا ان میں سے ایک فرقہ کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جن کو اللہ چاہتا ہے کہ ہلاک کرے یا ان کو عذاب دے سخت5 وہ بولے الزام اتارنے کی غرض سے تمہارے رب کے آگے اور اس لیے کہ شاید وہ ڈریں6 
5 معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے حکم الٰہی کے خلاف حیلہ بازی شروع کی تو شہر کے باشندے کئی قسموں پر منقسم ہوگئے جیسا کہ عموماً ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے۔ ایک وہ لوگ جنہوں نے اس حیلہ کی آڑ لے کر صریح حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی۔ دوسرے نصیحت کرنے والے جو اخیر تک فہمائش اور امر بالمعروف میں مشغول رہے۔ تیسرے جنہوں نے ایک آدھ مرتبہ نصیحت کی پھر مایوس ہو کر اور ان کی سرکشی سے تھک کر چھوڑ دی۔ چوتھے وہ ہوں گے جو نہ اس عمل شنیع میں شریک ہوئے اور نہ منع کرنے کے لیے زبان کھولی، بالکل علیحدہ اور خاموش رہے۔ موخر الذکر دو جماعتوں نے انتھک نصیحت کرنے والوں سے کہا ہوگا کہ ان متمر دین کے ساتھ کیوں مغز زنی کر کے دماغ کھپاتے ہو جن سے کوئی توقع قبول حق کی نہیں۔ ان کی نسبت تو معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں سے ایک بات ضرور پیش آنے والی ہے۔ یا خدا ان کو بالکل تباہ و ہلاک کر دے اور یا کسی سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے۔ کیونکہ یہ لوگ اب کسی نصیحت پر کان دھرنے والے نہیں۔ 6  یعنی شاید سمجھاتے رہنے سے کچھ ڈر جائیں اور اپنی حرکات شنعیہ سے باز آجائیں۔ ورنہ کم از کم ہم پروردگار کے سامنے عذر تو کرسکتے ہیں کہ خدایا ہم نے آخر دم نصیحت و فہمائش میں کوتاہی نہیں کی۔ یہ نہ مانے تو ہم پر اب کیا الزام ہے ؟ گویا یہ ناصحین اول تو بالکلیہ مایوس نہ تھے، دوسرے " عزیمت " پر عمل کر رہے تھے کہ مایوسی کے باوجود بھی ان کا تعاقب نہیں چھوڑتے۔
Top