Mualim-ul-Irfan - Az-Zukhruf : 84
وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہ اللہ وہ ذات ہے فِي السَّمَآءِ : جو آسمان میں اِلٰهٌ : الہ ہے وَّفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اِلٰهٌ : الہ ہے ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ : اور وہ حکمت والا ہے، علم والا ہے
اور وہ وہی ذات ہے آسمان میں معبود اور زمین میں معبود اور وہ حکمت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
ربط آیات اس سورة مبارکہ میں جس قدر مضامین بیان ہوئے ہیں ان کا اعادہ سورة کے آخر میں کیا جا رہا ہے ۔ مکی سورة ہونے کے ناطے اس میں توحید اس کے عقلی اور نقلی دلائل ، شرک کا ابطال ، مشرکین کا رد ، رسالت و نبوت ، معاد اور جزائے عمل جیسے مضمون آنے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت خاتم النبین ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کے لئے تسلی کا مضمون بھی آیا ہے۔ اب انہی مضامین کا خلاصہ سورة کے آخر میں بیان کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ توحید آج کے درس میں پہلے توحید کا مسئلہ بیان ہوا ہے وھو الذی فی ………… اور وہ وہی ذات ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور…… میں بھی معبود ہے یعنی اس کے سوا ارض و سما میں کوئی معبود نہیں۔ الوہیت کا مالک صرف وہی ہے۔ آسمانی مخلوق میں فرشتے ہیں۔ ان کو بھی الوہیت کا درجہ حصال نہیں ہے۔ یا پھر آسمانی کرے سورج ، چاند اور دیگر سیارے اور ستارے ہیں ، مگر ان میں سے کوئی بھی معبود نہیں ہے۔ …… انسان جن چرند پرند ، شجر و حجر میں مگر کوئی بھی مستحق عبادت نہیں یہ سب مخلوق ہیں جب کہ لائق عبادت سابق ہی ہو سکتا ہے مشرک لوگ فرشتوں ، ستاروں اور سیاروں کو الہ مانتے ہیں۔ خود انسا نفرشتوں اور جنات کی پوجا کرتے ہیں۔ کبھی سیاروں ، ستاروں اور حجر و شجر میں کرشمہ مانتے ہیں کبھی زندوں اور کبھی قبر والوں کے سامنے نظر و نیاز پیش کرتے اور کبھی ان کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔ مگر اللہ نے فرمایا کہ آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک اللہ جل شانہ کے علاوہ کوئی بھی معبود نہیں ۔ عبادت انتہائی درجے کی عاجزی اور نیاز مندی کو کہتے ہیں جو کہ خدائے وحدہ لاشریک کے ساتھ ہی وابستہ ہے جو مافوق الاسباب تمام چیزوں پر تصرف رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے وھو الحکیم العلیم کو وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی اس کا کوئی کام حکمت سے خلای نہیں او وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے اس کے علاوہ کوئی بھی علیم کل نہیں ، لہٰذا عبادت کے لائق بھی وہی ہے۔ آگے فرمایا ……………اور بڑی ہی بابرکت وہ ذات ہے جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے وما بینھما اور جو کچھ ان دونوں یعنی آسمان کے درمیان ہے ، وہاں بھی اللہ مالک الملک ہی کی بادشاہی ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ مطل بیہ کہ عرش سے لے کر فرش تک اسی کا تصرف ہے اور اس میں کسی مخلوق کا کوئی دخل نہیں۔ یہ مسئلہ توحید بیان ہوگیا اور ساتھ مشرکین کا رد بھی۔ وقوع قیامت کا علم آگے وقوع قیامت اور جزائے عمل کے بارے میں فرمایا وعندہ علم الساعۃ اسی کے پاس ہے قیامت کا علم کہ وہ کب آئیگی۔ اس کے سوا وقوع قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔ سورة الاعراف میں تصریح موجود ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اے پیغمبر ! لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ وہ کب آئے گی۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ قیامت کا علم میرے پروردگار کے پاس ہی ہے لایجلھا الوقتھآ الا ھو (ایت 87- ) وہ اسے اس کے وقت پر اظہر کرے ا۔ ہاں وقوع قیامت سے پہلے بعض نشانیوں کا علم ابتدا نے اپنے انبیاء کو بتایا ہے جن کا ذکر احادیث میں موجود ہے مثلاً یہ کہ مسلمانوں میں تصرف پیدا ہوجائے گا امام صادق کا ظہور ہوگا قبیح (علیہ السلام) کا آسمان سے نزول ہوگا دجال کا ظہور ہوگا جسے مسیح (علیہ السلام) قتل کریں گے۔ یاجوج ، ماجوج کی یورش سورج کا مغرب سے طلوع مشرق ، مغرب اور جزیرۃ العرب میں خسوف وغیرہ۔ بہرحال اللہ نے قیامت کے عین وقوع کا علم کسی کو نہیں دای۔ تو فرمایا کہ اسی کے پاس ہے قیامت کی خبر والیہ ترجعون اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے عقائد و اعمال کا بھگتنان کرنا ہے۔ ملہ شفات آگے شفاعت کا سند بھی اللہ نے بیان فرمایا ہے اور اس کا تعلق بھی معیاد سے ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ولا یملک الذین یدعون من دونہ السفۃ اور جن ک یہ مشرک لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کوئی اختیار نہیں رکھتے جن کو مشرک لوگ اپنی حاجتوں میں پکارتے ہیں یا ان کی عبادت کرتے ہیں وہ یا تو مٹی اور پتھر کے بت ہیں جو بےجان چیزیں ہیں جو روح اور عقل و شعور سے خلای ہیں اور یا پھر اگر جاندار ہیں۔ فرشتے ، انبیاء ، اولیاء ہیں تو وہ ایسے بےاختیار ہیں اور سفارش کے مالک نہیں ہیں۔ اللہ کا واضح ارشاد موجود ہے قل اللہ الشفاعۃ جمعاً (الزمر 44- ) آپ کہہ دیجیے کہ شفاعت تو ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ سفارش کے بارے میں اللہ نے قانون یہ بیان فرمایا ہے الا من شھد بالحق کہ سفارش کا کسی کو اختیار نہیں سوائے اس کے کہ جس نے حق کی گواہی دی یعنی جس نے کلمہ توحید کو قبول کیا وھم یعلمون اور وہ جانتے بھی ہیں کہ کن لوگوں کے حق میں سفارش کی جاسکتی ہے۔ جس شخص نے خود کلمہ توحید قبول نہیں کیا۔ وہ سفارش کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔ اس کے اہل تو اللہ کے انبیاء شہداء اور صالحین لوگ ہی ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ایسے لوگوں کی سفارش کریں گے جن کا خاتمہ کلمہ توحید پر وہ گا۔ مگر اعمال میں کچھ کرتا ہی رہ گئی تھی۔ اللہ کا کوئی مقرب ترین بندہ بھی کسی کا فر مشرک یا منافق کے حق میں سفارش نہیں کرسکے گا اور جن کے حق میں گواہی دی جاسکے گی یعنی سفارش کی جاسکے گی وہ بھی وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے کلمہ حق کو قبول کر کیا۔ کسی ایسے شخص کی سفارش نہیں ہوگی جس نے ایمان قبول نہ کیا ہو۔ سورة طہ میں ہے کہ قیامت والے دن کسی کے حق میں سفارش مفید نہیں ہوگی الا من اذن لہ الرحمٰن و رضی لہ قولاً (آیت 9- ) سوائے اس کے کہ جس کے لئے اللہ تعالیٰ اجازت دیں گے اور جس کی بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہوگی اور اللہ تعالیٰ ایمان کے کلمہ کو ہی پسند کرتا ہے ولا یرضی لعبادہ الکفر (الزمر 7- ) اور اللہ اپنے بندوں سے کفر کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اس کا قانون یہی کہ وہ اپنے انبیاء و کتب کے ذریعے حق کو واضح کردیتا ہے اور پھر اختیار بندے کو دے دیتا ہے فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر (الکہف - 29) کہ جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختایر کرے۔ تو سفارش اسی کے حق میں قبول ہوگی جو ایمان لائے گا۔ البتہ مشرک لوگ جس قسم کی سفارش کا عقیدہ رکھتے ہیں ، اس کی کوئی حیثیت نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ راضی ہو یا نا راض ان کے معبود ہر حالت میں ان کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو ضروری ہی قبول بھی کرے گا۔ اس طرح کی جبری اور قہری سفارش کی نفی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ مجبور نہیں ہے کہ وہ کسی کی سفارش ضرور ہی قبول کرے بلکہ اس کا فرمان تو یہ لایشفع عندہ الا باذنہ (البقرۃ 255- ) اس کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی جرأت بھی نہیں ہوگی چہ جائیکہ وہ کسی کی سفارش قبول کرنے پر مجبور ہو۔ اللہ نے یہ اختیار اور اقتدار کا مسئلہ بھی بیان فرما دیا ہے۔ اللہ کی صفت خالقیت آگے اللہ نے اپنی توحید کے سلسلے میں صفت خالقیت کا ذکر فرمایا ہے ولئن سالتھم من خلقھم اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں پیدا کس نے کیا ہے لیقولن اللہ تو ضرور کہیں گے کہ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ خلاق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے سوا کوئی خالق نہیں۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ توحید کے چار درجات میں سے وہ درجات میں تو اہل ایمان ، کافر ، مشرک ، اہل کتاب ہنود وغیرہ سب متفق ہیں اور وہ درجات میں مختلف ہوجاتے ہیں توحید کے پہلے دور ……میں سے پہلا درجہ صفت خالقیت کا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں اور دوسرا درجہ واجب الوجود ہونے کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا وجود خود بخود ازلی اور ابدی ہے اور یہ کسی کا عطا کردہ نہیں اس درجہ میں بھی دہریوں کی ایک قلیل تعداد کے سوا مذہب و ملت والے متفق ہیں کہ واجب الوجود بھی صرف اللہ ہے ، باقی تمام مخلوق کا وجود اللہ کا عطا کردہ ہے اور ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے۔ البتہ باقی دور درجات یعنی تدبیر اور عبادت میں اہل ایمان ایک طرف اور باقی لوگ دوسری طرف ہوجاتے ہیں۔ اہل ایمان کا عقیدہ یہ ہے …………آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے وہی ہر چیز کو حد کمال تک پہنچاتا ہے اور اس معاملہ میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کے برخلاف بعض لوگ فرشتوں ، جنوں ، اولیائ ، اللہ ، انبیاء اور اہل قبور کو بھی مدبر مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی ان کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط عقیدہ ہے۔ جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو ایک مومن عبادت بھی اللہ کے سوا کسی کی نہیں کرتا۔ جب کہ کافر مشرک اور بدعتی دوسوں کو بھی حد درجہ تنظیم کرتے ہیں۔ ان کو نذر و نیاز پیش کرتے ہیں اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ یہ بھی شرک کا ارتکاب ہے جب کہ ایک مومن آدمی میں توحید کے چاروں درجات پائے جاتے ہیں۔ بہر حال یہاں پر صفت خالقیت کا ذکر ہو رہا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ آپ ان سے سوال کرتے دیکھ لیں۔ یہ لوگ لازماً یہی کہیں گے کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے۔ فرمایا اگر یہ بات فانی یوفکون توبہ لوگ کدھر پھیرے جاتے ہیں۔ یہ کس اندھیرے میں ٹکریں مار رہے ہیں۔ جب خلاق اللہ ہے تو پھر تدبر بھی وہی ہے اور عبادت کے لائق بھی صرف وہی ہے یہ مشرکوں اور کافروں کا رد بھی ہوگیا کہ اتنے دلائل و شوال کے وجود لوگ شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان دلائل پر ذرا بھی غور کریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے۔ جو لوگ نبی اء کی بعثت کتابوں کے نزول ، مبلغین کی تبلیغ کے باوجود کفر اور شرک کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ بےنصیب ہی ہو سکتے ہیں۔ اللہ کے حضور شکایت اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی اس شکایت کا ذکر کیا ہے جو اس نے اللہ کی بارگاہ میں پیش کی۔ اللہ کے ہر نبی اور خصوصاً حضور خاتم النبین ﷺ نے ایمان کی دعوت دینے میں اپنی انتہائی کوشش کی ، عمر بھر تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اس راہ میں تمام تر مشکلات کو عبور کیا۔ ماریں کھائیں ، طعنے سنے اور ہر طرح کی جسمانی اور ذہنی اذیت برداشت کی مگر لوگوں کی اکثریت پھر بھی ایمان نہ لائی۔ چناچہ اللہ کا نبی جب دن رات محنت کر کے تھک جاتا ہے تو پریشان ہو کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے۔ وقیبلہ اور قسم ہے نبی کی اس بات کی یرب ان ھولآء قوم لایومنون اے میرے پروردگار۔ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے میں نے پوری پوری کوشش کی ہے مختلف طریقوں اور مثالوں سے بات اور سمجھانے کی کوشش کی ہے مگر ان پر ذرہ بھر بھی اثر نہیں ہوا اور یہ ایمان نہیں کرتے۔ گویا اللہ نے اپنے نبی کے اس درد بھرے قول کی قسم اٹھانی ہے جس سے کافروں اور مشرکوں کی بدبختی کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح کی ایک شکایت کا ذکر سورة الفرقان میں بھی موجود ہے۔ وقال الرسول یرب ان قوی اتخذہ اھدالقرآن مھجور (آیت 30- ) اللہ کا رسول قیامت والے دن بارگاہ رب العزت میں شکایت پیش کرے گا کہ اے میرے پروردگار ! میری اس قوم نے اس قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ ان کو تیرے قرآن کا پروگرام پسند نہ آیا ، لہٰذا یہ زندگی میں عمل درآمد کے لئے ادھر ادھر قانون حاصل کرتے ہے ، اب تو ہی ان کے درمیان فصلہ فرما۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر نبی اپنی امت کے لئے نہایت ہی ہمدرد غم خوار اور خیر خواہ ہوتا ہے ہود (علیہ السلام) نے بڑی درد مندی سے قوم کو سمجھایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچاتا ہوں وانالکم ناصح مبین (الاعراف 68- ) میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور امانت دار بھی کہ اللہ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا رہا ہوں ، لہٰذا میری بات سنو اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئو۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی قوم سے درد بھرے لہجے میں فرمایا ، اے میری قوم کیلوگو : لقد ابلغتکم رسلت ربی ونصحت لکم (الاعراف 93) تحقیق میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور تمہارے ساتھ خیر خواہی کر رہا ہوں۔ لہٰذا میری بات کو تسلیم کرلو۔ اور پھر امت کے حق میں سب سے بڑھ کر حضور خاتم النبین ﷺ ہیں ، جنہوں نے قوم کو سمجھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور کہا لوگو ! قولوا لا الہ الا اللہ لفلحوا کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کلمہ ایمان اور کلمہ توحید کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو جائو گے۔ تو اللہ نے اپنے نبی کے اس درد بھرے قول کی قسم اٹھائی ہے کہ پروردگار ! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے مطلب یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا خلاق اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر پھر بھی مخلوق کی عبادت پر اصرار کر رہے ہیں اور اللہ کا نبی بڑے دکھ بھرے انداز میں کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں اتے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی درد بھری بات کے جواب میں آپ کو تسلی دی ہے کہ آپ ان کفار و مشرکین کی باتوں کو خطار میں نہ لائیں بلکہ فاصفح عنھم ان سے درگزر کریں۔ آپ ان کی حرکت سے دل برداشتہ نہ ہوں فانما علیک البلغ وعلینا الجسات (الرعد 40- ) کیونکہ آپ کے ذمہ میرا پغیام پہنچا دینا ہے اس کے بعد اگر کوئی نہیں مانتا تو پھر حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ولا تسئل عن اصحب الجحیم (البقرۃ 119- ) اور دوزخ میں جانے والوں کے متعلق آپ سے نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں یہاں آئے بلکہ خود ان سے سوال ہوگا مابلککم فی سقر (المدثر 42- ) کو تم جہنم میں کیسے پہنچے ؟ نبیوں کا کام یہ ہے کہ وہ حق تبلیغ ٹھیک طریقے سے ادا کردیں اور یہ امانت امت تک پہنچا دیں۔ اب منزل مقصود تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کو ن شخص ایمان حاصل کرنے کے قابل ہے اور کون نہیں۔ فرمایا آپ درگزر کریں ، ان سے تعرض نہ کریں وقل سلم انہیں سلام کہہ کر الگ ہوجائیں۔ اسے سلام متارکت کہتے ہیں۔ جب تم کسی طرح نہیں مانتے تو پھر ہم تمہارے ساتھ لڑائی جھگڑا تو نہیں کریں گے بلکہ علیحدگی اختیار کرلیں گے تم اپنا کام کرتے رہو ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔ مگر ایک بات یاد رکھو فسوف یعلمون تمہیں عنقریب ہی معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ بعض نتائج دنیا میں سامنے آجائیں گے اور پھر آخرت میں تو حتمی فیصلے ہوں گے سب کو پتہ چل جائے تاکہ انہوں نے دنیا میں کون سا طرز عمل اختیار کیا۔ اللہ کے نبی ان کو کس بات پر آماد ہ کرتے رہے اور یہ لوگ کیا جواب دیتے رہے۔ یہ سب باتیں سامنے آجائیں گی اور پھر حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوں گے۔ اس طرح اللہ نے سورة کے آخر میں اپنے نبی کے لئے تسلی کا سامان بھی مہیا کردیا۔
Top