Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 164
وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا١ۙ اِ۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا اُمَّةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے لِمَ تَعِظُوْنَ : کیوں نصیحت کرتے ہو قَوْمَ : ایسی قوم االلّٰهُ : اللہ مُهْلِكُهُمْ : انہیں ہلاک کرنیوالا اَوْ : یا مُعَذِّبُهُمْ : انہیں عذاب دینے والا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت قَالُوْا : وہ بولے مَعْذِرَةً : معذرت اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید کہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے کہا تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کیے جاتے ہوج نہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں (کسی اور) سخت عذاب میں گرفتار کرنے والا،236 ۔ وہ بولے اپنے پروردگار کے رو برو عذر کرنے کے لئے اور شاید کہ یہ لوگ تقوی اختیار کرلیں،237 ۔
236 ۔ (ان کے مسلسل جرائم کی پاداش میں) (آیت) ” اذ قالت امۃ “۔ یہ کہنے والے وہ لوگ تھے جو خود نیک کار تھے لیکن مجرموں کی اصلاح کی طرف سے مایوس ہوگئے تھے اور یہ کہا انہوں نے ان نیک کاروں سے جواب تک وعظ ونصیحت میں لگے ہوئے تھے۔ 237 ۔ (اور اس خشیت الہی سے اپنی اصلاح کرلیں) (آیت) ” معذرۃ الی ربکم “۔ یعنی کم از کم اپنی صفائی تو ہم پیش ہی کردیں گے کہ ہم نے اپنی والی پند ونصیحت تو بہت کچھ کر ڈالی تھی، غرض یہ کہ ان مصلحین نے جواب دودیئے، ایک یہ کہ اپنے اوپر تو تلقین واتمام حجت کا بار نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ شاید اب بھی یہ لوگ اصلاح قبول کرلیں، مفسرتھانوی (رح) نے فرمایا کہ جب نصیحت کے مؤثر ہونے کہ امید ہو بالکل نہ رہے تو نصیحت کرنا واجب نہیں رہتا گودلیل عالی ہمتی ہے۔ چناچہ اہل حق میں سے جنہوں نے (آیت) ’ لم تعظون “ کا سوال کیا انہوں نے بوجہ یاس فتوائے عدم وجوب پر عمل کیا اور جنہوں نے (آیت) ” معذرۃ الی ربکم “۔ سے جواب دیا انہوں نے یا تو یاس ہی نہیں ہوئی اور یا انہوں نے عالی ہمتی سے کام لیا اور دونوں فریقوں نے پورا پورا اجر پایا۔
Top