Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 164
وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا١ۙ اِ۟للّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا اُمَّةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے لِمَ تَعِظُوْنَ : کیوں نصیحت کرتے ہو قَوْمَ : ایسی قوم االلّٰهُ : اللہ مُهْلِكُهُمْ : انہیں ہلاک کرنیوالا اَوْ : یا مُعَذِّبُهُمْ : انہیں عذاب دینے والا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت قَالُوْا : وہ بولے مَعْذِرَةً : معذرت اِلٰى : طرف رَبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَعَلَّهُمْ : اور شاید کہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور ج بکہا ایک امت نے ان میں سے کیوں نصیحت کرتے ہو تم ان لوگوں کو کہ اللہ ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے یا ان کو سزا دینا چاہتا ہے سخت سزا تو انہوں نے کہا کہ الزام اتارنے کے لئے تمہارے پروردگار کے سامنے اور ش اید کہ یہ ڈر جائیں
ربط آیات مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل صحرائے سینا میں آباد ہوئے اس صحرا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر طرح طرح کے انعامات کیے پینے کے لیے معجزانہ طور پر پانی کا انتظام کیا سائے کے لیے بادلوں کو بھیج دیا اور من وسلویٰ جیسی اعلیٰ خوراک مفت فراہم کی مگر ان لوگوں نے انعامات الٰہی کی قدر نہ کی اور اعلیٰ درجے کے کھانے کے بجائے ساگ پات ، دال ، لہن اور پیاز وغیرہ کا مطالبہ کیا اللہ نے فرمایا کہ اس بستی میں داخل ہوجائو وہاں کے باشندوں سے جہاد کرکے بستی پر قابض ہو جائو تو وہاں تمہیں مطلوب اشیاء کاشتکاری کے ذریعے حاصل ہوسکیں گی ان لوگوں نے جہاد کرنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی آئی اور یہ چالیس سال تک اسی صحرا میں سرگردان رہے بنی اسرائیل کی تاریخ کے دوران ایک دوسری بستی ایلہ کا واقعہ بھی پیش آیا ان لوگوں کی معیشت مچھلی کے شکار پر تھی سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ ماہی گیری کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے حکم دے رکھا تھا کہ ہفتہ کے چھ دن خوب شکار کرو مگر ساتواں دن یعنی ہفتہ صرف عبادت کے لیے مخصوص کردو اس دن کوئی کاروبار نہ کرو پھر اللہ نے اسی بات میں ان پر آزمائش ڈالی مگر یہ لوگ اس آزمائش میں پورے نہ اترے اور حیلے بہانے سے ہفتہ کے دن بھی شکار کرنے لگے یہ بیان گزشتہ درس میں گزر چکا ہے اور اب آج کے درس میں ان اچھے لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے ہفتے کے دن شکار کرنے والوں کو روکنا چاہا اور پھر جب وہ باز نہ آئے تو ان پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوا ان کی شکلیں تبدیل ہوگئیں اور آخر کار تین دن بعد ہلاک ہوگئے۔ بنی اسرائیل کے تین گروہ جب بنی اسرائیل حکم خدا وندی کے خلاف حیلے بہانے سے ہفتے کے دن بھی شکار کرنے لگے تو ان کے تین گروہ بن گئے پہلا گروہ وہ ان لوگوں کا تھا جو دھڑے کے ساتھ ہفتہ کو شکار کرتے تھے اور منع کرنے کے باوجود باز نہیں آتے تیھ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو تعدی کرنے والوں کو حکم خدا وندی سے آگاہ کرتے تھے انہیں خوف دلاتے تے اور اس دن شکار کرنے سے منع کرتے تھے گویا یہ وہ لوگ تھے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے تیسرا گروہ وہ وہ تھا جو خود تو ہفتے کے دن شکار نہیں کرتے تھے مگر شکار کرنے والوں کو منع بھی نہیں کرتے تھے بعض مفسرین نے ایک چوتھے گروہ کا ذکر بھی کیا ہے جنہوں نے تعدی کرنے والوں کو ابتداء میں منع کیا مگر جب وہ باز نہ آئے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا تاہم حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کے مطابق پہلے تین گروہ ہی زیادہ مشہور ہیں یعنی (1) شکار کرنے والے (2) روکنے والے اور (3) خاموشی اختیار کرنے والے اب یہاں پر شکار سے روکنے اور خاموشی اختیار کرنے والے۔ روکنے والے اور خاموشی اختیار کرنے والے اب یہاں پر شکار سے روکنے اور خاموشی اختیار کرنے والوں کے درمیان مکالمے کا ذکر ہورہا ہے۔ واذ قالت امۃ منھم اور جب ان میں سے ایک گروہ یعنی خاموشی اختیار کرنے والوں نے روکنے والوں سے کہا لم تعظون قوماً تم ایسے لوگوں کو کیوں نصحت کرتے ہو اللہ مھلکھم اومعذبھم عذاباً شدیداً جنہیں اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہتا ہے یا سخت عذاب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اس پر نہی عن المنکر کرنے والوں نے جواب دیا قالو ععذرۃ الیٰ ربکم ہم اس لیے انہیں منع کرتے ہیں تاکہ تمہارے پروردگار کے سامنے پیش کرسکیں یعنی اگر اللہ تعالیٰ ہمیں پوچھے کہ تہماری آنکھوں کے سامنے غلط کام ہوتا تھا تو تم نے روکا کیوں نہ تو ہم کہہ سکیں کہ پروردگار ! ہم نے تو ان کو بہت سمجھایا مگر انہوں نے ہماری بات پر کان نہ دھرا کسی کو برائی سے روکنے کے تین ہی طریقے ہیں۔ اعلیٰ طریقہ تو یہ ہے کہ برائی کو طاقت کے ساتھ دبا دیا جائے اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے روکنے کی کوشش کی جائے اگر کوئی شخص زبان سے روکنے کی ہمت بھی نہیں پاتا تو نہی عن المنکر کا ادنیٰ ترین درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو دل سے برا جانے ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ جب بعض لوگ دیکھیں کہ ان کے درمیان برائی کا ارتکاب ہورہا ہے اور وہ منع نہ کریں تو خطرہ ہے کہ سارے کے سارے ہی ہلاک نہ ہوجائیں سورة مائدہ میں گزر چکا ہے کانوالا یتناھون عن منکر فعلوہ کہ اہل علم لوگ اپنے سامنے برائی ہوتی دیکھتے تھے مگر منع نہیں کرتے تھے تو یہ برائی ان میں مسلسل آرہی تھی چناچہ اس واقعہ میں بھی ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو خود تو خاموش تھے برائی سے نہیں روکتے تھے مگر روکنے والوں نے روکنے کی پہلی وجہ یہ بیان کی کہ تاکہ واللہ کے سامنے عذر پیش کرسکیں اور دوسری وجہ یہ کہ ولعلھم یتقون شاید یہ ڈر جائیں اور ہفتہ کے دن شکار کرنے سے باز آجائیں اور اس طرح عذاب الٰہی سے بچ سکیں۔ آخر دم تک تبلیغ اصلاح کے پروگرام کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہیے اور اگر کوئی نہیں مانتا تو اس سے مایوس ہو کر پروگرام کو ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ آخر دم تک اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے البتہ مفسر قرآن حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) لکھتے ہیں کہ اگر پوری کوشش کے بعد مبلغ کو یقین ہوجائے کہ اس کی بات اثر انداز نہیں ہورہی ہے تو پھر نہی عن المنکر واجب تو نہیں رہتا البتہ عالی ہمتی اسی میں ہے کہ برائی سے منع کرتا رہے اور جہاں امید باقی ہو کہ شاید یہ سمجھ جائیں گے تو وہاں منع کرنا واجب ہوتا ہے انبیاء اور ان کے متعبین کی یہ سنت ہے کہ وہ اخر دم تک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہے یہ قابل قدر کام ہے اور اہل حق نے اس کی پاداش میں بڑے بڑے مصائب برداشت کیے ہیں تاریخ شاہد ہے کہ بعض بزرگوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بڑے بڑے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہا چوتھی پانچویں صدی کے امام شمس الدین سرخی (رح) بڑے عالم اور فقیہ تھے منبوط آپ کی بڑی مشہور و معروف کتاب ہے حاکم وقت نے طلاق کے مسئلہ میں غلطی کی آپ نے ہر چند سمجھایا کہ عدت گزرنے کے بعد نکاح کرو مگر بادشاہ نہ مانا بلکہ آپ کو گرفتار کرکے پندرہ سال تک کے لیے اندھے کنویں میں قید کردیا یہ کتاب آپ نے اسی قید کے زمانے میں لکھی اپ کے شاگرد کنویں میں آکر بیٹھ جاتے تھے آپ کنوئیں میں سے لکھاتے جاتے اور شاگرد لکھتے جاتے اس طرح یہ ضحیم کتاب تالیف ہوئی جو فقہ کی معتبر کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ تاریخ میں کئی بزرگوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو جابر حاکموں کا تختہ مشق بنے ایسے ہی ایک اہل حق کا واقعہ ہے کہ بادشاہ وقت کو کسی براء ی سے منع کیا تو وہ طیش میں آگیا جلادوں کو حکم دیا کہ اس کے دانت اکھاڑ کر اس کے سر پر ٹھونک دو سزا دی گئی مگر ایمان والے کا ایمان متزلزل نہ ہوا اور وہ حق کا اعلان کرتا رہا جب تک امت میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا جذبہ باقی رہا امت زندہ رہی اور جب یہ جذبہ کمزور پڑگیا تو امت بھی کمزور ہوگئی بہرحال حق کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہنا چاہیے اور اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت کے دن بعض انبیاء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تن تنہا پیش ہوں گے ساری عمر فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے باوجود ایک بھی امتی پیدا نہ کرسکے ہوں گے تاہم چونکہ انہوں نے اپنا فریضہ ادا کردیا اس لیے امتی نہ ہونے کا ان پر کوئی عذر نہیں ہوگا۔ ظالموں کے لیے سزا آگے اللہ تعالیٰ نے منع کرنے والوں کی جزا اور نافرمانی کرنے والوں کی سزا کا ذکر کیا ہے فلما نسوا ماذکروا بہ جب انہوں نے فراموش کردیا اس چیز کو جس کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی تھی یعنی نافرمان لوگوں نے ناصحین کی نصیحت پر کوئی توجہ نہ دی تو فرمایا انجینا الذین ینھون عن السواء برائی سے منع کرنے والوں کو ہم نے نجات دیدی واخذنا الذین ظلموا بعذاب بیس اور ظلم کرنے والوں کو ہم نے سخت سزا میں پکڑ لیا وجہ ظاہر ہے جما معانو یفسقون کہ وہ نافرمان تھے فاسق کا معنی قانون کو توڑ کر اس سے باہر نکلنے والا یہ فاسق تھے سمجھانے والے سمجھاتے رہے برائی سے منع کرتے رہے مگر انہوں نے پرواہ نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سزا میں مبتلا ہوئے جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے فلما عتواعن مانھو عنہ قلنا لھم کونوا قردہ خسین پھر جب وہ سرکشی میں بڑھ گئے جس سے ان کو منع کقا گیا تھا تو ہم نے کہا ان کو ہوجائو بندر ذلیل۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب ناصحین کی نصیحت کے باوجود وہ لوگ ہفتے کے دن شکار کرنے سے باز نہ آئے تو انہوں نے شکار کرنے والوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا درمیان میں دیوار کھڑی کردی آنے جانے کا راستہ تھا مگر بحیثیت مجموعی انہوں نے نافرمانوں کا بائیکاٹ کردیا ان کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے کہیں وہ بھی ان کے ساتھ گرفتار بلا ہوجائیں پھر ایک دن ایسا ہوا کہ صبح اٹھے تو نافرمانوں کی طرف سے کوئی آواز سنائی نہ دی دیوار پر سے جھانک کر دیکھا تو ہر گھر میں انسانوں کی بجائے بندر تھے مرد عورتیں سب بندروں کی شکل میں تبدیل ہوچکے تھے تاریخی روایات میں ان لوگوں کی تعداد بیس ہزار سے ستر ہزار تک بیان کی گئی ہے سورة مائدہ میں بندروں کے ساتھ خنزیروں کا ذکر بھی ملتا ہے وجعل منھم القردۃ الخنانیں یعنی ہم نے انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان میں سے بڑے بوڑھوں کو خنزیر کی شکل میں اور جوانوں کو بندر کی شکل میں تبدیل کردیا گیا پھر مسخ شدہ شکلوں والے خنزیر اور بندر اپنے منع کرنے والے رشتہ داروں کو پہچان کر ان کے پائوں پر اپنے سر رکھتے تھے آہ وزاری کرتے تھے اور اپنے جرم پر پشیمان ہوتے تھے مگر خدا کا عذاب وارد ہوچکا تھا صرف تین دن زندہ رہنے کے بعد سب ہلاک ہوگئے سورة بقرہ میں آتا ہے فجعلنھا نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا ہم نے اس واقعہ کو موجود لوگوں اور آئندہ آنے والوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا اور متقین کے لیے اسے نصیحت بنا دیا کہ خدا کا عذاب اس صورت میں بھی آجاتا ہے کہ نافرمانوں کی شکلیں ہی تبدیل کردی جائیں۔ خنزیر اور بندر معلون ہیں خنزیر اور بندر دونوں ملعون ہیں اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر انسانوں کی شکلیں جن جانوروں کی شکلوں میں تبدیل کرتا ہے وہ جانور ملعون اور قلعی حرام ہوتے ہیں خنزیر نجس اور ناپاک جانور ہے اور یہ تمام شریعتوں میں رام رہا ہے بندر نقال قسم کا بدوقع جانور ہے اور اس میں غیر فطری افعال بھی پائے جاتے ہیں مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ بندر کے سوا کسی دوسرے جانور میں ہم جنسی کی بیماری نہیں پائی جاتی انسانوں میں یہ لعنت لوط (علیہ السلام) کے زمانے میں شروع ہوئی اور اب ساری دنیا میں پھیل چکی ہے بلکہ انگریزوں نے تو اسے قانوناً جائز قرار دیدیا ہے حالانکہ یہ ایسا غیر فطری فعل ہے جو عام جانوروں میں بھی نہیں پایا جاتا صرف بندر میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ جسے اللہ نے ذلیل قرار دیا ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) رفماتے ہیں کہ وہ تمام جانور حرام ہیں جن کی شکلوں میں انسانوں کو تبدیل کیا گیا ان میں خنزیر ، بندر ، چوہے اور گوہ وغیرہ شامل ہیں اگرچہ مسخ شدہ شکلوں والے لوگ تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہے تاہم اس شکل و صورت کے جانور انسان کے لیے قطعی حرام ہیں کیونکہ یہ انسانی مزاج کے خلاف ہیں اور اس شکل میں خدا کی لعنت پائی جاتی ہے جو انسان ایسے جانور کا گوشت کھالے گا وہ بھی لعنی ہوگا بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان قانون شکن لوگوں کو سزا دی کیونکہ انہوں نے ہفتے کے دن شکار کیا تھا اس اصول کی بنیاد پر بلاعذر شرعی روزہ نہ رکھنے والا بھی ملعون ہے کیونکہ اس نے قانون خدا وندی کو توڑا ہے۔ قرب قیامت میں شترثالث خدا کا قانون ہے کہ ظلم اور نافرمانی کرنے والوں کو سزا ضرور ملتی ہے خواہ وہ کسی بھی نوعیت کی ہو اما شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارا دور شرثانی کا دور ہے اس میں سزا کے طور پر ظاہری شکلیں تو تبدیل نہیں ہوتیں البتہ بہت سے انسانوں کے باطن خنزیروں ، بندروں اور کتوں جیسے ہوجاتے ہیں پھر جب قرب قیامت میں شترثالث کا ظہور ہوگا تو پھر سزا کے طور پر کہیں کہیں شکلیں بھی تبدیل ہوتی نظر آئیں گی سزا کے طور پر بعض لوگ زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے اور بعض دوسرے ظاہری عذاب میں بھی آئیں گے مگر ایسے عذاب مجموعی طور پر نہیں آئیں گے بلکہ کہیں کہیں ایسے واقعات پیش آئیں گے اور اکا دکا لوگوں کی کبھی شکل بھی مسخ ہوگی کبھی اوپر سے پتھر برسیں گے اور کبھی زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے۔
Top