Tafseer-e-Saadi - Az-Zukhruf : 84
وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہ اللہ وہ ذات ہے فِي السَّمَآءِ : جو آسمان میں اِلٰهٌ : الہ ہے وَّفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اِلٰهٌ : الہ ہے ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ : اور وہ حکمت والا ہے، علم والا ہے
اور وہی (ایک) آسمانوں میں معبود ہے اور (وہی) زمین میں معبود ہے اور وہ دانا (اور) علم والا ہے
آیت 84 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں وہ اکیلا ہی معبود ہے پس آسمان کی تمام مخلوق اور زمین پر بسنے والے اہل ایمان اس کی عبادت و تعظیم کرتے ہیں، اس کے جلال کے سامنے سرنگوں اور اس کے کمال کے محتاج ہیں۔ (آیت) ” ساتوں آسمان، زمین اور ان کے اندر جو بھی ہے، سب اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ “ اور فرمایا : (آیت) ” اور آسمانوں اور زمین اور زمین کے تمام باسی چاہتے اور نا چاہتے ہوئے اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے، تمام مخلوق جس کی خوشی اور ناخوشی سے عبادت کرتی ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس قول کے مانند ہے۔ (آیت) ” یعنی اس کی الوہیت اور محبت آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ خود تمام مخلوق سے جدا اپن عرش پر ہے، وہ اپنے جلال میں یکتا اور اپنے کمال کے ساتھ بزرگی کا مالک ہے (وھم الحکیم) ” اور وہ حکمت والا ہے۔ “ جس نے اپنی مخلوق کو نہایت محکم طور پر تخلیق کیا اور اپنی شریعت کو نہایت مہارت سے وضع کیا۔ اس نے جو چیز بھی پیدا کی کسی حکمت ہی کی بنا پر پیدا کی، اس کا حکم کونی وقدری، حکم شرعی اور حکم جزائی تمام تر حکمت پر مشتمل ہے۔ (العلیم) وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، وہ ہر بھید اور مخفی معاملے کو جانتا ہے عالم علوی اور عالم سفلی میں چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں۔ (آیت) ” اور بابرکت ہے وہ ذات جس کی آسمانوں، زمین اور جو ان کے درمیان موجود ہے، سب پر حکومت ہے۔ “ (تبارک) کا معنی ہے کہ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے، اس کی بھلائیاں بےشمار، اس کی صفات لا محدود اور اس کی سلطنت بہت عظیم ہے، بنا بریں فرمایا کہ اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز پر حاوی ہے، اس کا علم بہت وسیع ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے حتی کہ تمام امور غیب کا وہ اکیلا ہی علم رکھتا ہے جن کا علم کوئی نبی مرسل کوئی مقرب فرشتہ اور مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں رکھتی، اس لئے فرمایا : (وعندہ علم الساعۃ) یہاں افادہ حصر کے لئے ظرف کو مقدم رکھا ہے، یعنی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی ؟ اس کا کامل اقتدار اور اس کی وسعت یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت کا مالک ہے۔ اس لئے فرمایا : (والیہ ترجعن) ” اور تم (اخرت میں) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ “ اور وہ تمہارے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ یہ اس کا کامل اقتدار ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کسی چیز کا کوئی ہستی کوئی اختیار نہیں رکھتی اور اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں کوئی کسی قسم کی سفارش نہیں کرسکے گا، پس فرمایا : (آیت) ” یعنی انبیاء فرشتوں اور یدگر لوگوں میں سے ایسی تمام ہستیاں جنہیں اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے، وہ سفارش کا اختیار نہیں رکھتیں، وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گی اور صرف اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔ بنابریں فرمایا : (الا من شھد بالحق) یعنی جس نے دل سے حق کا اقرار کرتے ہوئے اور جس امر کی شہادت دی جا رہی ہے اس کا علم رکھتے ہوئے زبان سے حق کی شہادت دی اور اس شرط کے ساتھ کہ یہ شہادت حق کے ساتھ شہادت ہو اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی وحدانیت کی شہادت اس کے رسولوں کے لئے ان کی نبوت و رسالت کی شہادت اور دین کے اصول پر فروع، اس کے حقائق اور شرائع کی شہادت جنہیں لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں۔ پس یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں سفارش کرنے والوں کی سفارش فائدہ دے گی اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پائیں گے اور اس کا ثواب حاصل کریں گ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ) یعنی اگر آپ مشرکین سے توحید ربوبیت کے بارے میں پوچھیں کہ اس کائنات کا خلاق کون ہے تو وہ اقرار کریں گے کہ اللہ واحد جس کا کوئی شریک نہیں، اس کائنات کا خالق ہے۔ (فانی یوفکون) یعنی تب اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس اکیلے کے لئے اخلاص سے کہاں منہ موڑے جا رہے ہیں۔ پس ان کا توحید ربوبیت کا اقرار، ان پر توحید الوہیت کے اقرار کو لازم ٹھہراتا ہے اور یہ شرک کے بطلان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ (آیت) ” اور پیغمبر کا یہ کہنا کہ اے میرے رب ! یقیناً یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ “ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” اور اس کے پاس قیامت کا علم ہے۔ “ پر معطوف ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ کے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کی تکذیب کے وقت، اپنے رب کے پاس شکوہ کرتے ہوئے نہایت حزن و غم اور اپنی قوم کے عدم ایمان پر نہایت حسرت کے ساتھ دعا کرنے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس حال کا علم رکھتا ہے اور ان کو فوراً سزا دینے پر قادر ہے مگر وہ نہایت برد بار ہے وہ اپنے بندوں کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے۔ اس لئے فرمایا : (فاصفح عنھم وقل سلم) ان کی طرف سے آپ کو جو قولی اور فعلی اذیت پہنچتی ہے اس پر ان سے درگزر کیجیے اور ان کو معاف کردیجیے۔ آپ کی طرف سے ان کے لئے سلام ہی ہونا چاہیے جس کے ذریعے سے عقل مند اور اہل بصیرت جاہلوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرمایا : (واذا خاطبھم الجھلون) (الفرقان :63/20) ” جب ان سے جہلاء مخاطب ہوتے ہیں۔ “ یعنی ایسا خطاب جو ان کی جہالت کے تقاضے پر مبنی ہوتا ہے۔ (آیت) ” تو ان کو کہہ دیتے ہیں ” تمہیں سلام ہو۔ “ پس رسول مصطفیٰ ﷺ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور آپ کی قوم نے آپ کو جو اذیتیں دیں ان کا عفو درگزر کے ساتھ منا کیا اور آپ ان کے ساتھ صرف حسن سلوک اور حسن کلام سے پیش آئے۔ پس اللہ تعالیٰ کے درود وسلام ہوں اس مقدس ہستی پر جسے اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم سے مختص فرمایا اور اس کے ذریعے سے زمین و آسمان کے رہنے والوں کو فضیلت بخشی اور آپ اس خلق عظیم کے ذریعے سے ستاروں سے زیادہ بلندیوں پر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (فسوف یعلمون) تو عنقریب انہیں اپنے گناہوں اور جرائم کا انجام معلوم ہوجائے گا۔
Top