Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے، جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہوجاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر خدا چاہتا تو ان کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل کردیتا، بلاشبہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
(20) جب بجلی کی روشنی ہوتی ہے تو چلنا شروع کردیتے ہیں، اسی طرح جب منافقین ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو مومنوں کے درمیان چلنا شروع کردیتے ہیں کیوں کہ ان کا اظہار ایمان بظاہر قبول کرلیا جاتا ہے لیکن جب مرجاتے ہیں تو قبر کے اندھیرے میں پڑے رہتے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو گرج وچمک سے ان کے کانوں اور نگاہوں کو ختم کردے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو قرآن کریم کی وعید اور عذاب سے منافقوں اور یہودیوں کی سننے کی قوت اور قرآن حکیم کی وضاحت سے ان کی دیکھنے کی قوت ختم کردے۔ شان نزول : (آیت) ”او کصیب من السمآء فیہ ظلمت“۔ (الخ) ابن جریر ؒ ، سدی کبیر ؒ ، ابی مالک ؒ ، ابن عباس ؓ ، مرہ ؓ ، ابن مسعود ؓ نیز صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت اس بات کو بیان کررہی ہے کہ مدینہ منورہ کے منافقین میں سے دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے بھاگ کر مشرکین کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں ان دونوں کو اسی طرح بارش کا سامنا ہوا، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے کہ اس میں بہت سخت گرج، اندھیرا اور چمک ہے، لہٰذا جب خوب زور سے بادل گرجتا یہ دونوں اس ڈر سے کہ کہیں گرج کی آواز سے ان کے کان نہ پھٹ جائیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے تھے اور جب بجلی چمکتی تو اس کی روشنی میں چلنا شروع کردیتے تھے اور جب بجلی نہ چمکتی تو نظر تو کچھ نہ آتا لیکن چلتے چلتے پھر اپنی جگہوں پر پہنچ جاتے اور دل میں سوچتے کاش کہ صبح ہوجائے تو ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کر اپنے ہاتھ آپ ﷺ کے ہاتھ پر میں دے دیں، چناچہ صبح ہوئی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف بہ اسلام ہوگئے اور اپنے ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیے اور ان کا اسلام بھی ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے مدینہ مورہ کے ان دونوں منافقوں کی حالت بیان فرمائی ہے، جو مدینہ منورہ سے نکل کرگئے تھے اور ویسے منافقین کا وطیرہ یہ تھا کہ جب وہ رسول اکرم ﷺ کی مجلس مبارک میں آتے تھے تو وہ اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں اس خوف کی وجہ سے کہ کہیں ان کے بارے میں قرآن حکیم کی کوئی آیت نازل نہ ہوجائے، داخل کرلیا کرتے تھے یا ان کی کسی بات کا اظہار کرایا جائے جس کی بنا پر وہ قتل کردیے جائیں، جیسا کہ مدینہ منورہ سے نکلنے والے منافقین کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے اور جب روشنی ہوتی تو چلنا شروع کردیتے تھے چناچہ جب ان منافقین کے اموال واولاد میں اضافہ اور زیادتی ہوگئی اور فتوحات کے سبب مال غنیمت بکثرت ہوگیا تو دین کی حمایت کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اب محمد ﷺ کا دین سچا ہے اور اس پر قائم ہوگئے جیسا کہ دونوں منافقین جب بھی چمکتی تھی تو اس کی روشنی میں چلتے تھے اور جب اندھیرا ہوتا تو کھڑے ہوجاتے، اسی طرح دوسرے منافقین جب ان کے اموال واولاد ہلاک و برباد ہوگئے اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تو کہنے لگے کہ یہ سب مصیبتیں رسول ﷺ کے دین کی وجہ سے ہیں۔ (العیاذ باللہ) اور مرتد ہوگئے اور پھر اسی طرح اپنے کفر پر جم گئے جیسا کہ یہ دونوں منافقین کہ جب تاریکی ہوتی تو کھڑے ہوجاتے تھے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top