Fahm-ul-Quran - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں اچک لے جائے۔ جب ان کے لیے روشنی ہوتی ہے تو اس میں چلتے پھرتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے۔ تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اگر اللہ چاہے تو ان کے کانوں اور ان کی آنکھوں کو لے جائے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے
منافق کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہو تو منافق مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ مخلص مسلمانوں سے بھی چار قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جوں ہی اس کے مفاد کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس کے قدم جم جاتے ہیں۔ منافقوں کی حرکات اور منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سمع و بصر کی حقیقی صلاحیتیں سلب کرلی ہیں۔ اگر ربِّ ذوالجلال چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کی جسمانی صلاحیتوں کو بھی مسخ کر دے کیونکہ قادر مطلق کی طاقت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی ؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَثَلُ مَابَعَثَنِيَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ أَصَابَ أَرْضًا فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃٌ قَبِلَتِ الْمَآءَ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَکَانَتْ مِنْھَآ أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَآءَ فَنَفَعَ اللّٰہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا وَأَصَابَتْ مِنْھَا طَاءِفَۃٌ أُخْرٰی إِنَّمَا ھِيَ قِیْعَانٌ لَاتُمْسِکُ مَاءً وَلَاتُنْبِتُ کَلَأً فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِيْ دِیْنِ اللّٰہِ وَنَفَعَہٗ مَابَعَثَنِيَ اللّٰہُ بِہٖ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ یَقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِيآ أُرْسِلْتُ بِہٖ ) (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم) ” حضرت ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر مسلسل برسنے والی بارش کی طرح ہے۔ زمین کا جو قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزے کو خوب اگایا۔ دوسری زمین سخت تھی پانی جذب ہونے کی بجائے اس پر کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی کی جبکہ تیسرا زمین کا ٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی تعلیم دی۔ دوسری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بےپرواہی سے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔ “ مسائل 1۔ دین اسلام باران رحمت ہے۔ 2۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے میں آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ 3۔ منافق صرف فائدے کی بنیاد پر اسلام پر عمل کرتا ہے۔ 4۔ منافق کسی آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو منافقین کے سمع وبصر ختم کردے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت وسطوت رکھنے والا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کافروں کی گرفت کرنے والا ہے۔
Top