Dure-Mansoor - Al-Maaida : 28
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ
لَئِنْۢ بَسَطْتَّ : البتہ اگر تو بڑھائے گا اِلَيَّ : میری طرف يَدَكَ : اپنا ہاتھ لِتَقْتُلَنِيْ : کہ مجھے قتل کرے مَآ اَنَا : میں نہیں بِبَاسِطٍ : بڑھانے والا يَّدِيَ : اپنا ہاتھ اِلَيْكَ : تیری طرف لِاَقْتُلَكَ : کہ تجھے قتل کروں اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ رَبَّ : پروردگار الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
یہ بات یقینی ہے کہ اگر تو نے میرے قتل کرنے کے لئے میری طرف ہاتھ بڑھایا ہو میں تجھے قتل کرنے کے لئے تیری طرف اپنا ہاتھ بڑھانے والا نہیں ہوں گا، بیشک میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
(1) امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت لئن بسطت الی یدک کے بارے میں فرمایا ان کی شریعت میں یہ حکم تھا کہ کوئی آدمی اگر کسی دوسرے آدمی کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتا اور اپنا دفاع نہ کرتا۔ (2) امام ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ بنی اسرائیل پر یہ فرض کیا گیا تھا کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی پر دست اندازی کرتا تو دوسرا اس کا دفاع نہ کرتا یہاں تک کہ وہ اس کو قتل کردیتا یا اس کو چھوڑ دیتا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت لئن بسطت (الآیتہ) (3) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت انی ارید ان تبوا باثمی واثمک میرے قتل کا گناہ بھی تیرے سر ہے۔ فرمایا کہ یعنی اور اس سے پہلے جو تو نے غلطیاں کی ہیں ان کا وبال بھی تیرے اوپر ہو۔ (4) امام طستی نے امام ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ارزق نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت انی ارید ان تبوا باثمی واثمک کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا تو لوٹے گا میرے گناہ کے ساتھ اور اپنے گناہ کے ساتھ جو تو بےعمل پھر تو جہنم کا مستحق بھی بنے گا۔ پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا۔ من کان کا رہ عیشہ فلیاتنا یلقی المنیۃ أویبوء عناء ترجمہ : جس کی زندگی مکروہ ہو تو وہ ہمارے پاس آئے وہ موت سے ملاقات کرے گا یا مشقت کو ٹھکانہ بنائے گا۔ (5) امام احمد، ابو داؤد، ترمذی اور اس کو حسن نے بھی کہا ہے اور حاکم نے (اور اس کو صحیح بھی کہا ہے) سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب فتنہ ہوگا بیٹھنے والا بہتر ہوگا کھڑے ہونے والے سے۔ اور کھڑا ہونے والا بہتر ہوگا چلنے والے سے اور چلنے والا بہتر ہوگا دوڑنے والے سے، پھر پوچھا آپ بتائیے اگر کوئی میرے گھر میں داخل ہوجائے اور میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ مجھ کو قتل کر دے۔ آپ نے فرمایا آدم کے بیٹے کی طرح ہوجاؤ۔ اور یہ آیت پڑھی لفظ آیت انی ارید ان تبوا باثمی واثمک (6) امام احمد مسلم اور حاکم نے ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ گدھے پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھایا پھر فرمایا اے ابو ذر ! تم بتاؤ اگر لوگوں کو بھوک پہنچ جائے اور تو اپنے بستر سے مسجد کی طرف اٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر تو کیسے کرے گا ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو ذر ! پاک دامن رہ۔ پھر فرمایا بتاؤ اگر لوگوں کو شدید موت پہنچ جائے جس سے بندہ کا گھر قبر ہو۔ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوذر صبر کرو، پھر فرمایا تم بتاؤ اگر لوگ بعض کو قتل کرنے لگیں یہاں تک کہ حجارۃ الزیت خون سے غرق ہوجائے تو پھر تو کیا کرے گا۔ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا اپنے گھر میں بیٹھ کر دروازہ بند کرلے میں نے کہا اگر مجھے پھر بھی نہ چھوڑا جائے ؟ آپ نے فرمایا لفظ آیت فات من انق منھم فکن فیھم میں نے کہا میں اپنا ہتھیار لے لو ؟ فرمایا تب بھی تو ان میں شریک ہوجائے گا ان کے اس کام میں جن میں وہ ہیں۔ لیکن اگر تو ڈرے اس بات سے کہ وہ تجھ تو خوف زدہ کریں گے تلوار کی چمک سے تو اپنے چہرہ پر اپنی چادر کے ایک کنارے کو ڈال لے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے اور تیرے گناہ کا مستحق ہوجائے۔ اور وہ دوزخ والوں میں سے ہوجائے گا۔ (7) امام بیہقی نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا توڑ دو اپنی تلواروں کو یعنی فتنہ میں۔ اور کاٹ دو اپنی کمان کی تانتوں کو اور گھروں کے اندر (بیٹھ جانے کو) لازم پکڑو اور اس میں آدم (علیہ السلام) کے بیٹوں میں سے خیر کی طرح ہوجاؤ۔ قتل سے کنارہ کشی اختیار کرنا (8) امام ابن مردویہ نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا اگر تم ایک دوسرے سے لڑو تو میں ضرور انتظار کروں گا اپنے گھر کے آخری کمرے میں۔ اور میں ضرور اس سے چمٹ جاؤں گا۔ اگر مجھ پر بھی کوئی داخل ہوگیا تو میں ضرور کہوں گا لوٹ جا اپنے اور میرے گناہ کے ساتھ جس طرح آدم کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے نے کیا تھا۔ (9) امام ابن سعد اور ابن عساکر ابو نصرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابو سعید خدری ؓ حرہ کے دن نماز میں داخل ہوگئے ایک آدمی نماز میں داخل ہوگیا۔ ابو سعید کے پاس تلوار تھی انہوں نے تلوار کو رکھ دیا اور (اس سے) فرمایا لوٹ جا اپنے اور میرے گناہ کے ساتھ اور تو دوزخ والوں میں سے ہوجا۔ ابن سعد کے الفاظ یوں ہیں ابو سعید (رح) نے اس آیت کی تلاوت کی۔ لفظ آیت انی ارید ان تبوا باثمی واثمک فتکون من اصحب النار اس نے کہا کیا تو ابو سعید خدری ہے آپ نے فرمایا ہاں اس نے کہا میرے لئے استغفار کیجئے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ کو بخش دے۔ (10) امام عبد الرزاق اور ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کو اس آیت کے لئے بطور مثال ذکر کیا گیا۔ اس میں سے جو اچھا ہے اس کو اپنا لو۔ (11) امام عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! خبردار بلاشبہ آدم کے بیٹوں کو تمہارے لئے بطور مثال بیان فرما دیا۔ سو مشابہت اختیار کرو۔ ان میں سے جو اچھا ہے۔ اور نہ مشابہت اختیار کرو ان میں سے جو برا ہے۔ (12) امام ابن جریر نے معتمر بن سلیمان سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اکبر بن عبد اللہ سے کہا کیا آپ کو یہ بات پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے آدم کے بیٹوں کی مثال بیان فرمائی ہے۔ ان میں سے جو اچھا ہے اس کو اپنا لو اور ان میں سے جو برا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ انہوں نے فرمایا ہاں مجھ کو یہ بات پہنچی ہے۔ (13) امام حاکم نے سند صحیح کے ساتھ ابوبکر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار عنقریب فتنے ہوں گے۔ خبردار ایک فتنہ ہوگا اس میں بیٹھنے والا بہتر ہوگا کھڑے ہونے والے سے، اور کھڑے ہونے والا اس میں بہتر ہوگا چلنے والے سے اور چلنے والا اس میں بہتر ہوگا اس کو طرف دوڑنے والے سے، جب فتنہ نازل ہوجائے تو جس کا اونٹ ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنے اونٹ سے چمٹ جائے اور جس کی زمین ہو تو وہ اپنی زمین سے مل جائے۔ کہا گیا یا رسول اللہ ! آپ بتائیے اگر اس کے لئے یہ بھی نہ ہو تو ؟ اس کو چاہئے کہ ایک پتھر لے لے۔ اور اس کے ساتھ اپنی تلوار کی دھار کو توڑ دے۔ پھر چاہئے کہ وہ نجات پا جائے اگر وہ نجات پانے کی طاقت رکھتا ہے (پھر آپ ﷺ نے فرمایا) اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا یہ بات آپ نے تین مرتبہ دہرائی۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! آپ بتائیے اگر مجھ کو مجبور کر کے دو صفوں میں سے ایک صف کی طرف لے جایا جائے۔ اور ایک آدمی مجھ پر تیر پھینکے یا وہ مجھ کو تلوار سے مارے اور مجھ کو قتل کر دے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ اپنے اور تیرے گناہ کا مستحق بن گیا۔ اور وہ دوزخ والوں میں سے ہوگیا اس کو تین مرتبہ فرمایا۔ (14) امام حاکم نے (اور اس کو صحیح بھی کہا ہے) حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان سے کہا گیا ہم کو آپ کیا حکم فرماتے ہیں جب نمازیوں کو قتل کیا جائے ؟ فرمایا میں تجھ کو حکم دیتا ہوں کہ اپنے گھر کے دور حصے میں داخل ہو کر انتظار کر۔ اگر وہ تجھ پر داخل ہوجائے تو اس سے کہا لوٹ جا اپنے اور میرے گناہ کے ساتھ تو تو بھی آدم کے بیٹوں کی طرح ہوجائے گا۔ ّ (15) امام احمد اور حاکم نے خالد بن عرفطہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے خالد ! عنقریب میرے بعد بڑے بڑے حادثات فتنے اور اختلاف ہوں گے۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو اللہ کا مقبول بندہ بن اور قاتل نہ بن تو ایسا کرلے۔ فتنوں سے پناہ مانگنی چاہیے (16) امام ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا فتنے برپا ہوں گے۔ اس میں نیند کرنے والا جاگنے والے سے بہتر ہوگا۔ اور جاگنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا اور بیٹھنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اس کے تمام قاتل آگ میں ہوں گے۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے بارے میں کیا حکم ہے اگر میں ایسے حالات پالوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے گھر میں داخل ہوجا۔ میں نے عرض کیا آپ بتائیے اگر وہ مجھ پر داخل ہوجائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کو کہہ دو لوٹ جا، میرے اور اپنے گناہ کے ساتھ اور اللہ کا مقبول بندہ بن جا۔ (17) امام بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عساکر نے اوزاعی سے روایت کیا ہے کہ جو شخص ظلما قتل کردیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر گناہ کو مٹا دیں گے۔ اور یہ بات قرآن میں سے (یعنی) لفظ آیت انی ارید ان تبوا باثمی واثمک (18) امام ابن منذر نے خباب بن ارت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتنہ کا ذکر فرمایا (پھر فرمایا) بیٹھنے والا اس سے بہتر ہوگا کھڑے ہونے والے سے۔ اور کھڑا ہونے والا اس سے بہتر ہوگا چلنے والے سے اور چلنے والا بہتر سے اس سے دوڑنے والے سے اگر تو اس فتنے کا پائے تو اللہ کا مقبول بندہ بن اور اللہ کا قاتل بندہ نہ بن۔ (19) امام ابن ابی شیبہ نے عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ اس کے پاس ایک آدمی اس کو قتل کرنے کے لئے آئے۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر کہے تو وہ ابن آدم کے دو بیٹوں میں سے اچھے بیٹے کی طرح ہوجائے تو وہ جنت میں ہوگا۔ وہ جنت میں ہوگا اور جبکہ اس کا قاتل آگ میں ہوگا۔
Top