Tafseer-e-Haqqani - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
پھر اللہ نے اس کو تو ان کے فریبوں کی برائی سے بچایا اور خود فرعونیوں پر سخت عذاب آپڑا
تفسیر : اس کے بعد خدا تعالیٰ اس مومن کے ایمان کا نتیجہ بیان کرتا ہے جو دنیا میں بھی اس کے سامنے آیا اور فرعونیوں کا انجام کار بیان فرماتا ہے۔ فقال فوقہ اللہ کہ اللہ نے اس مومن کو فرعونیوں کے فریب و ایذاء سے جو اس کو مومن سمجھ کردینا چاہتے تھے بچالیا اور خود فرعونیوں پر بڑا عذاب آپڑا کہ وہ اول تو طرح طرح کی مصیبتوں میں جو موسیٰ ( علیہ السلام) کی بددعا سے ان پر آئیں، مبتلا ہوئے، پھر بحر قلزم میں غرق ہوئے اور مرنے کے بعد ان کا یہ حال ہوا۔ النار یعرضون الخ کہ صبح و شام آتش جہنم کے سامنے کئے جاتے ہیں۔ صبح و شام سے مراد خاص یہی دو وقت نہیں بلکہ دوام مراد ہے۔ اس کو محاورہ میں صبح و شام سے تعبیر کیا کرتے ہیں اور آگ کے سامنے لائے جانے سے مراد اس کا دکھایا جانا ہے، یا کمتر عذاب ہونا بہ نسبت آخرت کے بعض کہتے ہیں۔ آگ میں داخل ہونا مراد ہے بولتے ہیں۔ عرضہم علی السیف اذا قتلہم، بخاری و مسلم وغیرہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر میت کو صبح و شام اس کا اصلی ٹھکانا دکھایا جاتا ہے۔ اگر جہنمی ہے تو جہنم اور جنتی ہے تو جنت اور کہہ دیا جاتا ہے قیامت کے روز تیرا یہ ٹھکانا ہوگا۔ یہ عالم برزخ کی سزاء و جزا ہے جو ارواح کو ہوتی ہے اور یہ سزا بہ نسبت اصلی سزا کے جو قیامت کے روز ہوگی، کم ہوتی ہے۔ جیسا کہ قید سے پہلے حوالات ہوتی ہے۔ یہ آیت صاف دلیل ہے کہ مرنے کے بعد عذاب قبر ہوگا اور ثواب بھی جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ برخلاف معتزلہ کے وہ حشر کے روز جزاء و سزا ہونا کہتے ہیں اور اس درمیانی زمانہ کو خالی قرار دیتے ہیں۔ بدلیل قولہ تعالیٰ من بعثنا مرقدنا اس کو خواب کا زمانہ کہتے ہیں۔ مرقدناکے معنی ہم سورة یٰسٓ کی تفسیر میں بیان کر آئے ہیں، علاوہ اس آیت کے اہل سنت کے عقیدہ کے اثبات کے لیے بیشمار صحیح حدیثیں بھی وارد ہیں اور عذاب وثواب قبر پر جو نظر نہ آنے کا اعتراض ہے، اس کا جواب ہم دے چکے ہیں اور عالم آخرت میں یہ ہوگا۔ ویوم تقوم الساعۃ الخ اور جس دن قیامت برپا ہوگی حکم ہوگا کہ فرعونیوں کو پوری سزا اور سخت عذاب میں لے جائو۔ واذ یتحا جون یہاں سے دوزخ میں ان کی باہم تکرار ہونا بیان فرماتا ہے کہ جو دنیا میں کمزور اور تابع تھے اپنے سرداروں سے کہیں گے ایک دن کے لیے تو ہمارے عذاب کو دفع کردو تمہاری فرمان برداری کرنا کیا کام آوے گی، وہ کہیں گے ہم خود اس میں مبتلا ہیں اور جہنم کے فرشتوں سے ناچار ہو کر تخفیف کی درخواست کریں گے، وہ کہیں گے کیا دنیا میں رسول تمہارے پاس نشانیاں لے کر نہ آئے تھے ؟ وہ کہیں گے آئے تھے فرشتے کہیں گے اب تم پڑے پکارا کرو تمہاری شنوائی نہیں۔ کافروں کی پکار نہیں سنی جاتی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ دنیا میں کافروں کی دعا نہیں سنی جاتی۔
Top