Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
پس اللہ نے اس کو ان کی چالوں کی آفتوں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں کو میرے عذاب نے گھیر لیا۔
فرعون اور اس کے اعیان کی سازشوں کی ناکامی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس تقریر کے بعد فرعون اور اس کے تمام اعیان ان کے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور ان کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں لگ گئے کہ کسی طرح ان کو اپنے دین میں واپس لائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں کے شر سے ان کو محفوظ رکھ۔ اس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے جو سازشیں ان کو دین حق سے پھیرنے کے لئے کیں ان میں کوئی کامیابی ان کو نہیں ہوئی۔ اسی طرح اللہ کے جو بندے حق کا اعلان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دین و ایمان کی حفاظت فرماتا ہے۔ فرعون اور اس کے اتباع کا انجام ’ وحاق بال فرعون سوٓء العذاب ‘۔ ’ ال فرعون ‘ سے ظاہر ہے کہ یہاں اس کے آل و اتباع سب مراد ہیں۔ فرمایا کہ بندہ مومن کو تو اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے شر سے محفوظ رکھا البتہ فرعون اور اس کے اتباع کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ ’ برے عذاب ‘ سے مراد وہ فیصلہ کن عذاب ہے جس نے فرعون اور اس کی ساری فوجوں کو غرق کردیا۔ اس کو برے عذاب سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کے دوران میں متعدد عذاب اہل مصر پر آئے لیکن یہ عذاب تنبیہ و تذکیر کے لئے تھے جن میں مومن و کافر دونوں ہی آزمائے گئے لیکن یہ آخری عذاب جو آیا تو اس سے مومن تو محفوظ رکھے گئے لیکن فرعون اور اس کی نسل کی اس نے جڑ کاٹ دی۔ لفظ ’ حان ‘ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس عذاب نے اس طرح ان کو اپنے احاطہ میں لے لیا کہ ان کے لئے کوئی مفر باقی نہیں رہا۔
Top