Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 20
یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
يَكَادُ : قریب ہے الْبَرْقُ : بجلی يَخْطَفُ : اچک لے اَبْصَارَھُمْ : انکی نگاہیں كُلَّمَآ : جب بھی اَضَآءَ : ّّوہ چمکی لَھُمْ : ان پر مَّشَوْا : چل پڑے فِيْهِ : اس میں وَاِذَآ : اور جب اَظْلَمَ : اندھیرا ہوا عَلَيْهِمْ : ان پر قَامُوْا : وہ کھڑے ہوئے وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا اللّٰهُ : اللہ لَذَھَبَ : چھین لیتا بِسَمْعِهِمْ : ان کی شنوا ئی وَاَبْصَارِهِمْ : اور ان کی آنکھیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَىْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
قریب ہے کہ بجلی (کی چمک) ان کی آنکھوں (کی بصارت) کو اچک لے جائے۔ جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر الله چاہتا تو ان کے کانوں (کی شنوائی) اور آنکھوں (کی بینائی دونوں) کو زائل کر دیتا ہے۔ بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے
یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ( قریب ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے) یہ جملہ مستانفہ یعنی جواب سوال مقدر کا ہے گویا کوئی سائل سوال کرتا ہے کہ جب اس کڑک وغیرہ نے ان کو گھیرا تو ان کی کیا حالت ہوئی ؟ اس سوال کے جواب میں یہ جملہ فرمایا۔ لفظ کاَدَیہ بتانے کے لیے وضع کیا گیا ہے کہ اس کی خبر قریب الوقوع تھی لیکن کسی شرط کے مفقود ہونے یا کسی مانع کے موجود ہونے کی وجہ سے واقع نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کا دمع اپنی خبر کے خبر محض ہے جملہ انشائیہ نہیں ہے بخلاف عسیٰ کے کہ وہ امیدوار اور انشاء کے لیے موضوع ہے۔ خطف کے معنی جھپٹ کر کسی شے کو لینے کے ہیں۔ کُلَّمَا ( ہر مرتبہ) لفظ کلما تکرار پر دلالت کرتا ہے اَضَآءَ لَھُمْ ( وہ ان پر چمکتی ہے) اضاء یا تو لازم ہے بمعنی چمکنے کے یا متعدی ہے اور مفعول محذوف ہے اس تقدیر پر معنی یہ ہونگے کہ جب بجلی کی چمک راستہ کو روشن کرتی ہے۔ مَّشَوْا فِیْہِ (تو وہ اس میں چلتے ہیں) وجہ چلنے کی یہ ہے کہ وہ چلنے کے حریص ہیں اسی واسطے لفظ کلما جو تکرار پر دال ہے اضاء کے ساتھ ذکر فرمایا اور اظلم کے ساتھ اذَا ذکر فرمایا۔ وَ اِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْہِم قَامُوْا ( اور جب ان پر اندھیرا طاری ہوجاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں اور اظلم بھی مثل اضاء کے متعدی بھی ہے اور لازم بھی وَ لَوْ شَآء اللّٰہُ ( اور اگر اللہ چاہتا) یعنی اگر اللہ ان کے کانوں کو رعد کی شدت سے اور آنکھوں کو بجلی کی چمک سے ضائع کرنا چاہتا۔ مفعول شاء کا حذف کردیا گیا ہے کیونکہ جواب لو اس پر دال ہے۔ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَ اَبْصَارِھِمْ ( تو ضرور ان کے کانوں اور آنکھوں کو ضائع کردیتا) کانوں اور آنکھوں کے جاتے رہنے کو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وابستہ کیا حالانکہ رعد اور برق آنکھوں اور کانوں کے جانے کا ظاہری سبب ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اسباب کی تاثیر حقیقت میں اللہ کے ہی چاہنے سے ہے سو حقیقی سبب اللہ ہی کا چاہنا ہے اسی طرح کل جواہر و اعراض اور بندوں کے تمام افعال اللہ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اسی کی مشیت سے وابستہ ہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ( بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے) یہ آیت پہلے مضمون کی تصریح اور اثبات کے لیے ہے اور لفظ شی شاء کا مصدر ہے کبھی اسم فاعل کے معنی میں آتا ہے یعنی شیئے معنی شائی اس استعمال کے موافق لفظ شے باری تعالیٰ کو بھی شامل ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : قُلْ اَیُّ شَیْءٌ اَکْبَرُ شَھَادٌَ قُلِ اللّٰہ اور کبھی بمعنی اسم مفعول آتا ہے یعنی شیے بمعنی مَشِی۔ مشی سے مراد ہے وہ چیز جس کا وجود مطلوب ہو۔ اس استعمال کے موافق لفظ شی ممکن ہی کو شامل ہوگا اور اسی استعمال کے موافق حق تعالیٰ کا یہ قول ہے : اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیٍْ ( یعنی اللہ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے) اس تقدیر پر لفظ شی اس آیۃ میں اپنے عموم پر رہے گا ( بخلاف استعمال سابق کے کہ باری تعالیٰ کا مستثنیٰ کرنا پڑے گا) قدرت کسی شے کے ایجاد پر قابو رکھنے کو کہتے ہیں اور قادر کے یہ معنی ہیں کہ جو فعل وہ کرنا چاہے کر گذرے۔ نہ کرنا چاہے نہ کرے۔ لفظ قدیر میں قادر کے بہ نسبت معنی کی زیادتی ہے۔ باری تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس کا اطلاق بہت ہی کم آتا ہے۔ یہ آیت یا تو تمثیل ہے یعنی منافقین کی حیرت و شدت کی حالت کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی ہے کہ جسے اندھیری رات میں بارش نے آلیا ہو اور ساتھ ہی اس کے گرج ‘ بجلی کی چمک اور کڑک کی خوفناک آوازیں بھی ہوں یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو تو بارش والوں سے تشبیہ دی اور دین مستقیم اور قرآن پاک کو بارش سے۔ اس تقدیر پر فِیْہِ ظُلُمٰتٌ کے یہ معنی ہوں گے کہ دین میں ایسی چیزیں موجود ہیں جو اتباع اور پیروی کرنے سے روک رہی ہیں اور وہ ہیں عبادات ‘ مجاہدۂ نفس اور نفسانی خواہشوں کا ترک کرنا جو سراسر محنت و مشقت اور رنج اور تکلیف سے لبریز ہیں۔ مسلم، امام احمد اور ترمذی نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ سرور عالم ﷺ نے فرمایا جنت نامر غوبات اور شدائد سے اور دوزخ مرغوبات سے ڈھانکی گئی ہے۔ ترمذی ‘ ابو داؤد اور نسائی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب حق تبارک و تعالیٰ نے جنت پیدا کی تو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو ارشاد ہوا کہ جاؤ دیکھو۔ حضرت جبرئیل گئے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے جنت والوں کے لیے اس میں تیار کیا تھا دیکھ کر حاضر ہوئے اور عرض کیا قسم ہے تیرے عزو جلال کی جو اسے سنے گا بغیر جائے اس میں نہ رہے گا پھر اسے اللہ تعالیٰ نے سختیوں اور تکلیفوں سے ڈھانک دیا اور بار دیگر ارشاد ہوا کہ اب پھر جا کر دیکھو۔ چناچہ حضرت جبرئیل بموجب ارشاد باری پھر دیکھ کر واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تیرے عزت و جلال کی قسم اب تو مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی بھی اس میں نہ جائے گا۔ اسی طرح جب جہنم کو پیدا کیا تو اس وقت بھی حضرت جبرئیل کو دیکھنے کا حکم ہوا۔ حضرت جبرئیل نے دیکھ کر عرض کیا رب العالمین تیری عزت وقدرت کی قسم جو اسے سنے گا وہ کبھی اس میں نہ جائے گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مرغوبات سے ڈھانک کر دوبارہ دیکھنے کا حکم فرمایا۔ حضرت جبرئیل گئے اور دیکھ کر عرض کیا کہ الٰہ العالمین تیری عزت و جلال کی قسم کوئی بھی اس میں بغیر داخل ہوئے نہ رہے گا۔ (جامع ترمذی ‘ ج 2) اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی اس مضمون کو اس طرح فرمایا ہے : وَ اِنَّھَا لَکبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ( نماز بیشک گراں ہے مگر انہیں گراں نہیں جو اللہ کے ساتھ عاجزی کرنے والے ہیں۔ ( یعنی انہیں آسان ولذیذ ہے) ۔ رعد سے مراد وہ آیات ہیں جو اللہ کے عذاب سے ڈرانے والی ہیں۔ برق سے مراد فتوحات اور غنائم کثیرہ ہیں جنہیں منافقین حاصل کرتے تھے اور اس سبب سے انہیں اتباع اور ظاہری اطاعت سہل تھی اور تکلیفوں کی تاریکی دفع ہوتی تھی ( یعنی منافقین چونکہ خالص ایمان کی دولت سے محروم تھے اس لیے وہ جو کچھ بھی اطاعت کرتے تھے اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ غنائم کے مال ہاتھ لگیں اور قتل و قید سے نجات پائیں۔ اس لیے جب انہیں غنائم ہاتھ آجائیں تو اطاعت گراں نہ ہوتی اور جب ہاتھ نہ لگتیں تو گراں گزرتیں یا برق سے مراد وہ واضح و روشن دلائل ہیں جو راہ راست کی طرف بلا رہی ہیں اور عبادات کی مشقت کو سہل و آسان کر رہی ہیں۔ کانوں میں انگلیاں دینے کی وجہ رعد اور کڑک ہے جو خوف کے سبب کانوں میں انگلیاں دے لیتے اور آپس میں کہتے تھے کہ اس قرآن کو نہ سنو اور اس میں بک بک نہ کیا کرو شاید تم ہی غالب آجاؤ اور یہ جو فرمایا کہ موت کے ڈر سے کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں تو اس کا مطلب اس تقدیر پر یہ ہے کہ انہیں یہ خوف لگا رہتا تھا کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو عبادتوں کی محنت و مشقت میں پڑجائیں گے اور جو کبھی جہاد کا نمبر آگیا تو قتل و قتال کرنا ہوگا۔ سو قتال اور عبادات کی تکالیف ان کی نظر میں بمنزلہ موت تھی۔ چناچہ حق تعالیٰ نے ان کے حال کو دوسرے موقع پر اس طرح فرمایا ہے : فَاِذَا جَآءَ الْخَوفُ رَاَیْتَھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنَھُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ ( یعنی اے محمد ﷺ ! آپ ﷺ انہیں دیکھتے ہیں کہ جب خوف پیش آتا ہے تو وہ آپ کی طرف دیکھتے ہیں ان کی آنکھیں ایسی چکراتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بےہوشی طاری ہو) کانوں میں انگلیاں دینے سے انکا یہ مطلب ہو کہ وہ بزعم فاسد یہ سمجھے ہوئے تھے کہ عذاب کی آیتیں سننے سے کانوں کا بند کرنا گویا ان کو عذاب سے بچا لے گا جیسا کہ احمق جب رعد اور کڑک سے سہمتا ہے تو کان بند کرلیتا ہے حالانکہ وہ اس بند کرنے سے نجات نہیں پاسکتا اور اسی طرح خرگوش جب شکاری کو سامنے آتا ہوا دیکھتا ہے اور کوئی جگہ نجات کی نہیں پاتاتو وہ یہ خیال کرکے آنکھیں بند کرلیتا ہے کہ اس کا نہ دیکھنا قتل و ہلاکت سے بچا لے گا اور واللّٰہُ مُحِیْطٌ بالکٰفِرِیْنَ سے اس تقدیر پر یہ مراد ہے کہ جو کچھ رنج ‘ رسوائی ‘ عذاب وغیرہ دنیا میں اور دائمی عذاب آخرت میں ان کے لیے لکھا گیا ہے وہ ضرور ہو کر رہے گا یا یہ مطلب کہ کانوں کا بند کرنا انہیں مفید نہیں اور نہ یہ فعل انہیں عذاب کی آفتوں سے رستگاری دے سکتا ہے۔ جیسا کہ خرگوش کو شکاری سے آنکھیں بند کرنا خلاصی نہیں دے سکتا بلکہ اسے مغلوب و عاجز کردیتا ہے اور یَکَادُ الْبَرْقُ میں بھی برق سے مراد فتوحات اور غنائم اور شوکت اسلام ہے اس تقدیر پر آیت کے یہ معنی ہونگے چونکہ یہ لوگ دنیا کے حریص زیادہ ہیں اس لیے فتوحات و غنائم وغیرہ ان کی آنکھوں کو عنقریب راہ حق دیکھنے سے اندھا کرنے والی ہیں یا یہ کہ برق سے مراد روشن اور واضح دلائل ہوں۔ اس صورت میں یہ معنی ہونگے کہ اسلام کی حقانیت کی واضح اور روشن دلائل عنقریب ان کی آفت رسیدہ نگاہوں اور ان کی بےہودہ عقلوں کو جن سے وہ باطل کو حق اور حق کو باطل خیال کرتے اور دیکھتے ہیں سلب کرنے والی ہیں۔ پس جب ایسی عقلیں اور نگاہیں مسلوب ہوجاتی ہیں تو وہ حق کو حق اور باطل کو باطل دیکھنے لگتی ہیں اور دل میں ایمان آجاتا ہے۔ کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ یعنی جب مسلمانوں کی دولت و فتح ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کی کھلی حجتیں دیکھتے ہیں تو اس روشنی میں چلتے ہیں یعنی مومنین کا اتباع کرتے ہیں اور جب برق غائب ہوجاتی اور تاریکی چھا جاتی ہے یعنی فتح ظاہر نہیں ہوتی اور دین میں رنج و مشقت پاتے ہیں تو اسلام کے روشن دلائل کو بھول جاتے ہیں اور کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور چلنے سے ٹھہر جاتے ہیں اسی مضمون کے مطابق حق تعالیٰ نے دوسرے مقام پر بھی فرمایا ہے۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ ن اِطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انَْقَلَبَ عَلیٰ وَجْھِہٖ ( یعنی بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ اللہ کی عبادت شک اور تردد سے کرتے ہیں اگر کوئی نعمت حاصل ہوگئی تو مطمئن ہوگئے اور جو کوئی بلا آگئی تو الٹے پھرگئے) وَلَوْ شَآء اللّٰہ یعنی اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ان کے کانوں اور آفت رسیدہ آنکھوں کو بجلی کی شدت سے ضائع کردے اور حق کو دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان عنایت فرما دے جیسا کہ دوسرے موقع پر فرمایا : وَلَوْ شِءْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ھُدٰھَا وَ لٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَءَنَّ جَھَنَّم (یعنی اگر ہم چاہتے ان کو اس کی ہدایت عطا فرماتے مگر میری یہ بات پوری ہوگئی کہ میں جہنم کو بھروں گا) ۔ ابن جریر نے سدی کبیر کے طریق سے بروایت ابی مالک بحوالہ ابن عباس ؓ نیز ابن جریر ہی کی روایت سے بحوالہ ابن مسعود اور دیگر صحابہ ؓ روایت کیا ہے کہ دو منافق سرور عالم ﷺ کے حضور سے مشرکین میں شامل ہونے کے لیے مدینہ سے چلے راستہ میں ان کو ایسی ہی بارش نے کہ جس کی نسبت حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس میں رعد اور برق اور ظلمت تھی آگھیرا۔ جب کڑک کی ہولناک آوازیں کانوں میں آتیں تو اس وقت اس ڈر سے کہ کہیں یہ کانوں میں گھس کر ہلاک نہ کردے کانوں میں انگلیاں دیتے اور جب بجلی کوندتی تو اس کی روشنی میں چلتے اور جب نہ کوندتی تو انہیں کچھ دکھائی نہ دیتا اس طرح گرتے پڑتے اپنے مقام و منزل پر آئے اور کہنے لگے کہ خدا کرے جلدی صبح ہو تو ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت مبارک میں حاضر ہوں اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیں۔ چناچہ جب صبح ہوئی تو خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے اور سچے دل سے بیعت کرلی اور اسلام ان کا کامل ہوگیا پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں منافقوں کے حال کو مدینہ کے منافقین کے لیے مثل بنا دیا کیونکہ ان کی حالت بھی انہیں کے مشابہ تھی چناچہ جب سرور کائنات کی مجلس شریف میں آتے تو کانوں میں انگلیاں دیئے رہتے کہ کبھی کوئی ایسی آیت نہ سن لیں جو ان کے بارے میں نازل ہوئی ہو یا یہ کہ ایسی بات کا ذکر نہ سن پائیں کہ جو ان کے قتل کا سبب بن جائے جیسا کہ وہ دونوں انگلیاں کانوں میں دیتے اور تاریکی کے وقت توقف کرتے تھے۔ منافقین کی حالت یہ تھی کہ جب ان کے پاس مال و اولاد کثرت سے ہوجاتا اور غنیمت و فتح میسر ہوجاتی تھی تو اسلام کا اتباع کرتے اور کہتے تھے کہ محمد ﷺ کا دین اب تو سچا ہی معلوم ہوتا ہے اور دین پر کچھ قائم رہتے تھے جیسے کہ وہ دونوں بھی جب بجلی کوندتی تو چلنے لگتے تھے اور جب منافقوں کے مال و اولاد پر کوئی آفت آجاتی تو کہتے کہ یہ محمد ﷺ کے دین کے سبب پیش آئی ہے اور کافر ہوجاتے تھے جیسے کہ وہ دونوں بھی جب بجلی نہ چمکتی تو حیران کھڑے رہ جاتے تھے تمام ہوا مضمون روایت جریر کا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں ممکن ہے کہ ظلمات سے مراد آیات متشابہات ہوں کہ جو رائے و عقل سے سمجھ میں نہیں آسکتیں اور برق سے مراد آیات محکمات ہوں کہ جو عقول متوسط سے سمجھ میں آسکیں تو مؤمن خالص اور فرقہ ناجیہ اہل سنت تو یہی کہتے ہیں کہ ہم سب پر ایمان لاتے ہیں خواہ ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں جو کچھ ہے اللہ کی طرف سے ہے اور جن کے دل میں نفاق اور کجی ہے اور فساد و فتنہ ڈالتے اور اپنی رائے کے موافق آیات میں تاویلات باطلہ کرتے ہیں اور اگر اس کی ممانعت سنائی جاتی ہے تو کان بند کرلیتے ہیں اور حَذَرَ الْمَوت میں اس توجیہ کے موافق موت سے مراد آیات کے وہ معانی حقہ ہیں کہ جو ان کی رائے ناقص اور ان کے مذہب باطل کے موافق و معین نہیں ہیں کیونکہ ان معافی کو گویا وہ موت سمجھتے ہیں اور قرآن کو اپنی کجی رائے کے موافق بنانا چاہتے ہیں۔ کُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ یعنی جب کوئی حکم ان کے رائے ناقص کے موافق ہوتا ہے تو اس کا اتباع کرتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں وَ اِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْہِم قَامُوْا یعنی جب ان کی عقل وہاں تک نہیں پہنچتی تو اس پر ایمان لانے سے توقف کرتے اور اپنی رائے فاسد کی موافق اس کی تاویل کی فکر میں لگتے ہیں پس ایسی تاویلات باطلہ کرنے والوں کے بہت سے فرقے ہوگئے بعض تو وہ ہیں کہ کہتے ہیں ہر موجود مجسم ہی ہوتا ہے اور ہر شے کا مثل ہوسکتا ہے تو ان کی عقل کو اس طرف رسائی ہی نہ ہوئی کہ کوئی موجود غیر ذی جسم اور بےمثل بہی ہوتا ہے اسی بناء پر تنزیہ باری تعالیٰ کا انکار کر بیٹھے اور حق تعالیٰ کے لیے جسم ثابت کردیا یہ تو مجسمہ بن گئے۔ اور بعض نے رویت کا انکار کیا۔ اور بعض نے عذاب قبر کو اور وزن اعمال کو اور صراط وغیرہ کو نہ مانا اور بعض نے قرآن کے غیر مخلوق ہونے سے انکار کیا حالانکہ قرآن اللہ کا کلام ہے یہاں تک کہ بہتر فرقے ہوگئے۔ رافضی، خارجی، معتزلہ، مجسمہ وغیرہا گویا یہ سب ( زبان حال سے) کہہ رہے ہیں تُؤْمِنُ بِبَعْضٍ الْکِتَابِ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ( یعنی ہم کتاب کے بعض حصہ پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار و کفر کرتے ہیں وَ لَوْ شَآء اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمعِھِمْ وَ اَبْصَارِھِمْ یعنی اگر اللہ چاہتا تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو ضائع فرما دیتا کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کو اپنی رائے کے تابع بنا لیا۔ اس تفسیر کے موافق وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ سے آخر رکوع تک تمام آیات اہل ہواء کے بہتر کے بہتر فرقوں کو کہ جنہوں نے اپنی دین میں اختلاف ڈال دیا اور سب کے سب اپنے حال میں مست ہوگئے متضمن اور شامل ہو نگی۔ (تقریر و توضیح اس کی مندرجہ ذیل ہے) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَ بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یعنی بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لے آئے یعنی ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِین حالانکہ وہ ایمان والے نہیں یعنی رسول اللہ ﷺ جن احکام کو لائے ہیں ان سب پر ایمان نہیں لائے۔ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (یعنی اللہ اور مؤمنین کو ( آیات قرآنی میں تاویلات فاسدہ کرکے) دھوکہ دیتے ہیں۔ وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ یعنی وہ اپنے آپ ہی کو دھوکا دیتے ہیں لیکن اس کو سمجھتے نہیں بلکہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور معنی قرآن کے یہی ہیں جو ہم نے تراشے ہیں۔ سنو بیشک یہ لوگ جھوٹے ہیں فِی قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ یعنی ان کے دلوں میں کجی ہے فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا اللہ نے ان کی کجی کو بڑھا دیا چناچہ شیطان نے ان کے دل میں تاویلات فاسدہ ڈال دیں وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْہَ یعنی ان کے لیے اللہ پر جھوٹ باندھنے اور ظاہر نصوص کی تکذیب کرنے کے سبب سخت عذاب ہے۔ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ( یعنی جب ان کو کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت کرو یعنی آیات میں تحریف مت کرو اور دین مستقیم میں کجی مت ڈالو۔ قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح ہی کرتے ہیں۔ اَلَا اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ آگاہ رہو بیشک وہی فسادی ہیں کہ تاویلات باطلہ کرکے فتنہ ڈالتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ ( یعنی جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آؤ جیسا کہ لوگ ایمان لائے یعنی اصحاب محمد ﷺ و اہل بیت اور عامہ مسلمین یعنی اہل سنت والجماعت کیونکہ سب فرقوں میں سب سے زیادہ ما شاء اللہ یہی ہیں اور اکثر کو کل کا حکم ہوتا ہے) چناچہ ترمذی نے ابن عباس ؓ سے موقوفاً روایت کیا ہے کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ یعنی حفاظت ہوتی ہے۔ قَالُوْا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ ( تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ایمان لے آئیں جیسے کہ بیوقوف لوگ ایمان لے آئے) مومنین کو وہ بیوقوف اس وجہ سے کہتے تھے کہ ان کے عقائد ان کی رائے کے موافق نہ تھے اور وہ یہ کلمہ صحابہ کی شان میں یا تو صراحۃً کہتے تھے جیسا روافض و خوارج بھی اصحاب نبی کو احمق اور کافر کہتے تھے۔ (معاذ اللہ) اور یا دلالۃً کہتے تھے یعنی ان کی مخالفت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ عقائد کچھ سمجھ میں نہیں آئے۔ وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا [ الایہ ] اس آیت سے اللہ تعالیٰ ان مذاہب باطلہ کے فساد اور خرابی و فتنہ کو بیان فرماتا ہے اور مؤمنین سے ملنے کے وقت جو وہ ایمان کا دعوی کرتے اور کہتے تھے کہ ہم مؤمن ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق زمین کا خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین ان کے لیے پسند فرمایا تھا اس پر جما دیا تھا اس لیے وہ اہل حق سے ڈرتے تھے اور مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَ کی دو تفسیریں ہوسکتی ہیں یا تو یہ منافقین اور اہل ہوا دونوں کے لیے مثل ہو کیونکہ اہل ہوا کا ایمان اور اس کے نور کی چمک ایسی ہی ہے جیسے آگ جلا نے والے کی روشنی کہ وہ صرف دنیا ہی میں ان کو نفع دیتا ہے جب موت آئے گی تو وہ ایمان ان کے کام کا نہیں اور اللہ تعالیٰ اس نور کو ضائع فرما دیگا۔ اور یا یہ صرف منافقین کی مثال ہو اور اَوْ کَصَیِّبٍ اہل ہوا کی مثل ہو اس تقدیر پر لفظ اَوْ ۔ اَوْ کَصَیِّبٍ میں تقسیم کے لیے ہوگا یعنی اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ پہلی مثل تو ایک خاص فریق کی ہے یعنی منافقین کی اور دوسری مثل دوسرے خاص گروہ یعنی اہل ہوا کی۔ یہ مطلب نہیں کہ دونوں مثل ایک ہی گروہ کی ہوں اور لفظ اَوْ اختیار دینے کے لیے مستعمل ہو جیسا کہ آیت : اَنْ یُّقَتَّلُوْا اَوْ یُصَلَّبُوٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُّنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ میں اَوْ تَوزیع کا ہے۔ اگر (اس توجیہ پر جو میں نے لکھی ہے) کوئی معترض یہ کہے کہ اس مثل کو اہل ہوا کے حق میں کہنا کیونکر بن سکتا ہے نبی ﷺ کے زمانے میں تو ان کا پتہ و نشان بھی نہ تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے خطابات بالاتفاق سب کو شامل ہیں خواہ وہ اس زمانہ میں موجود ہوں یا بعد میں موجود ہوں۔ دیکھو آیت : فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ تمام اہل ہوا کی شان میں ہے حالانکہ وہ سب کے سب زمانہ خیر میں موجود نہ تھے۔ اور اگر کوئی کہے کہ ان آیات کا نزول منافقین کے ہی حق میں ہے۔ احادیث اور علماء سلف کی تفسیریں اس پر صاف صاف دلالت کرتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ آیات منافقین کے بارے میں ہیں لیکن مورد کی خصوصیت لفظ عام کی تخصیص کو مقتضی نہیں ہے پس بنا بریں یہ آیات اگرچہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئیں لیکن سبب عموم الفاظ کے اہل ہواء کو بھی شامل ہیں فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top