Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
غرض ! خدا نے موسیٰ کو ان لوگوں کی تدبیروں کی برائیوں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں کو برے عذاب نے آگھیرا
( فوقہ اللہ سیات ما مکرواو۔۔۔۔۔۔۔۔ ) فوقہ اللہ سیات ماماکرواللہ تعالیٰ نے اسے بچا لیا عذاب کی جو انواع انہوں نے آپ کو پہنچانے کا مکر کیا تھا انہوں نے اسے تلاس کیا اور اور نہ پایا کیونکہ اس نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا تھا۔ قتادہ نے کہا : وہ قطبی تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اسرائیل کے ساتھ نجات دی، اس تعبیر کی بناء پر ھاء ضمیر آل فرعون کے مومن کے لیے ہوگی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ضمیر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ہوگی جس طرح یہ اختلاف پہلے گزر چکا ہے۔ و حاق بال فرعون سوء العذاب۔ کسائی نے کہا : یہ کہا جاتا ہے حاق یحیق حیقاوحیوقا یعنی کوئی چیز نازل ہو اور لازم ہو پھر عذاب کی وضاحت کی اور فرمایا : النار یعرضون علیھا اس میں چھ وجوہ ہیں : یہ مرفوع ہوا اور سوء سے بدل ہو یہ بھی جائز ہے کہ تقدیر کلام ہوں ہوھو الناریہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتداء ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہو۔ فراء نے کہا : یہ ضمیر عائد کی وجہ سے مرفوع ہو تقدیر کلام یوں ہو النار علیھا یعرضون رفع میں یہ چار وجوہ ہیں۔ فراء نے اس میں نصب کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ اس کے ما بعد ضمیر عائد ہے اور اس سے ما قبل وہ چیز ہے جس کے ساتھ یہ متصل ہے۔ اخفش نے العذاب سے بدل کے طور پر جر کو جائز قرار دیا ہے۔ جمہور نے کہا ہے یہ پیشی برزخ میں ہے۔ بعض علماء نے النار یعرضون علیھاغدواو عشیا سے عذاب قبر کا اثبات کیا ہے جب تک دنیا قائم ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا : مجاہد، عکرمہ، مقاتل اور محمد بن کعب نے اسی طرح کا قول کیا ہے سب نے کہا : یہ آیت دنیا میں عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ عذاب آخرت کے بارے میں فرمایا :” ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے حدیث طیبہ میں ہے :” آل فرعون اور جو ان کی مثل کافر ہیں ان کی روحوں کو صبح اور شام کے وقت آگ پر پیش کیا جاتا ہے انہیں کہا جاتا ہے : یہ تمہارا گھر ہے “۔ ان سے یہ بھی مروی ہے :” ان کی روحیں سیاہ پرندوں کے پیٹوں میں ہیں وہ ہر روز صبح اور شام کے وقت دو دفعہ جہنم پر جاتے ہیں “۔ یہی ان کی پیشی ہے۔ شعبہ نے یعلی بن عطاء سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے میمون بن مہران کو کہتے ہوئے سنا حضرت ابوہریرہ ؓ صبح کے وقت یہ اعلان کرتے : الحمد اللہ ہم نے صبح کی اور آل فرعون کی آگ پر پیش کیا گیا جب شام ہوتی تو اعلان کرتے الحمد للہ ہم نے شام کی اور آل فرعون کو آگ پر پیش کیا گیا : کوئی بھی حضرت ابوہریرہ ؓ کو نہ سنتا مگر آگ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا۔ 1 ؎۔ تفسیر الماوردی، جلد 5، صفحہ 158 ضخر بن جویریہ، نافع سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کافر جب فوت ہوتا ہے تو اسے صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت کی ” النار یعرضون علیھا عدواو عشیا “ جب مومن فوت ہوتا تو اس کی روح صبح و شام جنت پر پیش کی جاتی ہے “۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تم میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے تو صبح اور شام کو اس کا ٹھکانہ اس پر پیش کیا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہو تو جنتی ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے اگر وہ جہنمی ہو تو جہنمی ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔ اسے کہا جاتا ہے : یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز تجھے دوبارہ اٹھائے گا “۔ (1) فراء نے کہا : غداۃ اور عشیہ یہ اس دنیا کے اعتبار سے ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ کہا : غدوا غشیا یہ دنیا کے ایام کے اعتبار سے ہے۔ حماد بن محمد فزاری نے کہا : ایک آدمی نے اوزاعی سے کہا ہم پرندے دیکھتے ہیں جو سمندر سے نکلتے ہیں جو مغرب کی سمت کو جاتے ہیں وہ سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں وہ فوج در فوج ہوتے ہیں ان کی تعداد اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی نہیں جانتا جب پچھلا پہر ہوتا ہے تو اسی کی مثل سیاہ پرندے لوٹتے ہیں فرمایا : یہی وہ پرندے ہیں جن کی پوٹوں میں آل فرعون کی روحیں ہیں جنہیں صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے وہ اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں جبکہ ان کے پر جل چکے ہوتے ہیں اور وہ سیاہ ہوجاتے ہیں رات کے وقت ان کے سفید پر اگتے ہیں پھر وہ صبح کرتے ہیں تو انہیں صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے پھر وہ اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں۔ جب تک دنیا رہے گی ان کا یہ معمول رہے گا جب قیامت ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا :” ادخلو ال فرعون اشد العذاب۔ “ اشد العذاب سے مراد ھاویہ ہے۔ اوزاعی نے کہا : ہمیں یہ خبر پہنچی ہے وہ چھبیس لاکھ ہیں عدوا اصل میں مصدر ہے مجاوزاً اسے ظرف بنایا گیا ہے وغشیا کا اس پر عطف کیا گیا ہے گفتگو یہاں مکمل ہوئی پھر نئی کلام شروع کرے گا ویوم تقوم الساعۃ یوم کو نصب ادخلوا کے قول سے دی گئی ہے یہ بھی جائز ہے کہ یہ یعرضون کی وجہ سے منصوب ہو معنی ہوگا دنیا میں انہیں آگ پر پیش کیا جائے گا ویوم تقویم الساعہ اس پر وقف نہ کیا جائے گا۔ نافع، اہل مدینہ حمزہ اعور کسائی نے ادخلوا پڑھا ہے یعنی ہمزہ یعنی ہے اور خاء مکسور ہے یہ ادخل سے مشتق ہے : یہ ابو عبید کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ انہیں جہنم میں داخل کریں اس کی دلیل النار یعرضون علیھا ہے باقی قراء نے اسے ادخلو پڑھا ہے یہ دخل سے مشتق ہے یعنی انہیں کہا جائے گا : اے آل فرعون ! شدید ترین عذاب میں داخل ہو جائو، یہ ابو حاتم کا پسندیدہ نقطہ نظر سے کہا : پہلی قرأت کے مطابق آل مفعول اول ہے اور اشد مفعول ثانی ہے یہاں حرف جار حذف ہے دوسری قرأت میں یہ منصوب ہے کیونکہ یہ منادی مضاف ہے اور آل فرعون سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کے دین اور مذہب پر تھے۔ وہ لوگ جو اس کے مذہب اور دین پر تھے ان کا عذاب شدید ترین تھا تو اس کے لیے عذاب کا عالم کیا ہوگا۔ 1 ؎۔ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، المیت یعوض علیہ مقعد، جلد 1، صفحہ 184 حضرت ابن مسعود ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہ روایت نقل کی ہے :” بیشک بندہ جو مومن کی حیثت سے پیدا ہوتا ہے مومن کی حیثیت سے زندہ رہتا ہے اور مومن کی حیثیت سے مرتا ہے ان میں سے حضرت یحییٰ بن زکریا ہیں وہ مومن کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں، مومن کی حیثیت سے زندہ رہے اور مومن کی حیثیت سے فوت ہوئے اور ایک بندہ کافر کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے کافر کی حیثیت سے زندہ رہتا ہے اور کافر کی حیثیت سے مرتا ہے ان میں سے ایک فرعون ہے کافر کی حیثیت سے پیدا ہوا، کافر کی حیثیت سے زندہ رہا اور کافر کی حیثیت سے مرا “۔ نحاس نے اس کا ذکر کیا۔ فراء نے آیت میں تقدیم و تاخیر کا قاعدہ جاری کیا ہے تقدیر کلام یوں ہے ادخلو ال فرعون اشد العذاب۔ النار یعرضون علیھا عدوا عشیا عرض آخر میں رکھا یہ نقطہ نظر اس کے خلاف ہے جو جمہور کا نقطہ نظر ہے کہ کلام کو اس کے سیاق پر رکھتے ہیں، جس طرح یہ گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top