Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
آخرکار اللہ نے اس کو بچا لیا ان تمام بری چالوں سے جو ان لوگوں نے اس کے خلاف چلی تھیں اور گھیر لیا فرعون والوں کو اس برے عذاب نے (جو ان کا مقدر بن چکا تھا)
92 حفاظت اصل میں اللہ ہی کی حفاظت ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ نے بچا لیا اس مرد مومن کو ان تمام بری چالوں سے جو دشمنانِ حق نے اس کے خلاف چلی تھیں۔ قتادہ وغیرہ سے روایت ہے کہ اس کے بعد اس مرد مومن نے فرعون سے بھاگ کر ایک پہاڑی میں پناہ لے لی۔ جس پر فرعون نے ایک ہزار کا لشکر اس کے تعاقب میں بھیجا مگر ان میں سے کچھ تو پیاس کے مارے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کچھ کو درندوں نے پھاڑ کھایا اور جو باقی ماندہ واپس پہنچے ان کو فرعون نے سازش کی تہمت میں قتل کردیا۔ اور اس طرح وہ ہزار کا ہزار پورا لشکر ختم اور واصل جہنم ہوگیا۔ (قرطبی، مدارک، و جیز وغیرہ) ۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے اللہ والوں اور اہل حق و اہل توحید سے عداوت و دشمنی رکھنے کا۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں فرمایا گیا ۔ " مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہ بالْحَرْب " ۔ یعنی " جس نے میرے کسی پیارے سے دشمنی رکھی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے " ۔ اور جس کے خلاف حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کی طرف سے اعلان جنگ ہو اس کی تباہی اور بدبختی کا ٹھکانا ہی کیا ہوسکتا ہے۔ ۔ والعیاذ باللّٰہِ الذِّی لٓا اِلٰہ غیرُہ جَلَّ وعَلا ۔ اَللّٰہُمَّ خُذْنَا بِنَوَاصِیْنَا اِلٰی ما فِیْہِ حُبُّکَ وَرِضَاکَ یا ارحم الراحمین ویا اکرم الاکرمین ۔ سو اس سے یہ حقیقت واضح فرما دی گئی کہ مصائب و مشکلات میں کام آنے والی اور شرور و فتن سے بچانے والی ذات اللہ وحدہ لاشریک ہی کی ذات اقدس و اعلیٰ ہے۔ اور حفاظت اصل میں اسی کی حفاظت ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ پس بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اسی وحدہ لاشریک پر ہونا چاہیئے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ جل وعلا شانہ - 93 آل فرعون برے عذاب کی گرفت میں ۔ والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " گھیر لیا فرعون والوں کو اس برے عذاب نے جو انکا مقدر بن چکا تھا "۔ دنیا میں اس طرح کہ یہ لوگ اپنے شاہی محلوں سے خود نکل کر جا کر بحیرئہ قلزم میں غرقاب ہوئے اور آخرت میں اس طرح کہ وہاں پر ہمیشہ کے لئے عذاب جہنم میں مبتلا ہوئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس مرد مومن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا اور فرعونی اپنے جبر و تشدد اور ظلم و ستم کی اپنی سب کوششوں کے باوجود اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ لیکن خود یہ لوگ اس برے عذاب میں جو انکا مقدر بن چکا تھا ایسے گھر کر رہ گئے کہ اس سے بچ نکلنے کی پھر کوئی صورت ان کیلئے ممکن نہ ہوسکی۔ اور یہ اپنے دائمی انجام اور ہولناک عذاب سے دوچار ہو کر رہے۔ اس سے پہلے حضرت موسیٰ کی دعوت حق کے دوران فرعونیوں پر جو مختلف قسم کے عذاب آتے رہے تھے وہ تنبیہ و تذکیر کے طور پر تھے۔ اور وہ مومن و کافر سب ہی کو پیش آئے کہ انکا اصل مقصد ابتلاء و آزمائش تھا۔ جس میں سب ہی شریک تھے۔ جبکہ یہ عذاب جو فرعونیوں کی سزا کے طور پر آیا اہل ایمان اس سے محفوظ رہے لیکن فرعونیوں کی اس نے جڑ کاٹ کر رکھ دی ۔ والعیاذ باللہ -
Top