Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
پس اللہ نے اس کو ان کی چالوں کی آفتوں سے محفوظ رکھا، اور آل فرعون کو بدترین عذاب نے گھیر لیا
فَوَقٰـہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ ۔ (المؤمن : 45) (پس اللہ نے اس کو ان کی چالوں کی آفتوں سے محفوظ رکھا، اور آل فرعون کو بدترین عذاب نے گھیر لیا۔ ) مخالفین کی سازشوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت سیاقِ کلام کو دیکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ مردمومن کی حق گوئی کے نتیجے میں حالات تیزی سے بگڑے۔ فرعون اور اس کے حواریوں نے مردمومن پر براہ راست ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ وہ اس وہم میں مبتلا ہوگئے تھے کہ جس سچائی نے مردمومن کو اتنے بڑے اقدام پر مجبور کردیا ہے نہ جانے وہ سچائی کس کس دل میں اتر چکی ہے۔ ممکن ہے کہ عمائدینِ سلطنت میں سے اور بھی کچھ لوگ مردمومن کی طرح خفیہ ایمان لا چکے ہوں اور وقت آنے پر اپنے ایمان کا اظہار کریں۔ اس لیے اندر ہی اندر یہ کھوج لگانے کی کوششیں تیز ہوگئیں کہ ایسے لوگ جو اس سچائی سے متأثر ہیں ان کا سراغ لگایا جائے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ صورتحال ایک عرصے تک چلتی رہی۔ لیکن انھوں نے مردمومن کے لیے زندگی اجیرن بنادی۔ اس کو قتل کرنے کی سازشیں تو کامیاب نہ ہوسکیں لیکن اس کو بدنام کرنے اور اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ ممکن ہے کہ تعزیر اور تعذیب کے شکنجوں میں اسے کسا گیا ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان مکروہات اور مصائب سے مردمومن کو محفوظ رکھا جو فرعون اور آل فرعون کے پیش نظر تھے۔ اسی دوران وہ وقت آگیا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو صاحب ایمان لوگوں کو ساتھ لے کر ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ اور فرعون ان کا پیچھا کرتے ہوئے بحرِقلزم تک جا پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحابِ ایمان کو بحرقلزم سے خیریت سے گزار دیا۔ لیکن فرعون اپنے لشکروں سمیت بحرقلزم میں غرق کردیا گیا۔
Top