Tafseer-al-Kitaab - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی ان کی نگاہوں کو اچک لے جائے، وہ جب ان کے آگے چمکتی ہے تو اس (کی روشنی) میں کچھ (دور) چل لیتے ہیں۔ پھر جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ( کے کھڑے) رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی بصارت اور سماعت سلب کرلیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے
[16] پہلی مثال ان منافقین کی تھی جو اسلام کے قطعی منکر تھے۔ اور کسی فائدے کی خاطر مسلمان بن گئے تھے۔ اور دوسری مثال ان منافقین کی ہے جو شک اور تذبذب میں مبتلا تھے۔ کچھ حق کے قائل بھی تھے مگر ایسے بھی نہیں کہ اس کی خاطر تکلیف اٹھائیں اور مصیبت برداشت کریں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے یہ منافقین جب اسلام کی مادی کامیابیاں دیکھتے ہیں تو ان کے قدم اسلام کی طرف بڑھنے لگتے ہیں اور جب مشکلات کے بادل چھا جاتے ہیں تو یہ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ [17] یعنی اللہ اگر چاہتا تو ان کی بینائی سلب کرلیتا جس طرح پہلی قسم کے منافقین کی بصارت اس نے سلب کرلی۔ مگر اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ جو کسی حد تک دیکھنا چاہتا ہو اسے اتنا بھی دیکھنے نہ دے۔ چناچہ جس قدر حق دیکھنے کے لئے وہ تیار تھے اسی قدر بینائی اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔
Top