Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے
تفسیر آیات 9 تا 11:۔ یہ لوگ مطالبہ نزول عذاب میں بےصبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، انسانی مزاج کے اس پہلو پر یہاں مزید روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ انسان کسی حالت پر بھی ثابت قدم اور صحیح رائے قائم کرنے میں صحیح الفکر نہیں ہوتا۔ اس کی نفسیات یہ ہیں : اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آئی تھی ، ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرے سارے دلدر پار ہوگئے ، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ انسان فطرتاً جلد باز اور پر تقصیرات ہے اور ان آیات (آیات 9 تا 11) میں اس کی کیا ہی اچھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ وہ اس قدر کوتاہ نظر ہے کہ صرف حاضر حالات ہی کو دیکھ سکتا ہے اور اپنے اوپر وہی حالات طاری کردیتا ہے جو اس کے ماحول پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ نہ ماضی پر غور کرنے کی تکلیف کرتا ہے اور نہ مستقبل کی فکر کرتا ہے۔ کبھی وہ اس قدر مایوس ہوجاتا ہے کہ اسے کسی بھلائی کی اور اچھے حالات کی امید نہیں رہتی۔ اور اگر اچھے دن گزرتے ہیں تو وہ تمام گزشتہ نعمتوں کا انکار کردیتا ہے۔ حالانکہ یہ تو اللہ کی جانب سے ایک انعام و اکرام تھا۔ اس کا کوئی استحقاق نہ تھا اور مشکلات کے بعد اگر اس کے اچھے دن آجائیں تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے ، غرور کرتا ہے۔ نہ وہ مشکلات بردشت کرکے اللہ کے رحم و کرم کا امیدوار ہوتا ہے اور نہ اپنی خوشی میں اعتدال اختیار کرتا ہے اور خوشیوں اور نعمتوں کے زوال کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ۔ اس عیب سے پاک اگر کوئی ہیں تو بس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکو کار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ یعنی انہوں نے انعامات و اکرامات پر بھی صبر کیا اور مشکلات پر بھی صبر کیا۔ مشکلات میں تو بیشتر لوگ صبر کرتے ہیں اپنی خود داری اور سفید پوشی کی وجہ سے اور اس لیے کہ ان کی کمزوری اور مشکلات کا لوگوں کو پتہ نہ لگ جائے۔ لیکن کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوشحالی اور مالداری میں اپنے آپ کو سنبھال سکتے ہیں اور غرور اور سرکشی سے اپنے آپو کو بچا سکتے ہیں۔ تاہم جو لوگ اچھی روش بحال رکھتے ہیں ، مشکلات میں بھی اور خوشحالی میں بھی اچھے کام کرتے ہیں اور نعمتوں کا شکر کا دا کرتے ہیں یعنی وعملوا الصلحات کے پیکر ہوتے ہیں ان کے متعلق ارشاد ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ۔ وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔ اس لیے کہ انہوں نے مشکلات میں صبر کیا اور خوشحالی میں انہوں نے سنجیدگی اور اعتدال سے کام لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور مخلص اور سچا ایمان ہی انسان کو نہایت ہی مشکل حالات میں کافرانہ مایوسی سے بچاتا ہے۔ اسی طرح سچا ایمان باللہ ہی انسان کو اس کی خوشحالی اور فراوانی میں کبر و غرور سے بچاتا ہے۔ غرض قلب انسانی کو یہ سچا ایمان ہی اچھے اور برے دونوں حالات میں متوازن اور مستقیم رکھتا ہے۔ اور قلب مومن اچھی طرح بندھا ہوا ہوتا ہے۔ مشکلات اور مصائب ڈانواں ڈول نہیں ہوتا اور خوشحالی اور مالداری میں پھولتا نہیں اور یوں اہل ایمان کی دونوں حالات اچھے رہتے ہیں اور اہم مقام صرف مومنین کو ملتا ہے جس طرح حضور نے فرمایا۔
Top