Tafheem-ul-Quran - Al-Ghaafir : 45
فَوَقٰىهُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِ مَا مَكَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِۚ
فَوَقٰىهُ : سو اسے بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے سَيِّاٰتِ : بُرے مَا مَكَرُوْا : داؤ جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لیا بِاٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والوں کو سُوْٓءُ الْعَذَابِ : بُرا عذاب
آخر کار اُن لوگوں نے جو بُری سے بُری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں، اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا 61 ، اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ 62
سورة الْمُؤْمِن 61 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص فرعون کی سلطنت میں اتنی اہم شخصیت کا مالک تھا کہ بھرے دربار میں فرعون کے رو در رو یہ حق گوئی کر جانے کے باوجود علانیہ اس کو سزا دینے کی جرأت نہ کی جاسکتی تھی، اس وجہ سے فرعون اس کے حامیوں کو اسے ہلاک کرنے کے لیے خفیہ تدبیریں کرنی پڑیں، مگر ان تدبیروں کو بھی اللہ نے نہ چلنے دیا۔ سورة الْمُؤْمِن 62 اس طرز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مومن آل فرعون کی حق گوئی کا یہ واقعہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کے بالکل آخری زمانے میں پیش آیا تھا۔ غالباً اس طویل کشمکش سے دل برداشتہ ہو کر آخر کار فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کردینے کا ارادہ کیا ہوگا۔ مگر اپنی سلطنت کے اس با اثر شخص کی حق گوئی سے اس کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہوگا کہ موسیٰ ؑ کے اثرات حکومت کے بالائی طبقوں تک میں پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہوگا کہ حضرت موسیٰ کے خلاف یہ انتہائی اقدام کرنے سے پہلے ان عناصر کا پتہ چلایا جائے جو سلطنت کے امراء اور اعلیٰ عہدہ داروں میں اس تحریک سے متأثر ہوچکے ہیں، اور ان کی سرکوبی کرلینے کے بعد حضرت موسیٰ پر ہاتھ ڈالا جائے۔ لیکن ابھی وہ ان تدبیروں میں لگا ہی ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے دیا، اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے فرعون اپنے لشکروں سمیت غرقاب ہوگیا۔
Top