Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اسکو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا ہے )
9۔ 11 مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ناشکری کچھ قرآن کی نعمت کی ناقدری پر منحصر نہیں ہے بلکہ ان کی ناشکری تو دنیا کی نعمتوں میں بھی ہے چناچہ ان میں سے کسی کو اللہ اپنی رحمت کا اگر نمونہ دکھاتا ہے اور اس کے رزق میں ترقی کردیتا ہے تو یہ لوگ عیش و آرام میں پڑے رہتے ہیں اور جب ان کے سر سے ذرا بھی اس رحمت کا سایہ الگ کرلیا تو پھر ان کو آئندہ کی فلاحیت کی امید نہیں رہتی اور پہلے عیش و آرام ان کے خیال سے بالکل جاتے رہتے ہیں اور اگر اللہ تکلیف کے بعد کسی کو خوش حال کردیتا ہے تو وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے اور اپنے مال پر اس قدر اترانے لگتا ہے کہ جس کا کچھ ٹھکانا نہیں مگر جو لوگ سختی اور مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کئے جاتے ہیں تو ان کے لئے اس صبر کے بدلے میں مغفرت ہے اور نیک عمل کے عوض میں جنت۔ معتبر سند سے ترمذی میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن کو جو مصیبت پہنچی ہے مثلاً کوئی تکلیف یا رنج فکر غم تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوتا ہے۔ 1 ؎ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا راحت کے وقت شکر اور تکلیف کے وقت صبر یہ ایماندار آدمی کا کام ہے۔ 2 ؎ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ راحت کے وقت شکر اور تکلیف کے وقت صبر فرمانبرداروں کی نشانی ہے اور راحت کے وقت ناشکری اور تکلیف کے وقت بےصبری نافرمانوں کی نشانی ہے اور تکلیف کے وقت صبر کرنے سے آدمی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ 1 ؎ الترغیب ص 296 الترغیب نے الصبر الخ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 452 باب الصبروالتوکل۔
Top