Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
آخر کار ان لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اس مومن کے خلاف چلیں ، اللہ نے ان سب سے اس کو بچالیا ، اور فرعون کے ساتھ خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے
آیت نمبر 45 تا 50 یہاں اس دنیا کے صفحات کو لپیٹ دیا جاتا ہے اور کتاب دنیا کا آخری صفحہ جو ہم نے پڑھا یہ ہے کہ رجل مومن جس نے کلمہ حق نہایت بےباکی کے ساتھ کہا اور چلا گیا تو اسکو اللہ نے فرعون کی بری اور گہری مکاریوں سے بچالیا۔ فرعون اور اسکے حاشیہ نشین نہ اسے اس دنیا میں گزند پہنچاسکے اور نہ آخرت میں جبکہ فرعون اور اس کے تمام ساتھی ایک نہایت ہی برے عذاب میں گھر گئے۔ النار یعرضون۔۔۔۔ اشد العذاب (40: 46) ” دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے یہ صبح وشام پیش کیے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو “۔ آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ صبح وشام ان کو آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کے زمانے میں ، یہ ہوگا عذاب قبر۔ کیونکہ اس کے بعد یہ فقرہ آتا ہے۔ ویوم تقوم۔۔۔۔ العذاب (40: 46) ' اور جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو “۔ لہٰذا آگ پر پیش کرنے کا عذاب قیامت سے پہلے کا عذاب ہوگا اور یہ بہت ہی سخت سزا ہے کہ صبح وشام ان کو آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ اسے دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ یہ آگ ہے جو انہیں جلائے گی۔ اس کی حرارت تو ان کو بہرحال پہنچے گی۔ یہ بھی شدید عذاب ہے کیونکہ لفظ عرض قرآن میں چھونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تو معنی یہ ہوں گے کہ عملاً انہیں صبح وشام آگ میں جلایا جاتا ہے اور قیامت کے دن پھر مستقلاً شدید ترین عذاب میں داخل ہوں گے۔ لیکن اگلی آیت میں اب جو منظر ہے اس میں قیامت عملاً برپا ہے۔ ایک جھلک جہنم کی دکھائی جاتی ہے۔ جہاں وہ یوں جھگڑتے ہیں : فیقول۔۔۔۔ من الناز (40: 47) ” دنیا میں جو لوگ کمزور تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے ، ہم تمہارے تابع تھے ، اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچالوگے “۔ اس وقت ضعفاء بھی متکبرین کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔ یہ بات ان کے لیے بھی مفید نہ ہوگی کہ وہ دوسروں کے تابع مہمل تھے اور ماتحت تھے۔ ان کے لیے یہ بات مفید نہ ہوگی کہ انہیں تو دنیا میں بھیڑ بکریوں کی طرح چلایا جارہا تھا۔ اور ان کی کوئی رائے اور کوئی ارادہ نہ تھا اور نہ اختیارات تھے۔ اللہ نے تو ان کو بہت بڑا مرتبہ دیا تھا ، انسانی کرامت اور شرافت دی تھی اور یہ شرافت دی تھی کہ ہر ایک فرد اپنے کیے کا ذمہ دار ہے۔ اور ہر فرد کو آزادی اور حریت دی تھی لیکن انہوں نے ازخود ان سب باتوں کو ترک کردیا اور ازخود انہوں نے ان بڑے اور سرکشوں کے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ اس لیے اب یہ لوگ ان کبراء سے کیوں شکایت کرتے ہیں بلکہ وہ اس شکایت کے بارے میں سوچتے کیوں ہیں بلکہ یہ جو شکایت کرتے ہیں اسکے بارے میں انہوں نے سوچا ہی نہیں ، وہ کہتے ہیں۔ انا کنا لکم تبعا (40: 47) ” ہم تمہارے تابع تھے “۔ لیکن یہ اس لیے تو تابع نہ ہوئے تھے اور اپنی آزادی سے اس لیے تو دستکش نہ ہوئے تھے کہ اللہ کے ہاں یہ کبراء کوئی شفاعت کریں گے۔ وہ تو اس وقت آگ میں جل رہے ہیں اور یہاں تک کبراء ہی نے ان کو پہنچایا ہے ، جس طرح وہ دنیا میں ان کو چلاتے تھے۔ اس طرح جیسے بھیڑ بکریوں کو چلایا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ ان کبراء سے پوچھتے ہیں۔ فھل انتم مغنون عنا نصیبا من النار (40: 47) ” اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچالوگے “۔ جس طرح زمین میں تمہارا دعویٰ تھا کہ ہم عوام کو سیدھے راستے کی طرف لے جاتے ہیں اور فساد سے بچاتے ہیں اور شر اور تکلیفوں اور دکھوں سے اور دشمنوں کی سازشوں سے بچاتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دنیا میں بڑے بنے ہوئے تھے۔ وہ اس سوال کا جواب بڑی ترشی سے دیتے ہیں ، کیونکہ وہ جہنم کے عذاب میں جل رہے ہیں ، نہایت ہی تنگدلی کیساتھ ، وہ دوٹوک الفاظ میں ، جواب دیتے ہیں اور استکبار کے بعد اب اجرام کا اقرار کرتے ہیں۔ قال الذین۔۔۔۔ العباد (40: 48) ” بڑے بننے والے جواب دیں گے ، ہم سب یہاں ایک حال میں ہیں اور اللہ بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے “۔ ہم سب اس میں ہیں۔ اناکل فیھآ (40: 48) ” ہم سب اس میں ہیں “۔ اب ہم سب ضعفاء ہیں۔ کوئی معاون اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ سب رنج والم میں مبتلا ہیں ، سب کے سب دردوکرب میں ہیں۔ اس لیے تمہارا سوال احمقانہ ہے ۔ یہاں تو کبراء وضعفاء سب ہی مر رہے ہیں۔ اللہ نے فیصلہ سب کا کردیا ہے ، اس پر کوئی اپیل نہیں ہوسکتی ، اس میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔ یہ فائنل فیصلہ ہے۔ بندوں میں سے تو کوئی اللہ کے کسی فیصلے کی سزا میں کمی نہیں کرسکتا۔ جب دونوں نے معلوم کرلیا کہ اللہ کے سوا کوئی شنوائی نہیں کرسکتا تو یہ لوگ اب جہنم کے داروغہ کی طرف جاتے ہیں ، نہایت ہی ذلت کی حالت میں ، نہایت ہی عاجزی اور بےکسی میں ، اور یہ حالت کبراء وضعفاء دونوں پر طاری ہے۔ وقال الذین۔۔۔۔۔ العذاب (40: 49) ” پھر یہ دوزخ میں پڑے ہوئے لوگ جہنم کے اہل کاروں سے کہیں گے ” اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے عذاب میں پس ایک دن کی تخفیف کردے “۔ اب یہ جہنم کے اہل کاروں کی سفارش لانے کی سعی کریں گے کہ وہ ان کی دوخواست پیش کریں ، ان اہلکاروں سے امیدیں وابستہ کریں گے کیونکہ عذاب سخت ہے ، اور تم لوگ رب تعالیٰ سے صرف ایک دن کی معافی دلوا دو ۔ صرف اہل دن ۔ کہ ایک دن کے لیے تو ہم سانس لے سکیں اور ایک دن ہی تو آرام سے گزرجائے ۔ جہنم میں ایک دن بھی اس قدر اہم ہوگا کہ اس کے لیے یہ عاجزانہ التماس کررہے ہیں۔ لیکن جہنم کے اہل کار اس عاجزانہ دوخواست پر بحث ہی نہیں کرتے ۔ جو نہایت ہی ذلت اور مصیبت میں دی گئی ہے کیونکہ ان کو اللہ کے قواعد معلوم ہیں۔ ان کو سنت الہیہ کا علم ہے۔ امن کو معلوم ہے کہ ان لوگوں نے وقت گنوادیا ہے۔ لہذا وہ ان کو ملامت کرکے مزید دکھ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اب تو سوچو کہ اس حالت زار تک کس طرح پہنچے۔ قالوآاولم۔۔۔۔۔ قالوابلٰی (40: 50) ” وہ پوچھیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول نشانیاں لے کر نہیں آتے رہے تھے۔ وہ کہیں گے ہاں “۔ جہنم کے اہل کار ان کا یہ سوال جواب ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ بات یہاں ختم ہوجائے ۔ اب جہنم کے اہل کار ان سے دامن جھاڑلیتے ہیں اور نہایت ہی حقارت اور استہزاء کے ساتھ ان کو اس مایوسی میں ڈوبا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔ قالوا فادعوا (40: 50) ” پھر تو تم دعا کرو “۔ اگر یہ دعا تمہاری اس حالت کے اندر کوئی تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔۔۔۔ اور آخر میں یہ تبصرہ آتا ہے : وما دعوالکٰفرین الافی ضلٰل (40: 50) ” اور کافروں کی دعا اکارت ہی جانے والی ہے “۔ وہ مقام تک نہیں پہنچ سکتی ۔ وہ نہ جگہ تک پہنچتی ہے اور نہ اس کا جواب آتا ہے۔ یوں ضعفاء اور کبراء دونوں کو ناقابل التفات حالت میں چھوڑدیا جاتا ہے۔ جہنم کے اس فیصلہ کن موقف کے بعد آخری تبصرہ یہ ہے۔ یہ تمام مخلوق کے لیے سبق ہے۔ اس سے قبل اس طرف اشارہ آیا تھا کہ جو گروہ اور پارٹیاں اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہیں اور رسول کی تکذیب کرتی ہیں اور زمین میں استکبار کا رویہ اختیار کرتی ہیں ، قیامت میں تو ان اک یہ حال ہوگا ہی دنیا میں بھی بےغم نہ رہیں گے۔
Top